جماعت اسلامی کی سیاست ؟
جماعت اسلامی پاکستان کی سیاست ہر دور میں اقتدار کی غلام گردشوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ موجودہ سیاسی صورت حال میں اس کے بارے میں یہ تاثرایک بار پھرابھر کر سامنے آیا ہے کہ یہ اہم قومی ایشوز پر کوئی واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے مبہم اور غیر واضح لائن اختیار کرتی ہے اور پھر جس طرف کی ہوا ہو اسی طرف اپنا رخ موڑلیتی ہے۔ اس وقت بظاہر یہ جماعت خود کو ایک غیر جانبدار سیاسی جماعت کے طورپر پیش کرنا چاہ رہی ہے لیکن عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس جماعت کا جھکاؤ حکومت کی طرف ہے اور یہ رویہ اسے عوام میں غیر مقبول بنانے کا سبب بنا ہوا ہے۔ ماضی میں یہ جماعت فوج کے ساتھ اقتدار میں حصہ دار رہی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والے انتخابا ت کو دھاندلی زدہ قراردے کر اس کے خلاف چلائی جانے والی تحریک جسے بعد میں تحریک نظامِ مصطفیٰ ﷺ کانام دیاگیا،جماعت اسلامی بھی اس کاحصہ تھی لیکن بعدمیں جب جنرل ضیا ٗالحق ذوالفقارعلی بھٹو کی منتخب حکومت کو ہٹا کر اقتدار پرخود متمکن ہوگئےتوجماعت اسلامی بھی ان کی کابینہ میں شامل تھی۔ اس دور میں جماعت کے امیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے جانشین میاں طفیل محمد صدرجنرل ضیا الحق سے ارائیں ہونے کے ناطے رشتہ و تعلق بھی بتاتے تھے۔اسی طرح جب پرویز مشرف نے نوازشریف کی منتخب حکومت کے خلاف شب خون مارا تو ملک کی دیگر مذہبی جماعتوں کی طرح جماعت اسلامی نے بھی فوجی آمر کا ساتھ دیا۔اس دورمیں جوانتخابات ہوئےان میں جماعت اسلامی نے دیگرمذہبی جماعتوں کےساتھ ایم ایم اےکے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور متعدد سیٹیں لینےمیں کامیاب ہوگئی اوریوں اقتدارمیں حصہ داربن گئی تاہم مذہبی جماعتوں پرمشتمل یہ سیاسی اتحاد(ایم ایم اے)زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔
خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت میں یہ جماعت عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی اتحادی تھی جبکہ ایم ایم اے ہی میں شامل ایک بڑی اور موثر جماعت جمعیت علما اسلام تحریک انصاف کے خلاف تھی۔ چنانچہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان سیاسی اتحاد کے باعث جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام میں فاصلے پیدا ہوتے گئے اور آخر کار یہ اتحاد اپنی موت آپ مرگیا۔ گزشتہ انتخابات کے موقع پراگرچہ ایک بار پھر انہی مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایم ایم اے بحال ہوگیا اور انتخابات میں اسی پلیٹ فارم سے حصہ لیا لیکن اس مرتبہ ایم ایم اے وہ کردار ادا نہ کرسکا جو ماضی میں اس کے حصے میں آیا تھا۔ جماعت اسلامی ان انتخابات میں بری طرح پٹ گئی اور پارلیمنٹ میں کوئی خاطر خواہ نمائندگی حاصل نہ کرسکی۔ قبل ازیں جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی قیادت میں مختلف ایڈونچرز کرتی رہی۔کبھی مارچ کی صورت میں اور کبھی دھرنوں کی صورت میں ان کے بعد کچھ عرصہ منور حسن بھی جماعت کے امیر رہے لیکن ان کی پرو طالبان پالیسی اور ایسٹیبلشمنٹ کے بیانئے سے اختلاف نے انہیں زیادہ دیر تک اس عہدے پر برقرار نہ رہنے دیا۔ان کے بعد جماعت اسلامی کی قیادت کا تاج خیبر پختون خوا سےتعلق رکھنے والے سراج الحق کے سرسجا دیاگیا۔ اس کے بعد سے آج تک جماعت اسلامی اپنی سابقہ روش اختیار کیے ہوئے ہے اور عرف عام میں منافقانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کی اس نام نہاد غیرجانبدارانہ اور مصالحانہ پالیسی کی وجہ سے لوگ اسے پرو گورنمنٹ سمجھتے ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور ایم کیوایم ایک جیسی سیاست کررہی ہیں۔ سیاسی طورپرعوامی سطح پراپنی مقبولیت کھو چکی ہیں۔ وژن سے محروم قیادت کی وجہ سے جماعت اسلامی ایک مذہبی یا سیاسی جماعت کی بجائے ایک این جی او کا روپ دھار چکی ہے جس کا عوام میں کوئی اثر و رسوخ نہیں ہوتا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی قیادت اب بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاملات جب پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے تو ایسے موقع پر جماعت اسلامی میدان سیاست میں اترے گی اورمعاملات کوسلجھانے کے لیے ایک ثالث کے طورپر اپنا کردار ادا کرے گیلیکن! اے بسا آرزو کہ خاک شد!!!
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔