بلدیہ لاہور کہاں ہے؟

بلدیہ لاہور کہاں ہے؟
بلدیہ لاہور کہاں ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میں جوہر ٹاؤن کا مکین ہوں اور میرے نزدیک کا گاؤں سمسانی کھوئی ہے،جہاں میں صبح سویرے گوالوں سے دودھ لینے جاتا ہوں۔ کل میں صبح چھ بجے جب موٹرسائیکل پر وہاں جا رہا تھا تو اچانک میرے دائیں بائیں دو کتے بھونکتے ہوئے دوڑنے لگے۔ ان کی دوڑ دیکھ کر خود مجھے بھی رفتار پکڑنی پڑی۔ ان دو کے پیچھے دوچار اور کتے بھی آ گئے۔ اچانک ایک کتا اگلے پہیے سے ٹکرایا، موٹرسائیکل بُری طرح ڈول گیا۔ قریب تھا کہ موٹرسائیکل گر جاتا لیکن صد شکر کہ یہ نوبت نہ آئی۔ ورنہ ان درندوں نے میری بوٹیاں نوچ لینی تھیں۔ صورت حال یہ ہے کہ مذکورہ گاؤں کے اندر اور گرد و پیش میں ہر وقت کتوں کے لشکر آوارہ خرامی کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات اسی طرح راہگیروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ بلدیہ والے غالباً کسی بڑے المیے کے منتظر ہیں کہ کب کوئی بچہ یا بڑا ان کتوں کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، میڈیا میں وہ المیہ فلیش ہو تو پھر ہی بلدیہ کے اہلکار حرکت میں آئیں۔


بلدیہ کی غفلت کو میں نے دوسری دفعہ اس طرح بُھگتا کہ اگلے دن بعد از نماز مغرب روزنامہ ”پاکستان“ کے دفتر سے نکلا۔ اس روز میرے پاس سواری نہ تھی۔ میں نے فیروز پور روڈ پہنچنے کے لئے جیل روڈ پار کی۔ ٹولنٹن مارکیٹ کے عقب میں واقع گندے نالے کے کنارے دوچار ہی قدم چل کر ایک سیمنٹ کی چار  فٹ سلیب پر سے گزرتا ہوا ٹولنٹن مارکیٹ کی طرف مڑ گیا۔ وہاں روشنی کا بالکل انتظام نہ تھا۔ میں پہلے بھی کئی دفعہ اُدھر سے گزر چکا تھا، مجھے کیا خبر اب وہاں تین کُھلے گٹر ہیں، جن میں سے ایک میں گِرنا میرے نصیب میں تھا۔ میں گِرا اور اگر اِدھر اُدھر کھڑے لوگ بھاگ کر مجھے فوراً باہر نہ نکال لیتے تو جانے میرا کیا حشر ہوتا۔ انہوں نے از راہِ ہمدردی دوسرے دو گٹروں سے بچا کر آگے سڑک تک میری دستگیری کی۔اس تحریر سے دو دن قبل مَیں دن کی روشنی میں اُدھر سے گزرا تو ان گٹروں کے منہ بدستور کھلے تھے، شاید انہیں ابھی کسی اور راہگیر کی آزمائش مطلوب ہے۔


بلدیہ کی غفلت کی ایک تیسری علامت بھی عرض کردوں۔ کچہری روڈ سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور اورینٹل کالج کے درمیان ایک سڑک اردو بازار کی طرف مڑتی ہے۔ اس پر چلتے ہوئے آپ ڈھکی تک پہنچیں تو دائیں طرف کا فٹ پاتھ اتنا مکروہ منظر پیش کرتا ہے کہ آپ محترم بزدار صاحب کی شان میں فوراً ”قصیدے“ پڑھنے شروع کر دیتے ہیں، کیونکہ ان کے لاہور کو جنت نظیر بنانے کے وعدے اور دعوے پڑھتے اور سنتے ہوئے مدت ہو گئی ہے۔ کالج کی مسجد کی لیٹرینوں کے گند کا باہر سڑک کی طرف جو نکاس ہے۔ وہ  حوضی میں گرتا ہے اس کا منہ ٹولنٹن مارکیٹ کے گٹروں کی طرح کھلا رہتا ہے۔ دو قدم آگے کوڑے کرکٹ کا ایک ہمالیہ نما ڈھیر دکھائی دیتا ہے جو بعض اوقات آدھی سڑک تک پھیلا ہوتا ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک بار بلدیہ کا ٹرک اسے اٹھانے آتا ہے اور وہ بھی ادھورے طریقے سے۔ اہلکار آدھ پچد اٹھاتے ہیں، باقی اسی طرح پڑا رہنے دیتے ہیں۔

اورینٹل کالج کے ہوسٹل والے بھی اس میں اپنی سہولت سمجھتے ہیں کہ دیوار کے اوپر سے کوڑا اسی ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سارا ماحول ”مہکا“ رہتا ہے۔ اورینٹل کالج کے بیرونی طرف (کچہری روڈ پر) لمبے لمبے آہنی پائپ ایک مدت سے فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے ہیں۔ معلوم نہیں بلدیہ نے انہیں کہاں استعمال کرنا ہے۔ کالج کے پرنسپل اور ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ جناب ڈاکٹر قمر علی زیدی نے شاید باہر نکل کر کبھی دیکھا ہی نہیں کہ اس تاریخی کالج کا حسن گردو پیش کی ان گندگیوں میں کس حد تک ڈوب چکا ہے۔ وہ درویش آدمی ہیں، ان کے پاس ہر وقت ارادتمندوں کا جھمگٹا لگا رہتا ہے، انہیں روحانی اشغال سے فرصت ملے تو انہیں کچھ دکھائی دے!

مزید :

رائے -کالم -