آمدنی کیسے بڑھائیں؟

آج کل ہر سفید پوش شخص بڑھتی مہنگائی اور کم ہوتے وسائل کی وجہ سے پریشان ہے اور یہ سوچتا ہے کہ آمدنی میں اضافہ کیسے کیا جائے؟ اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں۔
سب سے پہلے تو اس سوچ سے نکلیں کہ آپ کی حکومت آپ کے لئے کچھ کرے گی۔پاکستان ایک فلاحی ریاست نہیں ہے اور آنے والے وقت میں جو تھوڑی بہت حکومت کی طرف سے سہولتیں ہیں،ختم ہوجائیں گی۔ اس لئے حکومت کو کوسنا بند کریں، جب تک پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آتا پاکستان نے ایسے ہی چلنا ہے اور اس کا نازک دور ختم نہیں ہوگا اس لئے جلنا کڑھتا چھوڑ کر آمدنی بڑھائیں۔
دوسرے نمبر پر اپنے غیر ضروری اخراجات پر بھی قابو پانا ضروری ہے۔ مثلاً غیر ضروری سفر نہ کریں، اپنے روزمرہ کے معمولات کو اکٹھا کر کے کام مکمل کئے جا سکتے ہیں۔ شادی بیاہ کے فضول اخراجات سے نکلیں،سادگی اپنا لیں اور دو باتیں تو بالکل نہ سوچیں کہ کیا کہیں گے لوگ اور کیا کر رہے ہیں لوگ۔
سالگرہ جیسی رسومات سے نکلیں۔اس کے علاوہ بھی ہر وہ چیز جہاں سے بچت ہو سکتی ہو،کریں۔
تیسرے نمبر پر اس سوچ سے بھی نکلیں کہ گھر میں، گھر کے سربراہ نے ہی کمانا ہے اور باقی سب نے کھانا ہے۔ گھر میں جتنے افراد ہیں ان سب کو اپنی اپنی طاقت کے مطابق آمدنی میں اضافے کے ذرائع تلاش کرکے کام کرنا ہے۔ قناعت پسند ہونا اچھی بات ہے،مگر اب تو بات قناعت پسندی سے نکل کر ضرورتوں پر آگئی ہے۔ اپنے بچوں کو بھی اس سوچ یا مائنڈ سیٹ سے نکالیں کہ ان کا کام کمانا نہیں، صرف پڑھنا ہے۔ یورپ کی خوشحالی کا راز نوجوانوں کا کام کرنا بھی ہے۔ ہمیں بھی اپنے بچوں کے چوبیس گھنٹوں میں کچھ کمانے والے گھنٹے نکالنے چاہئیں۔
چوتھے نمبر پر ایک سے ذیادہ ذرائع آمدن پر کام کریں، اگر ملازمت ہے تو کوئی چھوٹا موٹا کام ایسا ضرور کریں جو آپ کی کچھ ضرورتوں کو پورا کردے۔ اگر کاروبار ہے تو ایک سے زیادہ کاروبار کریں۔اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں مت ڈالیں۔ میں ایک سال ڈی جی خان رہا،رہائشی کالونی اس شہر کی سب سے اچھی تھی، مسجد میں نماز کے دوران ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اپنا کاروبار کرتے تھے۔ آمدنی بڑھانے کئے لئے انہوں نے گھر میں شامی کباب بنا کر کالونی میں ہی محدود پیمانے پر بیچنے شروع کر دیئے۔ آج ایک سال بعد پندرہ سے زائد آئٹم فروخت کر رہے ہیں اور ماشاء اللہ کام بڑھ رہا ہے۔ کام بڑھتا ہے تو آمدن بڑھتی ہے، جس سے زندگی خوشحال ہوتی ہے۔
پانچویں نمبر پر نوکری کے مائنڈ سیٹ سے نکل کر ہنر مند افراد میں شامل ہوں اور اپنا ہنر بہتر سے بہتر کریں۔ میرے ایک بہت قریبی عزیز کامسیٹ یونیورسٹی لاہور کیمپس سے ایم بی اے ہیں، پاکستان اور یو اے ای میں جابز بھی کیں، اب انہوں نے ملتان میں اپنا ڈرنک کارنر کھولا ہے جس میں روایتی کولڈ ڈرنکس کی بجائے فلیورڈ ڈرنکس کا کام شروع کیا جو ماشاء اللہ بہت کامیاب ہے۔ ایک اور صاحب جو بنک مینیجر تھے، قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بھائی کے ساتھ مل کر جو پی ایچ ڈی ہیں، اپنا کاروبار شروع کیا اور ماشاء اللہ کامیابی سے چلا رہے ہیں۔
پانچویں نمبر پر ڈجیٹل دنیا کی طرف آئیں۔ کرونا کے بعد جس تیزی سے آن لائن کاروبار میں اضافہ ہوا ہے اس سے یہ طے ہے کہ آنے والے وقت میں اس کی اہمیت بڑھے گی۔ اپنے آپ کو، اپنے بچوں کو اس دوڑ میں شامل کریں ورنہ پیچھے رہ جائیں گے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی نئی چیز کو سب سے پہلے دجالی، شیطانی، یہودی اور امریکی فتنہ قرار دیتے ہیں اور کچھ وقت کے بعد اس کا منفی استعمال بھی شروع کر دیتے ہیں۔
ایک اور مائنڈ سیٹ سے بھی نکلیں کہ اسلام دولت مند ہونے سے روکتا ہے۔ اسلام دولت مندی سے نہیں،بلکہ دولت کمانے کے ناجائز ذرائع اور دولت کے غلط استعمال سے روکتا ہے۔