آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر69
بوندیں پڑنی بند ہو چکی تھیں اور بادلوں کے درمیان اکا دکا تارے بھی نظر آنے لگے تھے۔ ابھی دو چار منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ قریبی جھاڑیوں میں ہنگامے یا غرانے کی خوفناک آوازیں آنے لگیں،بالکل ویسی ہی جیسے تیندوے اور لگڑ بگڑ کی لڑائی کے وقت آئی تھیں۔چار پانچ منٹ بعد خاموشی طاری ہو گئی۔
میں درخت پر دن نکلنے کا انتظار کرتارہا۔سورج نکلنے کے بعد نیچے اترا اور بھری ہوئی رائفل سنبھالے نہایت محتاط قدموں کے ساتھ ان جھاڑیوں کی جانب بڑھا جس طرف گولی لگتے وقت تیندوے کا منہ تھا۔ ایسے مواقع پر تیندوا اسی جانب جست کرتا ہے جدھر اس کا منہ ہو۔
میں ابھی دس گز بھی نہ گیا تھا کہ جھاڑی کے اندر تیندوا نظر آیا۔ اس نے اپنا سر اپنے اگلے پنجوں پر ڈال رکھا تھااور لہولہان تھا۔ قریب ہی بھگوان داس کی لاش کے ٹکڑے ادھرادھر اس طرح پڑے تھے،گویا کسی نے کلہاڑی کے کاٹ کر پھینک دیئے ہوں۔سر اور سینہ البتہ ابھی تک قاتل تیندوے کے اگلے پنجوں میں دبے ہوئے تھے۔اس نے اپنا سارا غصہ غریب بھگوان داس کی لاش پر ہی اتارا تھا۔ جس طرح وہ اسکی لاش کو کھارہا تھا سے دیکھنے کی کوئی تاب نہیں رکھتا۔ میں نے ایک پتھر اٹھا کر اس کی طرف پھینکا۔ اس نے آہستہ سے سر اٹھایا۔ غنودگی میں ڈوبی ہوئی آنکھیں کھولیں ۔مجھے دیکھا اور سر اپنے پنجوں پررکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔شاید اس میں ہلنے جلنے کی سکت نہ رہی تھی اور کوئی دم کا مہمان تھا۔پھر بھی اس کی شہر آفاق مکاری نے مجھے پس و پیش کا موقع نہ دیا اور میری دوسری گولی اس کے ماتھے پر پڑی۔تقریباً سات آٹھ گز سے گولی کا دھکا اتنا زبردست تھا کہ وہ اپنی جگہ سے پڑے پڑے گھوم گیا۔ کھوپڑی کی ہڈی کا چھوٹا سا حصہ گولی کے ساتھ اڑ گیا اور بھیجے کے ٹکڑے بکھر کر جھاڑیوں سے چمٹ گئے۔پھر بھی بدن تھر تھرایا یا شاید اس وقت تک جان نہ نکلی تھی۔میری پہلی گولی اس کے پیٹ میں لگی تھی۔بھگوان داس کے قاتل کو بھی اسی طرح مرنا چاہئے تھا ۔
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر68 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نہر کی پٹڑی پر بیٹھا دیوری سے مدد کا انظار کررہا تھا کہ سائیکل پر بندوق سنبھالے پونڈی کی طرف سے منی رام تنہا آتا نظر آیا۔ مجھے اس لڑکے کی جرات اور بے خوفی پر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔
وہ میرے رات بھرغائب رہنے کے سبب پریشان تھا۔ علی الصبح اس نے سائیکل اور بندوق اٹھائی اور تین چار میل دور ایک گھاٹی سے پہاڑ پارکرکے تنہا پونڈی پہنچا۔شاید میں نے اس سے ذکر کیا تھا کہ گونڈوں کی موت کی رپورٹ درج کروانے پونڈی جاؤں گا۔وہاں سے اسے میرا پتا ملا تو خبر لینے دوڑتا ہوا میرے پاس پہنچا۔ مجھے بخیر و خوبی پاکر خوشی سے اس کے آنسو نکل آئے۔دیوری کے لوگوں کی آمد کے بعد میں نے تیندوے کو منی رام کی سائیکل کے کیرئیر پر لاددیا کہ وہ اسی راستے سے اودھ پورہ آجائے۔منی رام کے آنے کے بعد سائیکل کے ساتھ ہی یادگار کے طور پر اس کی اور تیندوے کی تصویر اتاری۔ یہ شکار اسی کا تو تھا کہ سب سے پہلے اسی کی گن شاٹ کا دانہ تیندوے کی ران پر لگا اور اسے زخمی کر گیا تھا۔
یادگارباقی ہے۔رہا منی رام، تو دوسرے ہی برس ٹائیفائڈ میں مبتلا ہو کر اپنی بہن شانتی سے جا ملا۔
****
اب اگلے شکار کی کتھا سنئے
بھوک کے مارے میری حالت انتہائی غیر ہوئی جارہی تھی۔میں نے بے صبری سے آگ پر رکھے ہوئے برتن کا ڈھکنا اٹھایا۔ سوندھی سوندھی خوشبو نتھنوں میں گھس گئی۔میں اپنے چچا اور ان کے ایک ریڈ انڈین ملازم کے ساتھ شکار کے لیے آیا ہوا تھا۔ ہم صبح سے لے کر شام تک گھوڑے کی پشت پر ہرنوں کا پیچھا کرتے رہے تھے اور میرے جسم کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔اس پریہ پشیمانی مستزاد کہ ایک بھی ہرن ہاتھ نہ آیا تھا۔خیمے کے سامنے گرے ہوئے درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر میں نے ٹانگیں پھیلا دیں۔اسی اثناء میں دریا کی جانب سے چچا جم آتے دکھائی دیے۔ان کے ایک ہاتھ میں بالٹی تھی اور دوسرے میں تین موٹی موٹی شکر قندیاں۔ ان پر سرخ مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔پانی کی بالٹی انہوں نے ایک طرف رکھی اور تینوں شکر قندیاں آگ میں دبا دیں،پھر میری طرف دیکھ کر مسکرائے اوربولے:
’’جانتے ہو ،بھنی ہوئی شکر قندی بڑی لذیذ ہوتی ہے۔‘‘
شاید وہ میری تھکاوٹ کا احساس کرتے ہوئے مجھے خوش کرنا چاہتے تھے۔میں نیم دلی سے مسکرانے لگا۔
’’ہاں چچا،آپ درست کہتے ہیں۔سرما کی یخ بستہ راتوں میں بھنی ہوئی شکر قندی بڑا مزا دیی ہے۔‘‘
چچا جم نے کنکھیوں سے مجھے دیکھا:’’ہونہہ،معلوم ہوتا ہے تم نے پہلے بھی کبھی چکھی ہیں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے کھانا آگ سے اتارااور پلیٹ میں ڈال کر سامنے رکھ دیا۔میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کھانا لیا اور جلدی جلدی زہر مار کرنے لگا۔ خنک ہوا کا ایک جھونکا آیا اور مجھے تخیلات کی دنیا میں اڑا لے گیا۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
****
ہم ہر سال اس موسم میں شکار کھیلا کرتے تھے۔چچا جم ہماری شکایر پارٹی کے لیڈر ہوتے۔گزشتہ سال ہم نے جنگلی سوروں سے دو دو ہاتھ کیے تھے۔یہ انتہائی خوفناک مہم تھی۔ اس میں ہمارا تیسرا ساتھی جوپیل، چچا جم کا ریڈ انڈین ملازم، ایک مشتعل جنگلی سور کے حملے سے بال بال بچا تھا۔
ہوا یوں کہ ہم وسطی امریکہ کے ایک دریا میں سفر کررہے تھے۔صبح کا وقت تھا۔ ہماری لانچ دریا کی موجوں سے اٹھکیلیاں کرتی ہوئی رواں دواں تھی۔ میں جنگل سے ٹیک لگائے گرما گرم کافی سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ میرے کانوں میں سنکھ کی آواز آئی جو وقفوں سے بلند ہو رہی تھی۔ میں نے چچا اور جوپیل کی اس طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے آواز پر کان لگا دیے، پھر جوپیل بولا:
’’کوئی ریڈ انڈین ہم سے بات کرنا چاہتا ہے،وہ اپنی کشتی میں ہمارے پیچھے آرہا ہے۔‘‘
چچا جم نے ڈرائیور کو ہدایت کی کہ لانچ کی رفتار کم کر دے۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ریڈ انڈین کی مخصوص طرز کی کشتی اپنی طرف بڑھتی ہوئی نظر آئی۔دونوجوان ریڈ انڈین لمبے چپوؤں سے کشتی کھے رہے تھے اور ایک ادھیڑ عمر کا شخص ہاتھ میں سنکھ پکڑے کشتی میں کھڑا تھا، جوپیل نے انہیں شناخت کرلیا اور بتایا کہ یہ لوگ مسکیٹو قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔اس اثناء میں کشتی، لانچ کے بالکل قریب پہنچ گئی۔ لٹکی ہوئی رسی کی مدد سے ادھیڑ عمرکا آدمی ہماری لانچ پر آگیا اور جو سے مقامی زبان میں باتیں کرنے لگا۔ جونے بتایا کہ یہ مسکیٹو قبیلے کا سردار جورابیلا ہے۔اس کے ساتھ اس کے دو بیٹے لاکا اور پیک ہیں۔یہ ہمیں اپنے علاقے میں جنگلی سوروں کے شکار کی دعوت دینے آئے ہیں۔
(جاری ہے)