خواجہ سرا+بھیک اور بھکاری مافیا!
عدالت عظمیٰ نے ملک میںپائی جانے والی تیسری جنس خواجہ سراﺅں کے حوالے سے کافی مثبت فیصلے کئے، ان کو ووٹ کا بھی حق دیا گیا اور اُن کے لئے روزگار کے وسائل پیدا کرنے کی بھی بات کی گئی، لیکن زمینی حقائق ذرا مختلف ہیں۔ یہ خواجہ سرا حضرات ماضی میں گا بجا کر روزی پیدا کر لیتے تھے، محلے میں کسی کے ہاں نرینہ اولاد پیدا ہوتی تو محلے داروں کو خواجہ سراﺅں کی مبارک باد اور ناچ گانے سے پتہ چلتا تھا۔ یہ لوگ باقاعدہ تربیت حاصل کر کے یہ پیشہ اپناتے تھے اور پھر بتدریج وقت بدل گیا۔ یہ مبارک و بارک کا سلسلہ ماند پڑتا چلا گیا کہ ایک تو لوگوں کے خوشی منانے کے انداز تبدیل ہو گئے اور دوسرے دیسی طرز کی جگہ پاپ میوزک لیتا چلا گیا۔ ان خواجہ سراﺅں کو روزی کے لالے پڑے اور پھر یہ گھر گھر بھیک مانگنے پر اُتر آئے۔اب تو صورت حال اور بھی بدتر ہوتی جا رہی ہے کہ ان کو گھروں سے بھی جواب ملنے لگا ہے، یہ دروازے بجا کر تالی بجاتے اور آواز لگاتے ہیں ”صائمہ آئی ہے“ جی ہاں! نہ معلوم یہ نام مستعمل کیوں ہو چکا ہے حتیٰ کہ موبائل سے بیلنس چوری کرنے والے ہیکر بھی یہ نام استعمال کر کے دھوکا دیتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی خواجہ سراﺅں کی جو اب بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور گھروں کے علاوہ شہر کے چوراہوں کو بھی مرکز بنا چکے ہیں۔ کسی بھی معروف چوراہے یا چوک پر سگنل کھلنے کے انتظار میں جونہی گاڑی کھڑی ہوتی ہے،اِردگرد سے ایک دو خواجہ سرا نمودار ہو کر بھیک مانگنے لگتے ہیں اور اکثر اوقات کچھ لے کر ہی ٹلتے ہیں۔ یہ خواجہ سرا بھی کئی اقسام کے ہیں۔ ایک تو پیدائشی ہیں اور یہ پیشہ اختیار کر لیتے ہیں، بعض ان میں کسی جسمانی نقص کے باعث اِدھر آ جاتے ہیں اور کئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود ساختہ ہیں۔ بہرحال یہ تحقیقی رپورٹنگ کرنے والوں کے لئے ایک ٹپ بھی ہے کہ وہ اب عدالت عظمیٰ کے حکم اور ہدایت کی روشنی میں یہ جانیں کہ اس حکم اور ہدایت پر کس حد تک عمل ہوا اور اگر کوئی کمی رہی تو کس طرف سے ہے کہ آخر کار یہ حضرات بھی بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا سبب بن گئے ہیں۔ بعض چوراہوں پر تو یہ دوسرے بھکاریوں کو بھگا بھی دیتے ہیں، اب ان کو ووٹ کا حق ہے اور ان میں سے اکثر نے ووٹ درج بھی کرا لئے ہیں اور وہ ووٹوں کی بناءپر امیدواروں سے امیدیں بھی لگائے بیٹھے ہیں اور انتخابات کے منتظر ہیں کہ اعلان ہونے کے بعد وہ اور بھی مصروف ہو جائیں گے۔
بات خواجہ سراﺅں سے چلی تو بھیک تک آ گئی۔ یہ پیشہ بھی بہت بڑا ناسور بن چکا ہے، کبھی بھکاری گلی، محلے میں صدا لگا کر بھیک مانگتے تھے۔ پھر ہم نے تو وہ دور بھی دیکھا ہے جب سادھو نما حلیہ والے بھکاری ہاتھ میں پیالیوں والی لوہے کی جالی پکڑے بازاروں میں گھوم رہے ہیں اور ان پیالوں میں جلتے کوئلوں کے ساتھ ”ہرمل“ (ایک بوٹی) بھی ہے یہ ایک ایک دکان پر جاتے اور چند دانے اس دیسی بوٹی کے کوئلوں والی پیالی پر پھینک کر دھواں بناتے اور دکان کے اندر تک دھونی دیتے تھے۔ تقسیم سے پہلے یہ سلسلہ تو توہمات کی حد تک تھا کہ ہندو بہت مانتے تھے اور دھوتی دینے والے کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے تھے۔ گلی میں صدا دینے والے اور یہ دھونی والے تو معلوم نہیں کہاں چلے گئے اب تو جدید دور ہے یہ آپ کے گھر پر آتے اور باقاعدہ گھنٹی بجاتے ہیں، گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی مہمان آ گیا، جلدی سے دروازہ کھولا جاتا ہے تو سامنے بھکاری یا بھکارن موجود ہوتی ہے۔ اس وقت گھر والوں کا جو حال ہوتا ہے وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ بھکاری ایک ہی نہیں ہوتا، دن بھر میں کئی آتے اور اسی طرح پریشان کرتے ہیں۔ یہ تو لوڈشیڈنگ کا بھی لحاظ نہیں کرتے، دروازہ ایسے بجاتے ہیں جیسے توڑ ہی ڈالیں گے۔
معروف چوکوں اور چوراہوں پر جو کیفیت ہے وہ دل ہلا دینے والی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک لولے، لنگڑوں، اندھوں اور معذوروں کا ہے یا پھر ایسی خواتین پر مشتمل ہے، جن کے بچے تو ہیں، شوہر کا علم نہیں۔ ان چوراہوں پر ٹریفک اور حادثے کی پرواہ کئے بغیر کٹا ہوا بازو آگے کر کے رحم کی اپیل کی جاتی ہے یا پھر پاﺅں اور ٹانگ سے معذور شخص گاڑی کا شیشہ بجاتا ہے۔ اب نئی رسم یہ چلی ہے کہ اکثر خواتین کسی سے ایک گتے پر اپیل لکھوا لاتی ہیں کہ وہ بیوہ ہیں، ان کا کوئی آسرا نہیں، کمانے والا کوئی نہیں، بچے کسی خوفناک مرض میں مبتلا ہیں۔ ان کے ساتھ ہی گود میں بچہ لئے خاتون آ جاتی ہے ، بچہ بالکل ہلتا جلتا اور روتا چلاتا نہیں، کندھے سے لگا سویا رہتا ہے، ایسی عورتیں بھی جان نہیں چھوڑتیں۔ جب ان سے سوال کیا جائے کہ بچے کا باپ کہاں ہے تو وہ یا تو اسے مردہ قرار دیتی ہیں یا پھر معذور ظاہر کرتی ہیں۔
شہر میں ان بھکاریوں اور خواجہ سراﺅں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اور اب تو یہ اپنے جمہوری حقوق مانگتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں بھیک بھی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ حکومت کی طرف سے اب تک ان کے سدباب کے لئے کچھ نہیں کیا گیا، حالانکہ بعض تحقیقی رپورٹنگ ایسی بھی ہوئی جس میں واضح کیا گیا کہ بھیک باقاعدہ ایک پیشہ اور مافیا کا کام بن گئی ہے۔ یہ مافیا بچوں کے اغوا میں بھی ملوث ہے، ننھے بچوں کو اغوا کر کے خفیہ ٹھکانوں پر بھیج دیا جاتا ہے، جہاں ان کو مختلف شکنجوں میں کس کر معذور بنایا جاتا، پھر اس کا نام مشین رکھ دیا جاتا ہے جو جتنا معذور ہو گا اتنی ہی مہنگی مشین ثابت ہو گا کہ لوگ معذروں پر زیادہ رحم کھاتے ہیں، پھر یہ مافیا والے چوراہوں اور چوکوں کے اجارہ دار ہوتے ہیں اور ان کو اڈہ کہا جاتا ہے یہ اڈے بکتے بھی ہیں کہ خصوصاً معذور بھکاری تو ان مافیا والوں کی مشینیں ہوتی ہیں جن کو دن کے وقت یہاں چھوڑا جاتا اور شام کی شفٹ مکمل ہونے پر لے بھی جاتے ہیں۔
اس حوالے سے تحقیقی رپورٹنگ ضرور ہوئی، لیکن سیاست کی ہما ہمی نے پوری توجہ نہیں دینے دی۔ میڈیا کو مکمل تحقیق کر کے اس مسئلے کو اُجاگر کرنا چاہئے تاکہ ایک طرف تو خواجہ سراﺅں کا بھلا ہو جائے اور دوسری طرف وہ مافیا والے بے نقاب ہوں جو معصوم بچوں کے اغوا میں بھی ملوث ہیں۔ بہرحال حکومتوں کو بھی اس طرف توجہ دینا ہو گی کہ شہری تنگ اور پریشان ہیں۔ ٭
خواجہ سرا+بھیک اور بھکاری مافیا!
عدالت عظمیٰ نے ملک میںپائی جانے والی تیسری جنس خواجہ سراﺅں کے حوالے سے کافی مثبت فیصلے کئے، ان کو ووٹ کا بھی حق دیا گیا اور اُن کے لئے روزگار کے وسائل پیدا کرنے کی بھی بات کی گئی، لیکن زمینی حقائق ذرا مختلف ہیں۔ یہ خواجہ سرا حضرات ماضی میں گا بجا کر روزی پیدا کر لیتے تھے، محلے میں کسی کے ہاں نرینہ اولاد پیدا ہوتی تو محلے داروں کو خواجہ سراﺅں کی مبارک باد اور ناچ گانے سے پتہ چلتا تھا۔ یہ لوگ باقاعدہ تربیت حاصل کر کے یہ پیشہ اپناتے تھے اور پھر بتدریج وقت بدل گیا۔ یہ مبارک و بارک کا سلسلہ ماند پڑتا چلا گیا کہ ایک تو لوگوں کے خوشی منانے کے انداز تبدیل ہو گئے اور دوسرے دیسی طرز کی جگہ پاپ میوزک لیتا چلا گیا۔ ان خواجہ سراﺅں کو روزی کے لالے پڑے اور پھر یہ گھر گھر بھیک مانگنے پر اُتر آئے۔اب تو صورت حال اور بھی بدتر ہوتی جا رہی ہے کہ ان کو گھروں سے بھی جواب ملنے لگا ہے، یہ دروازے بجا کر تالی بجاتے اور آواز لگاتے ہیں ”صائمہ آئی ہے“ جی ہاں! نہ معلوم یہ نام مستعمل کیوں ہو چکا ہے حتیٰ کہ موبائل سے بیلنس چوری کرنے والے ہیکر بھی یہ نام استعمال کر کے دھوکا دیتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی خواجہ سراﺅں کی جو اب بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور گھروں کے علاوہ شہر کے چوراہوں کو بھی مرکز بنا چکے ہیں۔ کسی بھی معروف چوراہے یا چوک پر سگنل کھلنے کے انتظار میں جونہی گاڑی کھڑی ہوتی ہے،اِردگرد سے ایک دو خواجہ سرا نمودار ہو کر بھیک مانگنے لگتے ہیں اور اکثر اوقات کچھ لے کر ہی ٹلتے ہیں۔ یہ خواجہ سرا بھی کئی اقسام کے ہیں۔ ایک تو پیدائشی ہیں اور یہ پیشہ اختیار کر لیتے ہیں، بعض ان میں کسی جسمانی نقص کے باعث اِدھر آ جاتے ہیں اور کئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود ساختہ ہیں۔ بہرحال یہ تحقیقی رپورٹنگ کرنے والوں کے لئے ایک ٹپ بھی ہے کہ وہ اب عدالت عظمیٰ کے حکم اور ہدایت کی روشنی میں یہ جانیں کہ اس حکم اور ہدایت پر کس حد تک عمل ہوا اور اگر کوئی کمی رہی تو کس طرف سے ہے کہ آخر کار یہ حضرات بھی بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا سبب بن گئے ہیں۔ بعض چوراہوں پر تو یہ دوسرے بھکاریوں کو بھگا بھی دیتے ہیں، اب ان کو ووٹ کا حق ہے اور ان میں سے اکثر نے ووٹ درج بھی کرا لئے ہیں اور وہ ووٹوں کی بناءپر امیدواروں سے امیدیں بھی لگائے بیٹھے ہیں اور انتخابات کے منتظر ہیں کہ اعلان ہونے کے بعد وہ اور بھی مصروف ہو جائیں گے۔
بات خواجہ سراﺅں سے چلی تو بھیک تک آ گئی۔ یہ پیشہ بھی بہت بڑا ناسور بن چکا ہے، کبھی بھکاری گلی، محلے میں صدا لگا کر بھیک مانگتے تھے۔ پھر ہم نے تو وہ دور بھی دیکھا ہے جب سادھو نما حلیہ والے بھکاری ہاتھ میں پیالیوں والی لوہے کی جالی پکڑے بازاروں میں گھوم رہے ہیں اور ان پیالوں میں جلتے کوئلوں کے ساتھ ”ہرمل“ (ایک بوٹی) بھی ہے یہ ایک ایک دکان پر جاتے اور چند دانے اس دیسی بوٹی کے کوئلوں والی پیالی پر پھینک کر دھواں بناتے اور دکان کے اندر تک دھونی دیتے تھے۔ تقسیم سے پہلے یہ سلسلہ تو توہمات کی حد تک تھا کہ ہندو بہت مانتے تھے اور دھوتی دینے والے کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے تھے۔ گلی میں صدا دینے والے اور یہ دھونی والے تو معلوم نہیں کہاں چلے گئے اب تو جدید دور ہے یہ آپ کے گھر پر آتے اور باقاعدہ گھنٹی بجاتے ہیں، گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی مہمان آ گیا، جلدی سے دروازہ کھولا جاتا ہے تو سامنے بھکاری یا بھکارن موجود ہوتی ہے۔ اس وقت گھر والوں کا جو حال ہوتا ہے وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ بھکاری ایک ہی نہیں ہوتا، دن بھر میں کئی آتے اور اسی طرح پریشان کرتے ہیں۔ یہ تو لوڈشیڈنگ کا بھی لحاظ نہیں کرتے، دروازہ ایسے بجاتے ہیں جیسے توڑ ہی ڈالیں گے۔
معروف چوکوں اور چوراہوں پر جو کیفیت ہے وہ دل ہلا دینے والی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک لولے، لنگڑوں، اندھوں اور معذوروں کا ہے یا پھر ایسی خواتین پر مشتمل ہے، جن کے بچے تو ہیں، شوہر کا علم نہیں۔ ان چوراہوں پر ٹریفک اور حادثے کی پرواہ کئے بغیر کٹا ہوا بازو آگے کر کے رحم کی اپیل کی جاتی ہے یا پھر پاﺅں اور ٹانگ سے معذور شخص گاڑی کا شیشہ بجاتا ہے۔ اب نئی رسم یہ چلی ہے کہ اکثر خواتین کسی سے ایک گتے پر اپیل لکھوا لاتی ہیں کہ وہ بیوہ ہیں، ان کا کوئی آسرا نہیں، کمانے والا کوئی نہیں، بچے کسی خوفناک مرض میں مبتلا ہیں۔ ان کے ساتھ ہی گود میں بچہ لئے خاتون آ جاتی ہے ، بچہ بالکل ہلتا جلتا اور روتا چلاتا نہیں، کندھے سے لگا سویا رہتا ہے، ایسی عورتیں بھی جان نہیں چھوڑتیں۔ جب ان سے سوال کیا جائے کہ بچے کا باپ کہاں ہے تو وہ یا تو اسے مردہ قرار دیتی ہیں یا پھر معذور ظاہر کرتی ہیں۔
شہر میں ان بھکاریوں اور خواجہ سراﺅں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اور اب تو یہ اپنے جمہوری حقوق مانگتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں بھیک بھی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ حکومت کی طرف سے اب تک ان کے سدباب کے لئے کچھ نہیں کیا گیا، حالانکہ بعض تحقیقی رپورٹنگ ایسی بھی ہوئی جس میں واضح کیا گیا کہ بھیک باقاعدہ ایک پیشہ اور مافیا کا کام بن گئی ہے۔ یہ مافیا بچوں کے اغوا میں بھی ملوث ہے، ننھے بچوں کو اغوا کر کے خفیہ ٹھکانوں پر بھیج دیا جاتا ہے، جہاں ان کو مختلف شکنجوں میں کس کر معذور بنایا جاتا، پھر اس کا نام مشین رکھ دیا جاتا ہے جو جتنا معذور ہو گا اتنی ہی مہنگی مشین ثابت ہو گا کہ لوگ معذروں پر زیادہ رحم کھاتے ہیں، پھر یہ مافیا والے چوراہوں اور چوکوں کے اجارہ دار ہوتے ہیں اور ان کو اڈہ کہا جاتا ہے یہ اڈے بکتے بھی ہیں کہ خصوصاً معذور بھکاری تو ان مافیا والوں کی مشینیں ہوتی ہیں جن کو دن کے وقت یہاں چھوڑا جاتا اور شام کی شفٹ مکمل ہونے پر لے بھی جاتے ہیں۔
اس حوالے سے تحقیقی رپورٹنگ ضرور ہوئی، لیکن سیاست کی ہما ہمی نے پوری توجہ نہیں دینے دی۔ میڈیا کو مکمل تحقیق کر کے اس مسئلے کو اُجاگر کرنا چاہئے تاکہ ایک طرف تو خواجہ سراﺅں کا بھلا ہو جائے اور دوسری طرف وہ مافیا والے بے نقاب ہوں جو معصوم بچوں کے اغوا میں بھی ملوث ہیں۔ بہرحال حکومتوں کو بھی اس طرف توجہ دینا ہو گی کہ شہری تنگ اور پریشان ہیں۔ ٭