جنّات کا وجود اور عدم وجود!

  جنّات کا وجود اور عدم وجود!
  جنّات کا وجود اور عدم وجود!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عیدالفطر آتی ہے تو گھر میں بہت سے عزیز و اقارب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ ’بزرگ‘ ہیں تو آپ کا گھر گہوارۂ اقرباء بن جاتا ہے جس میں نو عمر بچے اور بچیاں بھی اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ سمارٹ موبائل نے اگرچہ باہمی گفتگو کا دائرہ محدود کر دیا ہے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ وقت ایسا نکل آتا ہے جس میں ماضی کی یادیں دہرائی جاتی ہیں۔ ان یادوں میں بعض  ’ہڈبیتیاں‘ بھی ہوتی ہیں اور بعض ’جگ بیتیاں‘ بھی۔ لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جگ بیتی سے زیادہ دلچسپ، معلومات افزاء اور حیرت انگیز ’خود بیتیاں‘ بھی ہوتی ہیں۔

ایسی ہی ایک مجلس میں مجھ سے کہا گیا کہ اپنے دور کا کوئی ایسا واقعہ بیان کروں جس میں اس مخلوقات کا ذکر ہو جس کو آج کا انسان تسلیم تو کرتا ہے لیکن پھر بھی شک و شبہ کی پرچھائیاں اس پر سایہ فگن رہتی ہیں۔ میں نے زندگی کے چند واقعات کا ذکر کیا جن میں جِن بھوت پریت اور چڑیلوں وغیرہ کا ذکر تھا۔ میں نے کہا کہ میری نگاہ  میں انسانی فکر جوں جوں ترقی کی نئی منزلیں طے کرتی جاتی ہے  توں توں بھوت پریت کی داستانیں محض ایسے قصہ ہائے پارینہ بنتے جا رہے ہیں جن پر یقین کرنا مشکل نظر آتا ہے اور یہی بے یقینی ہے جو نہ صرف حیرت افزاء  ہوتی ہے بلکہ اس میں حقیقت کا عنصر افسانے سے زیادہ ہوتا ہے۔ میں نے اپنے بچوں اور عزیزوں کو کچھ واقعات ایسے سنائے جن میں حقائق کا عنصر افسانے کی نسبت زیادہ ’مقدار‘ میں پایا جاتا تھا……ان میں ایک واقعہ کا ذکر خالی از دلچسپی نہیں ہوگا۔

یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب میں بی اے کرنے کے بعد ایم اے کی تیاری کررہا تھا۔ میں نے والدین سے درخواست کی کہ وہ مجھے گھر سے دو ہفتے کے لئے باہر جانے کی اجازت دیں۔ ’باہر‘ سے مراد پاک پتن سے لاہور کا سفر تھا کہ یہاں میرے ایک قریبی رشتہ دار محکمہء پولیس میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر (ASI) تھے اور تھانہ مغل پورہ میں پوسٹ تھے۔چنانچہ میں ان کے ہاں چلا گیا۔

میں صبح ناشتے کے بعد گھر سے نکل کر شالامار باغ میں چلا جاتا اور وہاں تیسرے (اور آخری) تختے کے نزدیک ایک بڑے سے آم کے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ جاتا تھا۔یہ درخت چار دیواری کے نزدیک تھا اور باغ میں آنے والے تماشائیوں سے دور تھا جو بالعموم پہلے اور دوسرے تختے میں آکر قابلِ دید مقامات دیکھا کرتے تھے۔ اگر آپ کا جانا کبھی اس باغ میں ہو توتختہء سوم سے پرے چار دیواری کے نزدیک جا کر دیکھیں تو وہاں سوائے سبز گھاس کے میدان اور درختوں کے کچھ اور قابلِ دید منظر نہیں ہوگا۔

میں وہاں جا کر آم کے ایک دیوقامت درخت کی چھاؤں میں بیٹھ جایا کرتا۔ کتابیں اور کاپیاں وغیرہ ساتھ لے جاتا تھا اور گوشہء تنہائی میں بڑے سکون کے ساتھ مطالعہ میں مصروف ہو جاتا۔ یہی اپریل کا مہینہ تھا۔ امتحانات مئی میں تھے اور اس طرح ڈیڑھ دو گھنٹے بعد وہاں سے واپس گھر کی راہ لیتا تھا۔

جیسا کہ اوپر لکھ آیا ہوں اس جگہ تماشائیوں کی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر تھی۔ البتہ باغ کے مالی وقفے وقفے سے ہاتھوں میں گوپھن لئے بالخصوص اُن طوطوں کو اڑاتے رہتے تھے جو آم کے درختوں پر غول در غول ’یلغار‘ کرکے کچے آموں کا تیاپانچہ کر دیتے تھے۔

ایک روز دورانِ مطالعہ میں نے ایک مالی اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے آکر کہا: ”اس ایریا میں جِن بھوتوں کا بسیرا ہے، آپ یہاں آکر نہ بیٹھا کریں“…… میں مالی کی بات سن کر ہنسا اور کہا: ”جن بھوت کا وجود بالکل نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ ہمارا وہم ہے“۔ مالی یہ جواب سن کر گوپھن لہراتا اور اردگرد کے درختوں سے طوطوں کو اڑاتا ہوا غائب ہو گیا۔

اُس دن ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی کہ مجھے نیند آ گئی اور میں وہیں گھاس پر لیٹ گیا۔ چھاؤں گھنیری تھی اور خیال تھا کہ دھوپ آنے سے پہلے میں بیدار ہو جاؤں گا۔ لیکن ایسی نیند آئی کہ بس سویا رہا۔

آم کے درخت کی چھاؤں چلی گئی اور دھوپ آ گئی۔ میں نے لیٹے لیٹے محسوس کیا کہ ایک بھاری پتھر میرے سینے پر رکھا ہوا ہے۔ میں اٹھنا چاہتا ہوں لیکن نہیں اٹھ سکتا۔ کپڑے پسینے سے شرابور ہو گئے۔ میں نے لاکھ کوشش کی کہ آنکھیں کھولوں اور دھوپ کی تمازت سے اٹھ کر چھاؤں میں چلا جاؤں۔ لیکن کیفیت یہ تھی کہ دماغ جاگ رہا تھا لیکن آنکھیں بند تھیں۔ میں گویا بے سُدھ ہو کر پڑا تھا۔ اتنے میں کسی شخص نے آکر میرا بازو پکڑا، اٹھایا اور کہا: ”میں کافی وقت سے دھوپ میں لیٹا آپ کو دیکھ رہا ہوں۔ کیا آپ کو دھوپ نہیں لگ رہی؟ پسینے سے تو آپ کا بُرا حال ہو رہا ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ جگہ ’سخت‘ ہے۔ یہاں جنات کا بسیرا ہے۔ آپ یہاں نہ آیا کریں۔ ہم بھی دور ہی سے پرندوں کو اڑاتے ہیں اور ان درختوں کے نزدیک نہیں جاتے۔صرف خاکروب جاتے ہیں۔ رات کو یہاں نامعلوم سی روشنیاں بھی نظر آتی ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جنات کی آنکھیں ہیں جو ان درختوں پر رات کو آکر محفلیں لگاتے ہیں۔ آپ اپنی کتابوں کو گھر پر بیٹھ کر پڑھ لیا کریں۔ یہاں لوگ پڑھنے کے لئے نہیں، سیر تماشے کے لئے آتے ہیں اور چار دیواری کے ساتھ ساتھ یہ سارا علاقہ  جِن بھوتوں کا مسکن ہے“۔ میں مالی بابا کی باتیں سن کر حیران ہوا۔ کتابوں میں پڑھا تھا کہ جِن بھوت ہمارا وہم ہیں۔ ان کا کوئی وجود نہیں۔ لیکن یہ واقعہ تو ”ہڈ بیتی“ تھا، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔

بہت بعد میں جا کر معلوم ہوا کہ جِن بھوت کا ذکر تو قرآنِ کریم میں بھی ہے اور آنحضورؐ کی زندگی کا وہ واقعہ بھی نظر سے گزرا کہ جب جنات آنحضورؐ سے قرآن سننے کے لئے آپ کے پیچھے پیچھے آئے تھے۔

یہ واقعہ بتا کر میں تو خاموش ہو گیا۔ تاہم باقی دوستوں نے قرآنِ حکیم میں جنوں کے واقعات کا تذکرہ کیا…… یہ تفصیلات ایک الگ کالم کے متقاضی ہیں …… پھر کبھی سہی!

مزید :

رائے -کالم -