یہاں سے آگے ٹریفک سگنل لال ہے، رُکو، رُکو!’
‘نہیں نہیں نہیں، میں گاڑی اور تیز چلاؤں گا!’
‘رُک جاؤ ورنہ کسی کو کچل دو گے۔’
‘ہاہاہا۔ روند دیا۔’
‘کتنے آدمی کچل دیے؟’
‘چار، یہ غریب سارا دن سڑکوں پر کرتے کیا رہتے ہیں؟’
‘وہ منتظر رہتے ہیں کہ کب کوئی اچھی گاڑی اُنہیں روند دے تاکہ پچھلوں کا گزارا ہوسکے، ویسے یہ تیسری دفعہ ہے کہ تم نے گاڑی تلے آدمی روند دیے۔’
خبرنامہ: ‘ناظرین یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ آج ایک رئیس صاحب اپنی گاڑی پر بالکل آرام سے جارہے تھے کہ چند شرارتی نوجوان خود اُن کی گاڑی تلے آکر کچلے گئے۔ رئیس صاحب نے لواحقین کو 10، 10 لاکھ روپے ادا کیے، جس پر انہوں نے رئیس صاحب کا شکریہ ادا کیا۔’
مرتے کیا نہ کرتے ۔ کیونکہ غربت اور ناانصافی نے عوام کی زندگی کو بہت تلخ بنا دیا ہے۔
انسان زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوئے تجربات حاصل کرتا ہے اور ایک عہد گزارنے کے بعد زندگی کی نعمتوں کی سمجھ حاصل کرتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور فرشتوں سے بھی عمل و علم میں قدآور ہے اور یہی انسان بعض اوقات دوسرے انسانوں کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کیسی دنیا ہے یہ؟ قسمت پلٹا کھائے تو دودھ کی نہریں بہہ جائیں اور قسمت روٹھے تو دو وقت کھانے کو انسان ترس جائے۔ بلاشبہ اختلاف حسن دنیا ہے لیکن اتنا زیادہ فرق کہ انسان کا انسان رہنا بھی مشکل ہو جائے تو یہ اختلاف درد و تلخیوں کا منبع ہے۔
اگر ارد گرد نظر دوڑائیں تو واضح ہوتا ہے کہ انسانوں کا بنایا گیا نظام نا انصافی پر مبنی ہے۔ جس طرح معاشرے میں ایک انسان کی ذلت دوسرے بے حس انسان کے لیے ہنسی کا سبب پیدا کرتی ہے اسی طرح انسانوں کے بنائے گئے سودی معاشی نظام میں ایک کے حقوق کی حق تلفی دوسرے کے حقوق میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ یہ نظام غلط ہے جس میں ایک آدمی کو اتنا مال و متاع اکٹھا کرنے کے اسباب مہیا کیے جائیں کہ وہ اپنے پالتو جانوروں کو شاہانہ کھانا کھلانے کے بعد بھی ضائع کرتا رہے جبکہ دوسری طرف نظر دوڑائیں تو اس کے پڑوسی کو روکھی روٹی بھی مشکل سے میسر ہوتی ہے۔ یہ نظام تفاوت بہت سارے معاشرتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ موجودہ معاشی نظام میں سرمایہ دار آدمی کو پڑتال کے مراحل سے گزارنے کا سوچا بھی نہیں جاتا لیکن ایک متوسط یا غریب آدمی کو مزید معاشی شکنجوں کی چکی میں پیسا جاتا ہے۔ معاشرتی نظام اس طرح نہیں چلتے۔ معاشرے کو چلانے کے لیے انصاف کے علم کا بلند ہونا بہت ضروری ہے۔
آئے دن جو چوری، ڈاکہ وغیرہ کے واقعات ہمارے معاشرے کو درپیش ہیں اس کے پیچھے ناکام معاشی نظام، بے حسی اور ناانصافی ہے۔ راہ حق پر چلنا مشکل ہوتا ہے۔ آج کل اور بھی زیادہ مشکل ہے کیونکہ ہمارے اندر ایمان کی طاقت کمزور پڑ چکی ہے۔ ہمارا معاشرہ انصاف پسند لوگوں کو ظالم کہتا ہے جبکہ امیر ،ظالم اور معاشی استحصال کرنے والوں کو سلام کرتا ہے۔ہم میں سے ہر ایک اس تباہی کا برابر کا ذمہ دار ہے۔ معاشی اور معاشرتی نظام کی بہتری کا صرف ایک حل ہے اور وہ ہے اسلام کے اصولوں و ضوابط کو پورے معاشرے میں لاگو کرنا۔ قانون کی بالادستی ہو اور برابری کی بنیاد پر سب سے سلوک روا رکھا جائے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہو رہا ہے۔ دنیا امیر آدمی کو اس کی امارت کی وجہ سے سلام کرتی ہے۔
اس کے چاہنے والوں اور دوستوں کی صف میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوتا ہے ۔ جب اسی شخص کا مقدر روٹھے اور دولت منہ موڑ لے تو اس کے چاہنے والے اور دوست ایسے غائب ہوں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ غربت بڑی خراب چیز ہے۔ شاکر شجاع آبادی کا دوہڑا ہے کہ "اے غربت تیکوں چیر گھتاں او میڈے لکھاں جئے سجنڑ ونجائے نی" ۔غربت کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ اور اسی غربت نے کتنے ہی لوگوں کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اپنے بچوں کو تعلیم کی روشنی سے نابلد رکھ کر چھوٹے ذہنیت کے لوگوں کی دوکانوں پر کام کرواتے ہوئے والدین کے دلوں میں جو اذیت کا انبار ہوتا ہے، الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
بیچارے سارا دن کام بھی کرتے ہیں اور گالیاں بھی سنتے ہیں۔ پھر کیسے توقع کریں کہ ایک خودار اور بہترین معاشرہ تشکیل پائے گا؟ کیا ہم میں سے کبھی کسی نے کوئی ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے کسی ایک شخص کی بھلائی کا رستہ نکلا ہو؟ اگر ایسا نہیں کیا تو بطور انسان ہمیں لازمی ایسے اقدامات کرنے چاہئے جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچے۔ اگر معاشی نظام کو اسلام کے اصولوں کے مطابق لاگو کیا جائے، قانون کی حاکمیت ہو تو وہ دن دور نہیں جب ایک مضبوط اسلامی معاشرے کی تشکیل ہوگی۔ اس کے لیے سب کو اپنے حصے کا دیا جلانا ہو گا۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔