سیاسی توازن اور گڈ گورننس (حصہ دوم)
راقم نے حصہ اول کے اختتام پر فرانس کے ایک سابق صدرکے بارے میں ذکر کیا تھا کہ جن کو اپنی بیوی کو سرکاری فنڈز کی مد میں سے تنخواہ دینے پر پانچ سال جیل کاٹنا پڑی۔ سیاسی کلچر کے تناظر میں ہم آپ سے ایک سچا واقعہ شئیر کرتے ہیں۔ جو ہمارے سیاسی کلچر اور جمہوریت کے بارے میں سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔اگرچہ یہ واقعہ برسو ں پرانا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ایک ارتقائی پراسیس کے نتیجے میں آ ج ہمارے ادارے اور گورنمنٹ اور سٹیٹ فنگشنز زیادہ ایفی شینٹ اور شفاف ہوں گے۔ اور میرٹ، قانون اور دستور کی بالا دستی بہتر سے بہتر لیول پر پہنچ چکی ہوگی۔
برسوں قبل راقم ابھی یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ نہیں ہوا تھاتو دارا لحکومت جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک وزیر سے ملاقات کے لیے انکے دفتر پہنچے اور ایک بہت بڑے دفتر میں بہت سے دوسرے اصحاب بھی بیٹھے تھے۔ہمیں وزیر موصوف کے دفتر میں یوں بیٹھنا کب کا بھول چکا ہوتا اگر یہ واقعہ نہ ہواہوتا جس کا ہم ذکر کرنے جارہے ہیں۔ درجن بھر افراد دفتر میں بیٹھے تھے اور شاید وزیر موصوف سے ملاقات کرنے آے تھے۔ یا اپنے اپنے کام سے آے تھے۔ مذکورہ وزیر موصوف ریاست کے اس حصے کی اسمبلی میں بیٹھنے والے ایک کہنہ مشق سیاستدان مانے جاتے تھے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ موصوف ایک پاور فل منسٹر ہیں۔ پاور فل منسٹر سے مراد ہماری سمجھ میں کچھ زیادہ نہیں آیا ان دنوں۔ ہمارے خیال میں موصوف کسی نامور سیاستدان کے مقابلے میں الیکشن جیتے ہوں گے یا الیکشن لڑتے ہوں گے۔ اور کابینہ میں اپنا اہم مقام رکھتے ہوں گے۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اپنی پیشہ ورانہ اہلیت کی وجہ سے موصوف کابینہ کا لازمی حصہ ہوتے ہوں گے۔ لیکن ایک صاحب نے ہمیں ان دونوں وجوہات سے ہٹ کر وزیر موصوف کے پاور فل ہونے کی وجہ بتائی تھی۔ انکے بقول مذکورہ وزیر بیوروکریسی کو گالی گلوچ کرڈالتے تھے۔ یوں بیوروکریسی اس ہارڈ ٹاک کے ڈر سے انکے بتاے ہوے کام فورا کرڈالتی تھی۔ یہ اس سچے دور کی کہانیاں ہیں جب ہارڈ ٹاک اور گالی گلوچ کا کوئی مواخذہ نہیں ہوتا ہوگا۔ آج کل تو سب کچھ آسانی سے ریکارڈ ہوسکتا ہے۔ عدالتیں زیادہ شفاف اور ایفی شینٹ ہیں۔لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔
تو ہم پچھے دو عشروں میں بتدریج میچور ہوتے ہوے سیاسی اور جمہوری کلچر کے تناظر میں اس واقع کا ذکر کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں وزیر موصوف کے دفتر میں بیٹھنا ایسے یاد ہے جیسے مذکورہ واقعہ کل رونما ہوا ہو۔ ایک بھاری بھرکم صاحب اپنے کچھ ساتھیوں سمیت وزیر موصوف کے دفتر میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ صاحب یک سفید رنگ کی پگڑی پہنے ہوے تھے۔جو انکے سر سے اوپر کی طرف نکلی جاتی تھی۔ ان صاحب نے وزیر موصوف کو بتایا کہ وہ ابھی ابھی وزیراعظم صاحب کے پاس سے ہو کہ آے ہیں اور انہوں نے اپنے ایک قریبی عزیز کی سولویں گریڈ میں تقرری کروانی ہے۔ اور یہ کہ وہ صاحب یہ تقرری کروا کہ ہی دفتر سے اٹھیں گے۔
مذکورہ وزیر بے چین سے ہوگیے۔ وزیر موصوف نے اپنے محکمے کے ڈائریکٹر کو فون کیا۔ اور کہا کہ ایک بہت ہی خاص آدمی کے قریبی عزیز کی اسی وقت سولویں گریڈ میں تقرری کرنی ہے۔ ڈائریکٹر صاحب نے واپس بتایا کہ چودھویں گریڈ کی آسامی موجود ہے لیکن پگڑی والے صاحب بضد تھے کہ سولویں گریڈ میں ہی تقرری کرنی ہے۔ وزیر موصوف زچ سے ہوکہ رہ گیے۔ لیکن اپنے محکمے کے ڈائریکٹر صاحب کو زور دئیے جارہے تھے کہ تقرری سولویں گریڈ میں ہی کرنی ہے۔ میری اس وقت کی سمجھ کی مطابق یہ تقرری ہوگئی تھی۔ یہی بات وزیر موصوف نے ان پگڑی والے صاحب کو ہم سب لوگوں کے سامنے بتائی۔ پگڑی والے صاحب کچھ دیر مزید اس دفتر میں بیٹھے رہے اور پھر وہاں سے فاتحانہ چلے گیے۔
میں سوچ میں پڑ ا رہا کہ یہ پگڑی والے صاحب اتنے بااثر کیسے تھے۔میں نے بہت سوچا کہ ہمارے انتخابی حلقے میں یا کسی ملحقہ انتخابی حلقے سے کسی صاحب کا یوں آنا اور زیادہ سے زیادہ آدھ گھنٹے میں سولویں گریڈ میں بھرتی کروا دینا کچھ سمجھ نہیں آیا۔ اصل میں ریاست کی اسمبلی میں بارہ سیٹیں مہاجرین کی ہیں یعنی وادی اور جموں سے جو کشمیری ہجرت کرکہ آے تھے اور وطن عزیز پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہیں انکے لیے ریاست کی اسمبلی میں بارہ سیٹیں مختص ہیں۔ اور ان سیٹیوں پر انتخابی ووٹروں کی تعداد نسبتاً بہت کم یا سینکڑوں میں ہوتی تھی۔ چنانچہ پگڑی والے صاحب ان ہی حلقوں میں سے کسی حلقے سے تعلق رکھتے تھے۔ جب ووٹرز سینکڑوں کی تعداد میں ہوں تو الیکشن انجنئیرڈ کرنا نسبتا آسان بات ہونی چاہیے۔اس لیے جمہوریت کے اصولوں کے مطابق عوامی مطالبات ماننا پڑتے ہیں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ یہ برسوں پرانا واقعہ آج کے سیاسی اور جمہوری دور کا حصہ ہے یا نہیں۔ لیکن یہ ہمیں معلوم ہے کہ محترم وزیر موصوف آج بھی رو بہ حیات ہیں اور سیاست میں موجود ہیں۔ واقعہ آپ سے شئیر کرنے کا مقصد ایک سیاسی اور جمہوری عمل کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ جو صاحب سولویں گریڈ میں بھرتی ہوے تھے آج شاید سیکریٹری کی پوسٹ پر ہوں۔ موصوف نے محنت کی ہوگی۔ بیوروکریسی کو سیکھا ہوگا۔اپنے کام کو سیکھا ہوگا۔ اگرچہ ذاتی طور پر ہم انہیں نہ تو جانتے ہیں اور نہ پہچانتے ہیں۔
ناروے میں ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ 2008ء کے معاشی بحران کے نتیجے میں وزیراعظم نے ایک امدادی پیکیج کا اعلان کیا اور یہ اعلان کرنے سے فورا پہلے ناروے کے سب سے بڑے بینک کے چیف کو کچھ ٹیکسٹ مسیج بھیجے۔اس بات کو میڈیا اور اخبارات نے اچھالنا شروع کردیا کہ وزیراعظم نے اتنے بڑے مالی پیکیچ کا اعلان کرنے سے پہلے بینک کے چیف کو ٹیکسٹ کیوں بھیجا۔ چنانچہ ٹیکسٹ مسیجز میڈیا کو دکھانے پڑے اور تب بھی میڈیا مطمئین نہیں ہوئی۔ کچھ کوارٹرز نے کہا کہ مسیجز بے قصور ہیں۔ اور ان سے نہیں لگتا کہ وزیراعظم نے اس پیکیج کا فیصلہ کرتے ہوے ایسی باتوں اور مفادات کو بنیاد بنایا ہوگا جو عوامی مینڈیٹ اور وسیع تر قومی مفاد کے علاوہ ہوے ہوں۔ مانا کہ ترقی یافتہ معاشرے اور غیر ترقی یافتہ معاشرے کی جمہوریت اور سیاست میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ہمیں خدشہ رہتا ہے کہ اس فرق کا ذکر کرنے سے ہمارے دوست احباب میں سے کچھ جو سیاست دان ہیں اور کچھ بیوروکریٹ ہیں ہم سے نالاں نہ ہوجائیں۔
تھرڈ ولڈ اور فرسٹ ولڈ میں فرق ہی اتنا زیادہ ہے کہ یہ زندگی بھر ہضم ہی نہیں ہوپاتا۔کس کی خواہش نہیں ہے کہ وہ وطن عزیز کا پاسپورٹ لے اور دنیا کے دوسو ممالک میں سے کسی بھی ملک کا ٹکٹ خریدے ا ور گھوم آے۔ آپ نے مڈل ایسٹ میں جاب کرنی ہے۔ آپ کی تنخواہ ترقی یافتہ ممالک کے پاسپورٹ ہولڈرز کے برابر ہو۔ لیکن آپ کو زیادہ آئیڈیا نہیں ہے؟ ملک سے باہر ایک ٹور لگانے کی کوشش کیجیے تب معلوم پڑے گا۔فرسٹ ولڈ اور تھرڈ ولڈ میں کیا فرق ہے۔یہ فرق اگر آپ محسوس کرنا چاہیں۔ سمجھنا چاہیں تو ضرور کیجئے۔یہ فرق جنھجوڑ کہ رکھ دے گا آپکو۔ فرسٹ ولڈ اور تھرڈ ولڈ کے امتیاز اور فرق کا مشاہدہ کرنا ہرگز خوشگوار تجربہ نہیں ہے۔ اور جب دنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے۔ انفارمیشن روولوشن کا دور ہے۔ تب تبدیلی نے تو آنا ہے۔
اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.