پشتونخوا پارٹی نے اپنی برتری برقرار رکھی!

ہم اگر یہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ طویل عرصے کے بعد خان عبدالصمد خان شہید نے جس پارٹی کی بنیاد رکھی تھی، آج وہ اپنے عروج کے دور میں کھڑی ہے، لیکن اس مقام پر پہنچتے پہنچتے اسے کئی مشکلات سے گزرنا پڑا ہوگا۔ پارٹی کے رہبر عبدالصمد خان اچکزئی اور اس کی ٹیم کو داد دینی پڑے گی کہ ان نے پارٹی کے وجود کو تقسیم ہونے سے بچائے رکھا۔۔۔ مستقبل میں کیا ہو گا، آج ہم اس کی پیش گوئی نہیں کرسکتے۔ جب خان شہید نے نیشنل عوامی پارٹی سے علیحدگی اختیار کی تھی یا حالات ایسے بنا دیئے گئے تھے کہ ان کو اپنا الگ راستہ بنانا پڑا، نیپ کے قائدین نے اس وقت یہ سوچا ہو گا کہ عبدالصمد خان کی سیاست پارٹی سے الگ ہونے کے بعد ختم ہو جائے گی، ان کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں رہا ہو گا کہ خان شہید کی پارٹی موجود رہے گی اور اسے بام عروج حاصل ہو گا۔ وہ خان شہید کی سیاست کے خاتمے کا سوچ رہے تھے،انہیں اس وقت اس کا بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ تن تنہا ایک نئی پارٹی بنائیں گے اور اپنا سفر ایک بہت بڑے صفر سے شروع کریں گے۔ اس پارٹی کا سفر ایک صفر سے شروع ہوا، وہ آج اپنے سیاسی سفر سے بہت آگے نکل گئی ہے، مگر اس نے اس کٹھن راہ میں کئی سروں کے چراغ بھی جلائے ہیں، جس کی وجہ سے آج پارٹی ایک بلند مقام پر پہنچ گئی ہے۔ طویل عرصے تک اس نے ایجنسیوں سے محاذ آرائی بھی کی، لیکن دھیرے دھیرے وہ اس جگہ پر آن کھڑی ہوئی جہاں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا، آج پشتون قوم پرست پارٹی اور فوج ایک پیچ پر ہیں اور بلوچ قوم پرست پارٹی بھی فوج سے ہم آہنگ ہوگئی ہے۔ پشتونخوا پارٹی آج اپنے ان نعروں سے جو وہ جلسوں اور احتجاجی مظاہروں میں لگاتی تھی اور در و دیوار اس کے نعروں سے بھرے پڑے تھے، وہ آج ان نعروں اس سیاست اور ان خیالات سے بہت دور نکل آئی ہے، بقول شاعر:
آج مَیں دور بہت دور نکل آیا ہوں
اس سے پہلے بھی چلا ہوں مَیں نئی راہوں پر
شاہراہوں سے پرے
شہر و دیہات سے دور
بے طلب بے تگ و دو
یونہی چلتا ہوا چلتا ہوا آ پہنچا ہوں
پے بہ پے گام بہ گام
آج لیکن مَیں بہت دور نکل آیا ہوں
کس قدر دور بہت دور نکل آیا ہوں
اسی لئے محمود خان کو اسلام آباد کی نشست میں کہنا پڑا کہ ’’ لائن پر آجاؤ‘‘۔۔۔اتنی دور نہ جاؤ کہ لوٹ نہ سکو!
آج محمود خان اچکزئی ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ پاکستان قیامت تک قائم رہے گا ۔یہ ایک مثبت تبدیلی ہے، اس کو سراہا جانا چاہئے۔ آج محمود خان کی شخصیت ایک اونچے مقام پر نظر آرہی ہے۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن میں پشتونخوا مکمل آبنگ ہے۔ 21 ویں ترمیم اس طرف واضح نشاندہی کرتی ہے۔ پشتونخوا نے جب صوبائی اسمبلی کی 6 میں سے 4 نشستیں جیتیں اور قومی کی دو نشستیں حاصل کیں تو بعض پارٹیوں کو بڑا جھٹکا لگا اور صدمہ بھی ہوا، وہ اپنی شکست اور پشتونخوا کی حیرت انگیز جیت کو برداشت نہیں کرسکیں۔ پاکستان میں سیاست کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی ہو شکست تسلیم نہیں کرتی اور اس کے لئے جواز تلاش کرتی ہے۔ اب بی این پی نے نیشنل پارٹی سے شکست کھائی ہے اسے یقین نہیں آرہا اور وہ اپنی ہار کو تسلیم نہیں کررہی۔ آج جس بات پر ڈاکٹر مالک پر طعنہ کرتے ہیں، کل وہ نواز شریف کے ساتھ بالکل ایسے ہی کھڑے تھے۔
جیسے آج مالک بلوچ کھڑے ہیں،بلکہ فرط محبت اور عقیدت میں نواز شریف کی گاڑی چلاتے ہوئے شہر تک آئے اور قوم پرست ورکرز ائیر پورٹ سے کوئٹہ تک پیدل بھاگتے ہوئے نواز شریف کو کوئٹہ تک لائے اور ایک بہترین قائد حزب اختلاف کا رول اپنی پارٹی کی طرف سے نبھائیں، وہ آج جیتے تو وہ بھی مالک کی طرح مسلم لیگ کے گیت گارہے ہوتے اس موقع پر گل خان نصیر (مرحوم) کا حوالہ دوں گا، وہ میرے ساتھ جیل میں تھے، ہم سب بھٹو کے قیدی تھے۔ یہ 1973ء کے دور کی بات ہے۔ وہ جیل سے رہا ہوئے تو جنرل رحیم الدین خان کے بہت قریب ہوگئے، اس پر نیپ کے پرانے دوست ان سے ناراض بھی ہوئے ایک دن عبدالماجد فوز (مرحوم) نے کہا کہ گل خان نصیر (مرحوم) سے انٹرویو لینا چاہتا ہوں، ان کے داماد آغا ظاہر سے کہا اور انہوں نے وقت لے لیا۔ ہم دونوں ان کے پاس گئے وہ جیل فیلو تھے، بہت خوش ہوئے۔ ان کا انٹرویو مشرق میں شائع بھی ہوا۔ انہوں نے ایک بات ہم سے کہی: ’’ہم نے بلوچستان میں غلط سیاست کی، ہماری سیاست کا محور درست نہیں تھا۔ ہم نے اس سیاست کا بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ آپ دیکھیں ہماری جنگ امریکہ، پنجاب، ایران اور پاکستان سے تھی، ہم پاگل نہیں تھے تو اور کیا تھے‘‘؟
اب بلوچستان سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا، سیاست دان ورکروں کو بے وقوف نہ بنائیں ۔۔۔بات سے بات نکلتی چلی جارہی ہے ،یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے اور گاہے گاہے اس پر بھی ایک نگاہ ڈال لینی چاہئے۔ ہم بات کر رہے تھے پشتونخوا کی جیت کی، اسے داد دینی چاہئے کہ انہوں نے بڑے صبر و تحمل سے بردباری سے اپنی صف بندی کی اور مالک کے ساتھ مل کر پیش رفت کرتے رہے اور بلوچستان کی تاریخ میں ایک اہم فیصلہ کیا، صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے لئے ڈاکٹر کلیم اللہ جیسے مدبر، جہاں دیدہ اور با صلاحیت شخص کو میئر کے لئے نامزد کیا، صوبائی دارالحکومت کا میئر لاکھوں لوگوں کے لئے بہتر انتخاب ثابت ہو گا۔ دوسری طرف ہائیڈ پارک کا سماں تھا اور ان کی ہار بہت واضح نظر آرہی تھی۔ ایوب خان کے دور کے بعد ڈاکٹر کلیم اللہ کا انتخاب بہت ہی بہتر فیصلہ ہے، سنجیدہ اور سیاسی ذہن کے مالک ہیں، اس سے قبل بھی وہ اس نشست کے لئے کھڑے تھے، نفرت انگیز مہم ان کے خلاف چلائی گئی اور خرید و فروخت کا دھندہ بھی ہوا اور وہ ہار گئے۔ اب قسمت ان کے ساتھ تھی اور پارٹی کا فیصلہ بہت صحیح تھا۔
کوئٹہ شہر کی مشکلات بہت زیادہ ہیں، لیکن وہ حل کر لیں گے، اس لئے کہ ان کی پشت پر پوری صوبائی حکومت موجود ہوگی اور جنرل جنجوعہ کی حمایت بھی انہیں حاصل ہو گی۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ شہر خوبصورت بن جائے اور جو خرابیاں ہوئی ہیں وہ دور ہوجائیں۔ جمعیت العلمائے اسلام (ف) کو اب پورے 5 سال تک انتظار کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر کلیم اللہ اور ڈپٹی میئر یونس بلوچ کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ عوام کے اعتماد پر پورا اتریں گے اوراللہ ان کو لوٹ مار کی آلودگیوں سے بچائے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے قائد محمود خان اچکزئی اور پارٹی کے قائدین مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے کوئٹہ کے میئر کے لئے انتہائی موزوں شخصیت کا انتخاب کیا ہے اور پارٹی بھی مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے اپنی صوبائی حیثیت کو بلدیاتی انتخاب تک برقرار رکھا، عوام کو ان سے جو امیدیں ہیں، ان کو مایوس نہیں کریں گے، ورنہ عوام کی عدالت کا فیصلہ آنے والے انتخابات میں سامنے آجائے گا۔