آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر70
جنگلی سوروں کا شکار بڑا مشکل ،دلچسپ اور جوش انگیز ہوتا ہے۔چچا نے فوراً دعوت قبول کرلی۔ ہم نے لانچ سے بندھی ہوئی ڈونگی کھولی، بندوقیں وغیرہ لیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہو لیے۔کچھ دور تک بڑے دریا میں سفر کرنے کے بعد ہم اس کی ایک معاون ندی کے دہانے میں داخل ہوئے۔تقریباً چار سوگز مزید آگے جاکر ہم نے کشتیاں کنارے سے لگا دیں۔خشکی پر اترے اور وسیع و عریض جنگل میں گھس گئے۔ریڈ انڈین تیر کمان، لمبے نیزوں اور چوڑے پھل والے چھروں سے مسلح تھے۔آھ گھنٹے کے سفر کے بعد جورابیلا اور اس کے بیٹے کچھ محتاط سے ہوگئے۔انہوں نے ہمیں بھی خاموش رہنے کا اشارہ کیا:
”ہم جنگلی سوروں کے قریب پہنچ چکے تھے۔“جوپیل نے میرے کان میں آہستہ سے کہا:”میں ان کی بوسونگھ رہا ہوں۔“
لاکا آہستہ سے چند قدم آگے بڑھا اور جھک کر جھاڑیوں کی اوٹ سے دیکھنے لگا،پھر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سر کو جنبش دی۔
”لاکا نے سوروں کا سراغ لگا لیا ہے“۔جوپیل نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔
اب ہم جورابیلا کی ہدایت پر نصف دائرے کی شکل میں آگے بڑھے۔ریڈ انڈین پرندوں کی آوازوں سے ملتی جلتی سیٹیاں بجا کر ایک دوسرے کو ہدایات دے رہے تھے۔میں زندگی میں پہلی بار اس انوکھے تجربے سے دو چار ہو رہا تھا۔میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ یوں لگتا تھا، جیسے میری ریڑھ کی ہڈی میں چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔اچانک لاکا نے نعرہ بلند کیا اور نیزہ جھاڑی میں دے مارا۔ایک بڑا جنگلی سور تیزی سے لاکا پر حملہ آور ہوا۔لاکا نے فوراً اچھل کر ایک درخت کی شاخ پکڑ لی۔سور کا وارخالی گیا اور وہ نیچے سے گزر گیا۔ اس ناکامی سے اس کے اشتعال میں مزید اضافہ ہوگیا۔
”فائر کرو۔“جوپیل نے چیخ کر کہا:”ورنہ ہماری خیر نہیں۔“
میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے گولی چلا دی لیکن نشانہ خطا گیا۔اب جو رابیلا نے کمان سے تیر پھینکا جو سیدھا سور کے شانے پر پیوست ہو گیا۔وہ دوڑتے دوڑتے گر پڑا لیکن پھر اٹھا اور دگنی شدت سے دوبارہ ہم پر حملہ آور ہوا۔اب کے چچا جم نے انتہائی پھرتی دکھائی۔انہوں نے سور کے سر کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔سور کے پرخچے اڑ گئے اوروہ زمین پر گر پڑا۔
ہم آگے بڑھ گئے۔ایک کھلے میدان میں سوروں کا گلہ اپنے دانتوں میں زمین میں دبی ہوئی جڑیں کھود کھود کر کھا رہا تھا۔ چچا نے مجھے فائرکرنے کا موقع دیا۔میں نے ایک جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھ کر گولی چلا دی۔ایک سور ڈھیر ہو گیا۔ فائرکی آواز سے جنگل گونج اٹھا۔ایک سور حلق سے بھیانک آوازیں نکالتا ہوا میری طرف بڑھا۔ جورابیلا نے اس پر تیر چلایا۔ سورنے اپنا رخ موڑا۔ اب وہ پیک کی طرف لپک رہا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو پیک اچھل کر ایک طرف ہو گیا۔ اس کی اس پھرتی پر سبھی عش عش کراٹھے۔دراصل خطرے کے وقت حاضر دماغی اور مستعدی ریڈ انڈین باشندوں ہی کا خاصہ ہے۔میں نے اس کا مظاہرہ کہیں اور نہیں دیکھا، حالانکہ میں پورے افریقہ اور یورپ میں شکار کھیل چکا ہوں۔
پیک نے اپنا لمبا نیزہ سور کے شانے کے نیچے جھونک دیا۔اس کی جرات قابل داد تھی کہ وہ اس خوفناک جانور کے ساتھ دوڑتے ہوئے نیزے پر دباﺅ ڈال کر اسے اور زیادہ گہرا جھونکنے کی کوشش کررہا تھا۔ بالآخر سور تکلیف کی شدت سے زمین پر گر پڑا۔پیک نے کمر سے چوڑے پھل والا چھرا جسے”میچٹی“کہتے ہیں،کھولا اور سور پر پے درپے وار شروع کر دیے۔سور نے بھیانک چیخ ماری اور تڑپ تڑپ کر دم توڑ گیا۔ ہم دم بخود کھڑے انسان اور جنگل کے خوفناک جانور کی اس جنگ کو دیکھ کر رہے تھے۔پیک نے جوش مسرت سے نعرہ بلند کیا اور لاش کے گرد رقص کرنے لگا۔
جورابیلا نے اعلان کیا کہ فائرنگ کی آواز سے باقی سور محتاط ہو گئے،اب مزید شکار نہیں ملے گا، لہٰذا واپس چلنا چاہیے۔پیک اور لاکا نے ہلاک کیے ہوئے سوروں کو ایک جگہ اکٹھا کیا، ان یک ٹانگیں جنگلی بیلوں سے باندھیں اور ایک موٹی ٹہنی سے لٹکا کر کندھوں پر اٹھالیا۔ جو رابیلا نے چچا سے پوچھا:
”کیا آپ بھی کچھ حصہ لینا پسند فرمائیں گے؟“
چچا نے اس کے شوق کو دیکھ کر کہا:”نہیں ہم اور شکار کرلیں گے،یہ سب آپ لے جائیں۔“
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر69
جورابیلا بے حد خوش ہوا اور اپنے ہاتھ نچا کر شکریہ ادا کرنے لگا۔ ریڈ انڈین کسی کے ممنون احسان ہوتے ہیں تو اسی طرح شکریہ ادا کرتے ہیں۔
ہمیں شکار کے لیے یہ جگہ اتنی پسند آئی کہ اگلے دن بھی یہیں کا پروگرام بنا لیا۔ ڈونگی میں بیٹھ کر ندی میں آگئے۔ چچا اور جوپیل چپو چلا رہے تھے اور میں رائفل تھامے کشتی میں بیٹھا تھا۔ اچانک جونے کنارے پر ایک سور دیکھ لیا۔ اس نے اچھل کر کہا:
”اب میری باری ہے،میں اسے شکار کروں گا۔“ پھر میرے ہاتھ سے رائفل لی نشانہ باندھا اور گولی چلا دی۔سور لڑکھڑا کر گر پڑا۔جو نے نعرہ ماراا ور چپو ہاتھ ہی میں لیے ڈونگی سے کود کر ندی پار کی، جوں ہی وہ سور کے قریب پہنچا ،اس نے ایک بھیانک چیخ ماری اور اٹھ کھڑا ہوا اور پھر جو پرٹوٹ پڑا۔ جونے گھبرا کے سور کے سر پر چپودے مارا۔ چپو کے ٹکڑے ہو گئے اور جولڑھک کر ایک طرف گر پڑا،تاہم وہ فوراً سنبھلا،پھرتی سے اٹھا اور چوڑے پھل والا چھرا نکال لیا۔ سور کا حملہ اتنا شدید تھا کہ اسے وار کرنے کی مہلت ہی نہ ملی۔میں نے ضطرار کی حالت میں ڈونگی میں پڑی ہوئی رائفل اٹھالی۔ چچا جم چیخے:
”کوپرٹریگر مت دباﺅ، جوبھی گولی کا شکار ہو جائے گا۔“
یہ کہہ کر انہوں نے اپنی رائفل لی، ڈونگی سے کودے اور جوکی طرف دوڑے۔میں بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ جو سور سے گتھم گتھا ہو چکا تھا۔ کبھی کبھار اس کا چھرے والا ہاتھ اٹھتا اور سور کے جسم پر کاری وار لگا دیتا لیکن وہ خود بھی اس کے تندو تیز حملوں سے لہولہان ہو چکا تھا۔ چچا جم نے جرات سے کام لیا اور سور کو زور سے رائفل کا بٹ دے مارا۔سورنے وحشت ناک آنکھوں سے چچا کو دیکھا۔ ان کی رائفل نے شعلہ اگلا۔ اگلے ہی لمحے سور کا بھیجا اڑ گیا۔ وہ آخری بار کانپا،دھڑام سے گرا اور دم توڑ گیا۔(جاری ہے)آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر71 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں