جسٹس نسیم حسن شاہ نے اسمبلیاں بحال کر دیں لیکن وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کیساتھ چل نہیں سکے،معاہدہ کے تحت صدر اور وزیراعظم مستعفی ہو گئے
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:90
جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو متعدد آئینی درخواستوں میں چیلنج کیا گیا مگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک دفعہ پھر جسٹس منیر کے استدلال کی آڑ لے کر اسے جائز قرار دے دیا اور مارشل لاء انتظامیہ کو حسب ضرورت آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں نے اس تفویض کئے گئے حق کو خوب استعمال کیا اور آئین میں متعدد ترامیم کیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کو نکالنے کے لئے بھی ترامیم کی گئیں کیونکہ یہ جج مارشل لاء انتظامیہ کے لئے قابل قبول نہیں تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک بھر میں ایک ریفرنڈم کرایا جس کے نتیجہ میں وہ ملک کے صدر منتخب ہو گئے۔ اس سے قبل انہوں نے نامزد ارکان اسمبلی پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ بھی بنائی تھی جو کہ چاروں صوبوں میں بھی کام کرتی رہی۔ بالآخر انہوں نے صدر مملکت منتخب ہونے کے بعد ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کا پروگرام دیا اور اس کے نتیجہ میں بننے والی اسمبلی نے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا۔ اپنی دست آموز اس حکومت سے بھی وہ مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے اس حکومت کو 29 مئی 1988ء کو اسمبلیوں سمیت برخاست کر دیا۔ اس کے بعد وہ پھر غیر جماعتی انتخابات کرانا چاہتے تھے کہ 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق اپنے 32 سے زائد رفقاء اور آرمی کے سینئر افسروں کے ہمراہ بہاولپور کے قریب ایک فضائی حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ اُن کے انتقال کے بعد سینٹ آف پاکستان کے چیئرمین غلام اسحاق خان ملک کے صدر بن گئے۔ ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ چیف آف دی آرمی سٹاف بن گئے۔ جنرل ضیاء الحق کی زندگی میں تو کوئی عدالت غیر جماعتی انتخابات کے خلاف کسی پٹیشن کو ہاتھ لگانے سے بھی گریزاں تھی مگر جنرل ضیاء الحق کے انتقال کرتے ہی فاضل عدالت نے ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کا حکم جاری کر دیا۔
1988ء میں عام انتخابات ہوئے۔ جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سادہ اکثریت حاصل کی اور اس کے نتیجہ میں بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی مگر 6 اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی دفعہ 58 ٹو بی کا استعمال کرتے ہوئے اُن کی حکومت کو بدعنوانی اور بھاری کرپشن کے متعدد الزامات کے تحت برطرف کر دیا۔ نئے انتخابات ہوئے جس میں میاں نواز شریف بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو گئے۔ میاں نواز شریف بھاری اکثریت کے باوجود صدر غلام اسحاق خان کو خوش نہ رکھ سکے اور انہوں نے پھر 18 اپریل 1993ء کو اپنے اختیار 58 ٹو بی کو استعمال کرتے ہوئے بدعنوانی اور پہلے سے بہت زیادہ کرپشن کرنے کے الزامات کے تحت میاں نواز شریف کی حکومت اور اسمبلیوں کو برطرف کر دیا۔ میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ اس دفعہ سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور یہ فیصلہ کیا کہ صدر کا حکم غیر آئینی ہے اور اختیارات سے تجاوز کیا گیا ہے۔ چنانچہ میاں نواز شریف اور ان کی اسمبلیاں بحال ہو گئیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ جسٹس سید نسیم حسن شاہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں فل کورٹ نے کیا تھا اور یہ پہلے فیصلوں سے مختلف تھا۔ جس میں سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال کیا تھا لیکن وزیراعظم اپنی بحالی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چل نہیں سکے اور ایک معاہدہ کے تحت صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم دونوں مستعفی ہو گئے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔