اب صرف عمل

اب صرف عمل
اب صرف عمل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خان صاحب اب صرف عمل۔۔۔ دعوؤں سے ہی اگر کامیابی نصیب ہوتی تو آئن سٹائن، نیوٹن ،ایڈی سن اور اسٹیو جاب دنیا کے ذہین ترین موجدنہ مانے جاتے، بلکہ شیخ چلی کا نام سب سے اوپر ہوتااور اسے دنیا کا سب سے کامیاب انسان مانا جاتا ۔
کپتان کے ترجمان کو اور پوری پی ٹی آئی کی اعلٰی قیادت کو اعتراض ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے ہیلی کاپٹر پر پندرہ کلومیٹر بنی گالا سے (ملٹری سیکرٹری کے گھر )پرائم منسٹر ہاؤس تک جانے پر اتناشور کیوں بپا ہے ؟ انسان جو دیکھتا ہے اس پر ہی پرکھتا ہے اور یہی دلیل اسے حقیقت ماننے پر مجبور کرتی ہے یہ انسانی فطرت ہے ۔ایک بدوی مسلمان نے ایک مشرک کو دلیل دیتے ہوئے کہا ’’اونٹ کی مینگنیاں اونٹ کا پتہ دیتی ہیں،اس کے پاؤں کے نشان سے اس کے راستے کا سراغ ملتا ہے تو یہ برجوں والا آسمان اور وسیع زمین کس طرح اللہ واحد و قہار کے ہونے کی دلیل نہیں‘‘۔


سوال یہ ہے ہی نہیں کہ 55 روپے فی کلومیٹر ہیلی کاپٹر کا خرچہ آتا ہے یا سو روپے ،سوال تو یہ ہے کہ عام لوگوں جیسا طرز زندگی اپنانے کا دعوی ٰکرنے والا کپتان ایلیٹ کلاس بلکہ سپر ایلیٹ کلاس جیسا طرز زندگی کیوں اختیار کر رہا ہے۔ پندرہ کلومیٹر کا سفر ہیلی کاپٹر پر کرنا کہاں کا عام لوگوں جیسا طرز عمل ہے۔قوم نے تو خان صاحب کے ساتھ ایک طویل سفر چلنے کی عہد کیا ہے اور خان صاحب پندرہ کلومیٹر سے ڈر گئے۔
حکومت کے ترجمان فواد چودھری کو اس موقعہ پر قوم سے معذرت کرنی چاہئے تھی کہ کپتان آئندہ یہ طرزعمل نہیں اپنائے گا، لیکن انہوں نے اس پر55روپے فی کلومیٹر کا حساب دے کر مذاق بنا دیا۔حکومتی ترجمان کوہمیشہ ناپ تول کربولنا چاہئے نہیں تو نت نئے لطیفے جنم لیتے رہیں گے، جس بات کا ادراک نہ ہو اس پر خاموشی اختیار کرلیں تو شائد سبکی سے بچے رہیں۔عربی ضرب المثل ہے ’’ تما م زبانوں سے عربی زیادہ فصیح ہے ماسوائے خاموشی کی زبان کے کہ وہ عربی سے بھی زیادہ فصیح ہے،اگر بات چاندی جیسی قیمتی ہے، تب بھی خاموشی کی قیمت سونے کے برابر ہے‘‘۔ حکومتی ترجمان کی مجبوری ہے کہ اسے حکومت کی غلطیوں پر پردہ ڈالنا ہے، لیکن جب پردہ ہی چاک چاک ہوتو پھر حکومتی ترجمان کا بولنا حماقت ہی مانا جائے گا۔


وہ دور بھی تھا جب بادشاہ بھگی میں آتے تھے۔ ہاتھیوں اور گھوڑوں کے لشکر پروٹوکول میں شامل ہوتے تھے ۔جتنی بڑی سلطنت کا بادشاہ ہوتا تھا، اس کا پروٹوکول اسی قدر شاہانہ ہوتا تھا۔بیت المقدس فتح ہوا تو اسلامی سلطنت کے سب سے عظیم حکمران حضرت عمر بن خطابؓ اپنے غلام کے ساتھ ایک گھوڑے پر داخل ہوتے ہیں اور جب شہر میں داخل ہوتے ہیں تو غلام گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور خود پیدل۔قرضوں میں ڈوبے پاکستان کے غریب لوگوں کے وزیراعظم صاحب جب آپ ریاست مدینہ ثانی کی مثالیں دیں گے اور پندرہ کلومیٹر کا سفر ہیلی کاپٹر پر کریں گے تو سوال تو اٹھیں گے لوگ تو ریاست مدینہ ثانی کے حکمران کو اپنے جیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ راہ نما صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں جبکہ راستے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔

راہ نما نے پہلے سے موجود رستوں پرسفر کا نیا جذبہ و ولولہ پیدا کرکے قوم کوجمود سے نکال کر آگے کی طرف لے جانا ہوتا ہے، جب راہ نما ہی فاصلے سے ڈر جائے تو قوم کی مایوسی لازم ہے، کیونکہ جب آپ ایسے عمل کریں گے تو آپ کے نیچے لوگ بھی درگاہوں پر سلام کرنے اور دوستوں سے ملاقات کے لئے سرکاری ہیلی کاپٹر کو استعمال کرنااور پروٹوکول لینا اپنا حق سمجھیں گے، جس کی جھلک پنجاب کے وزیراعلٰی دکھانے لگے ہیں۔خان صاحب کیا بتاناپسند فرمائیں گے کہ وزیر اعلیٰ کو خانیوال کے ہسپتال کا دورہ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، کیا سیکرٹری ہیلتھ، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے ادارے محض تنخواہ لینے کے لئے بنائے گئے ہیں یا سابقہ خادم اعلیٰ کے طرز پر اب ڈی سی اے سی کے کام بھی وزیراعلیٰ کیا کرے گا اور پھر سے ون مین شو دیکھنے کو ملے گا۔


اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مدینہ ثانی میں بدلنا ہے تو پھر حکمرانوں کو عوام جیسی سہولتیں اپنانی ہوں گی اور شاہانہ لائف اسٹائل ترک کرنا ہوگا۔ آپ کا ہر عمل اسلامی حکومت کے حکمرانوں کے عمل کو سامنے رکھ کر پرکھا اور جانچا جائے گا اور جہاں آپ اپنے آپ کو کوئی آفاقی مخلوق سمجھیں گے لوگ احتساب کریں گے، کیونکہ پچھلے بائیس سال قوم کو آپ یہی بتاتے ر ہے ہیں کہ حضرت عمرؓ سے قمیض کا سوال ہوسکتا ہے تووزیراعظم سے کیوں نہیں، جہاں تک سکیورٹی کی وجہ سے ہیلی کاپٹر پندرہ کلومیٹر کے لئے استعمال کا جواز ہے تو خان صاحب یہ آپ ہی فرماتے رہے ہیں کہ ’’مجھے بھی سیکیورٹی تھریٹ ہیں، لیکن میرا یقین ہے جو رات قبر میں آنی ہے وہ آکے رہنی ہے‘‘۔ لیڈر میں تین بڑی خوبیاں ہوتی ہیں بہادر،ایماندار اور قول کا سچا۔ قوم یہ تینوں خوبیوں کا یقین کرچکی اب قوم سکیورٹی کے نام پر ایسی کمزور دلیلیں کیسے ما ن لے۔اب وقت ہے کہ آپ اپنے دعوؤں پر عمل کرکے دکھائیں حکمرانی انجوائے کرنے کا خیال دل سے نکال دیں قوم یہ ہرگز قبول نہ کرے گی۔ فارسی کا ایک شعر یاد آگیا، جس کا ترجمہ ہے کہ ’’ہاتھ میں تسبیح اور لبوں پر توبہ کی خواہش مگر دل گناہ کی خواہش و ذوق سے بھرا ہوا ہے، گناہوں کو میری اس توبہ پر ہنسی آ رہی ہے‘‘۔


خا ن صاحب ہمیں آپ سے محبت ہے، لیکن اندھی محبت بالکل نہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں آپ کے اس مشن سے محبت ہے، جس میں آپ اس فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں،جہاں آپ غلطی کریں گے یا اصل راستے سے ہٹیں گے ہم آپ کو راہ راست پر لانے کے لئے وہی کردار ادا کریں گے، جو ہمیں کرنا چاہئے۔آپ سے محبت سے ہمیں قلم کی حرمت زیادہ عزیز ہے۔خان صاحب اندھی تقلید بالکل نہیں ہوگی۔آپ کو نیک نیتی سے اپنے دعوؤں پر عمل کا آغاز کرنا ہوگا۔ کہیں گاؤں کے اس میراثی والا حال نہ کیجئے گا، جس نے سب گاؤں والوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا کہ آپ لوگ اتنی دور شہر کے بینک میں پیسے جمع کراتے ہو اور پھر لینے جاتے ہو، اگر آپ لوگ مجھ پر اعتماد کرو اور مجھے پیسے جمع کرادیا کرو میں ریکارڈ بنا کر رکھوں گا اور تم لوگوں کو جب ضرورت ہوگی مجھ سے لے لیا کرو، اگر یہ تجربہ کامیاب ہوا تو دوسرے گاؤں کے لوگوں کو بھی ہم پیسے رکھوانے کے لئے کہیں گے، اس طرح ادھر ہی بینک قائم کرلوں گا، جہاں گاؤں کے سب نوجوانوں کو نوکری مل جائے گی۔ گاؤں نے اس پر اعتماد کرکے اس کے پاس اپنی رقم جمع کرا دی۔میراثی نے ترکیب سوچی کہ شہر جا کر ان پیسوں کا جوا کھیلتا ہوں، اگر ڈبل ہوگئے تو ان لوگوں کو ان کے پیسے واپس کرکے خود ساری عمر عیاشی کروں گا وہ شہر جا کر جوے میں سارا پیسہ ہار گیا۔


لوگوں نے جب اس سے اپنی اپنی رقم واپسی کا تقاضہ کیا تو میراثی نے منہ بنا کر کہا۔۔۔یار تجربہ ناکام رہا،میں نے تو آپ لوگوں کی بھلائی اور نوجوانوں کے لئے روزگار کا سوچا تھا، مگر افسوس کہ تجربہ کامیاب نہیں ہوسکا ۔۔۔خان صاحب جس طرح خیبر پی کے میں احتساب کے ادارے کا تجربہ ناکام رہا،الیکشن سے پہلے شیڈو کابینہ بننی تھی،وہ آپ اعتراف کرتے ہیں ہم نہیں بنا سکے، جماعت کے اندر شفاف الیکشن کا تجربہ ناکام رہا، بجلی کے منصوبے لگا کر پورے پاکستان کو بجلی دینے کا دعویٰ بس دعویٰ ہی رہا، اب ریاست مدینہ ثانی کا تجربہ کامیاب ہونا چاہئے نہیں تو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔نوجوانوں نے سہانے مستقبل کے خواب سجا رکھے ہیں،ان خوابوں کی لاج رکھئے گا آخر میں یہ نہ کہئے گا بزدار تجربہ ناکام ہوگیا۔

مزید :

رائے -کالم -