ہم نے جو کو سہارا دے کر اٹھایا۔اس کی چھاتی پر کئی زخم آئے تھے اور سر سے بھی خون کی ایک تیز دھار ابل کر چہرے کو رنگین کررہی تھی۔ ہم نے اسے اٹھایا اور ڈونگی میں لے آئے۔زخم صاف کیے اور خون روکنے کے لیے پٹی باندھی۔جوپیل کے اوسان بحال ہوئے تو مسکراکر بولا:
’’جنگ کا مزاہی آگیا لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ گولی کھانے کے بعد وہ کیسے اٹھ کھڑا ہوا؟‘‘
’’اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔‘‘چچا نے جواب دیا:’’تمہاری گولی اس کی کھال کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔ اس سے سور کچھ دیر کے لیے سن ہو کررہ گیا۔ جب تم قریب پہنچے تو تو اس نے پاگل ہو کر تم پر ہلہ بول دیا۔شکر ہے تمہاری جان بچ گئی۔‘‘
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر70 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جو کی حالت پھر خطرناک ہو گئی اور بے ہوش ہو گیا۔ ہم ڈونگی میں تیزی سے روانہ ہوگئے اور شہر لے جاکر جوکی کی مہم پٹی کروائی۔ زخم مندمل ہونے میں متعدد ہفتے لگ گئے۔
میں پہلے بتا چکا ہوں کہ چچا جم ہر سال موسم سرما میں شکار کھیلا کرتے تھے۔ اب انہیں اپنے بچھڑے چراگاہوں سے جمع کرکے محفوظ باڑوں میں پہنچاتے دیر ہو گئی،چنانچہ جب شکار پر روانہ ہوئے تو میری موسم سرما کی چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں۔پھر بھی میں ضد کرکے چچا کے ہمراہ شکار پر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ابا جان نے ہدایت کی کہ سکول کھلنے سے پہلے واپس شہر پہنچ جاؤں۔میں نے وعدہ کرلیا۔
کھانا کھانے کے بعد چچا نے کافی تیار کی اور ہم اطمینان سے چسکیاں لینے لگے۔جوپیل گزشتہ تین روز سے غائب تھا۔ میں نے چچا سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ بولے:
’’کوپر،میرے بیٹے،کیچی کریک جو کا آبائی علاقہ ہے۔اس کا قبیلہ مدتوں اس علاقے میں قیام پذیررہا۔جب کبھی ہم ان جنگلوں میں شکار کے لیے آتے ہیں تو اسے بے بہا مسرت ہوتی ہے اور وہ ان جنگلوں میں گھومتے گھامتے بہت دور نکل جاتا ہے۔بہرکیف اگر وہ آج بھی واپس نہ آیا تو میں کل اسے ضرور تلاش کرنے جاؤں گا۔‘‘
کافی سے فارغ ہو کر ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔آسمان پر آہستہ آہستہ اندھیرے قابض ہوتے جارہے تھے۔دور مغرب میں ’’چوکیدار چٹان‘‘ تاریکی کے دبیز پردے میں لپٹتی جارہی تھی۔ چچا نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا:
’’مجھے یقین ہے جوپیل کسی حادثے کا شکار نہیں ہوا ہو گا،تاہم اب اسے جنگلوں میں یوں نہیں گھومنا چاہے، وہ خاصا بوڑھا ہو چلا ہے۔‘‘
جوپیل ایک عجیب و غریب شخص تھا۔وہ چھ سال پہلے چچا کے پاس آیا تھا۔ چچا نے اس کی شخصیت سے متاثرہو کر اسے ملازم رکھ لیا۔ جنگلوں کے بارے میں جوکی معلومات بہت وسیع تھیں۔چچا کی طرح وہ شکار کا زبردست شوقین تھا۔
ہم خیمے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ چچا جم ٹھٹک کر کھڑے ہو گئے اور کچھ سننے کی کوشش کرنے لگے۔میں نے بھی کان لگا دیے۔جھاڑیوں میں کسی کے چلنے کی آواز آرہی تھی۔ مڑ کر باہر دیکھا تو جوپیل جھاڑیوں کی اوٹ سے نکل آیا تھا۔اس کے کاندھے پر ایک مردہ ہرن تھا۔ جو لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔اس کا کندھا اور چہرہ ہرن کے خون سے لتھڑا ہوا تھا۔
’’واہ!جو تم نے کمال کر دیا۔‘‘میں نے مسرت سے بے خود ہوتے ہوئے کہا:
’’گزشتہ دوروز سے باسی گوشت کھا کر تنگ آچکا تھا۔آج تازہ گوشت مزے سے کھاؤں گا۔‘‘اور چچا جم ہرن کا جائزہ لینے لگے۔ایک نظر دیکھنے ہی سے پتا چل گیا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔ہرن کی گردن ٹوٹ کر پیچھے کو مڑی ہوئی تھی۔ اس کی چھاتی اور گلے پر گہرے زخم تھے۔معلوم ہوا سے شیر نے مارا ہے۔
میں تعجب سے دیکھنے لگا۔اس کی آنکھوں میں ایک عجیب وحشیانہ چمک تھی۔ رائفل اسکے بائیں کندھے سے لٹکی ہوئی تھی اور چوڑے پھل کا’’میچٹی‘‘ چھرا اس کی کمر سے لٹک رہا تھا۔
’’کیچی کے جنگلوں میں گزشتہ کئی برس سے کوئی شیر موجود نہیں ہے۔کم از کم اس کی خبر کسی کو نہیں۔‘‘ چچا نے بھی حیرت سے کہا:’’مجھے تو تمہاری بات کایقین نہیں آتا۔‘‘
جوپیل خاموش رہا۔وہ آگ کے قریب بیٹھ کر ہاتھ سینکنے لگا۔چند لمحے بعد بولا:
’’کافی عرصہ پہلے میرا قبیلہ اس علاقے میں رہتا تھا،ایک شیر آگیا تھا، اس وقت یہاں ہر نوں کی بہتات تھی۔ قبیلے کے آدمی ان کے شکار پر گزر اوقات کرتے تھے لیکن شیر کے آنے سے ہرنوں میں کمی واقع ہو گئی۔
’’پیارے جو،یہ کافی عرصہ پہلے کی بات ہو گی۔‘‘چچا جم نے لمبا سانس لیتے ہوئے کہا:’’آج کل ان جنگلوں میں شیر کہاں؟جس شیر کا تم شکار اٹھا لائے ہو،یہ میکسیکو سے آیا ہو گا۔‘‘
جو کوئی جوابدینے کے بجائے ہرن کی کھال اتارنے لگا۔ چچا شاید مطمئن نہ ہو سکے تھے، چنانچہ دوبارہ سوال داغ دیا:
’’ہرن کہاں سے اٹھایا تھا؟‘‘
’’بڑی چٹان کے قریب سے۔‘‘جو نے کہا۔میں سمجھ گیا کہ اس کا اشارہ ’’چوکیدار چٹان‘‘ کی طرف تھا جوپہاڑی سے قدرے آگے نکلی ہوئی تھی۔
’’میں علی الصبح جاکر کتے لے آؤں گا۔‘‘چچا نے کہا:’’پھرہم تمہارے اس شیر کا تعاقب کریں گے۔‘‘
’’نہیں جم، کتوں کی ضرورت نہیں۔‘‘جو تیزی سے بولا:’’میں تنہا اس کا شکار کروں گا، جیسا کہ کبھی میرے باپ نے کیا تھا۔‘‘
چچا یہ سن کر بڑے متعجب ہوئے۔شمال کی طرف سے آنے والی سرد ہوا میں اب تیزی آچکی تھی۔ہمارے جسم سن ہوئے جارہے تھے۔آگ بھی ہمیں گرم رکھنے میں ناکام ثابت ہو رہی تھی۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
’’جو تم کتوں کی مدد کے بغیر شیر کا تعاقب نہیں کر سکتے۔‘‘چچا نے اسے سمجھانے کی کوشش کی:’’کتے اس دس بیس میل کے علاقے میں سراغ لگا لیں گے۔تم سے اتنی مشقت نہ ہو سکے گی۔ تمہاری جوانی کی گرمی ختم ہو چکی ہے۔اب تم بڑھاپے کی سردیوں سے دو چار ہو چکے ہو۔‘‘
جو نے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا:’’لیکن یہ شیر بھی اسی موسم کا شکار ہو چکا ہو گا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو جم۔‘‘چچا نے پوچھا۔ساتھ ہی انہوں نے جیب سے سگریٹوں کا پیکٹ نکال کر ایک سگریٹ خود لیا اور دوسرا جوکی طرف اچھال دیا۔جو نے ایک چنگاری سے سگریٹ سلگایا اور لمبا کش لے کر بولا:
’’جب یہ شیر پہلی بار یہاں آیا تھا تو میں کوپر کی طرح لڑکپن کی منزل سے گزررہا تھا۔ ایک بارشیر سے میرے باپ کی مڈ بھیڑ ہو گئی۔انہوں نے اس پر تیر چلائے لیکن بدقسمی سے کمان ٹوٹ گئی۔ بڑی چٹان کے نیچے دونوں میں شدید جنگ ہوئی، میرا باپ ہلاک ہو گیا۔ شیر بھی زخمی ہوا مگر بچ گیا۔ اس نے دوبارہ ہرنوں کا شکار شروع کر دیا۔(جاری ہے )
آخری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں