آخری قسط ۔۔۔ آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان
نتیجہ یہ ہوا کہ ہم لوگ خوراک کی قلت کا شکار ہو گئے اور پورا قبیلہ یہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گیا۔ بہت سے لوگ موسم کی سختیوں اور بھوک کا لقمہ بن گئے۔ اب اس علاقے میں میرے قبیلے کا کوئی آدمی نہیں رہتا۔‘‘
اچانک دور شیر کی زبردست دھاڑ سے جنگل گونج اٹھا۔میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔چچا بھی کافی پریشان تھے، ان کے ہاتھ میں کافی کا پیالہ لرز رہا تھا، تاہم انہوں نے مجھے تسلی دی:
’’کوپر، پر سکون رہو، درندہ ہم سے کافی دور ہے۔‘‘
جو کے لبوں پر پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے رائفل پکڑی اور کہنے لگا:’’خدا حافظ دوستو، میں شیر سے دودو ہاتھ کرنے جارہا ہوں۔‘‘
’’جو احمق مت بنو۔تم رات کے اندھیرے میں اس کا سراغ نہ لگا سکو گے۔آرام سے بیٹھو،صبح دیکھا جائے گا۔‘‘
لیکن جوپیل کیمپ کے باہر پھیلی ہوئی تاریکوں میں گم ہو چکا تھا۔چچا اس کے پیچھے بھاگے مگرچند قدم چل کر واپس آئے اور کہنے لگے:
’’میں اسے تلاش کرنے جارہا ہوں۔تم پریشان مت ہونا۔‘‘
’’میں بھی آپ کے ہمراہ چلوں گا۔‘‘
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر71 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’نہیں،تمہیں پرسوں سکول جانا ہے۔‘‘چچا غرائے۔’’اس اندھیری رات میں تمہیں ساتھ رکھ میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔‘‘لیکن میرے چہرے کو بغور دیکھ کر انہوں نے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ پھر اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے کہنے لگے’’میکیکو سے آئے ہوئے شیر عموماً بزدل ہوتے ہیں۔جوپیل اسے آسانی سے گولی کا نشانہ بنا لے گا۔‘‘
ہم نے ہرن کا گوشت آگ پر بھون کر کھایا، پھر بستروں میں دبک گئے۔دن چڑھا تو کافی کے دو دو گھونٹ پینے کے بعد گھوڑوں پر سوار ہو کر جوکی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔چچا نمدار زمین پر جو کے قدموں کے نشان بڑی آسانی سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھی۔کافی دور جاکر ان کے ساتھ شیر کے پنجوں کے نشان بھی دکھائی دینے لگے۔چچا نے غور سے دیکھتے ہوئے کہا:
’’درندہ زخمی ہو چکا ہے اور اپنی پچھلی بائیں ٹانگ گھسیٹ کر چلتا رہا ہے۔‘‘
آگے چل کر ہم نے شیر کا پہلا شکار دیکھا۔ یہ ایک مردہ ہرن تھا جس کا پیٹ پھٹا ہوا تھا،چچا اسے اچھی طرح دیکھنے کے بعد ہنس دیے:
’’جونے بڑی کامیابی سے شیرکا تعاقب کیا ہے۔اس نے شیر کو اپنا شکار کھانے بھی نہیں دیا۔‘‘
ہمارے گھوڑے پھر دوڑنے لگے۔ہم کیچی کے جنگل میں کافی دور تک آچکے تھے۔ایک جگہ شیر کا دوسرا شکار نظر پڑا۔ یہ بھی ایک ہرن تھا جس کی گردن شیر نے مخصوص انداز میں توڑ ڈالی تھی لیکن اس کا پیٹ پھٹا ہوا نہیں تھا۔ چچا گھوڑے سے نیچے اترے اورہرن پر ہاتھ رکھ کر بولے۔
’’یہ ابھی تک گرم ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم درندے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔زندہ باد جوپیل، تم نے شیر کو یہ شکار بھی کھانے دیا۔‘‘
اب ہم بڑی احتیاط سے آگے بڑھنے لگے۔شاید گھوڑوں کوشیر کی بو آنے لگی تھی۔انہوں نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ ہم نے چابک پہ چابک رسید کیے لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ مجبوراً ہم گھوڑوں سے اتر پڑے اور لگام پکڑ کر آگے سے انہیں کھینچنے لگے۔یہ طریقہ کامیاب رہا۔چند گز آگے شاہ بلوط کے درخت کے نیچے شیر مرا پڑا تھا۔ چوڑے پھل کا’’میچٹی‘‘چھرا دستے تک اس کے سینے میں گھسا ہوا تھا۔شیر خاصا بوڑھا تھا۔
’’جو کہاں ہے؟‘‘ میں نے ادھرادھر دیکھتے ہوئے چچا سے پوچھا:
چچا نے شاید میرا سوال نہ سنا تھا، وہ بڑے انہماک سے شیر کا جائزہ لے رہے تھے:
’’یہ دیکھو۔‘‘چچا نے شیر کی پچھلی ٹانگ کی طرف اشارہ کیا:’’گولی لگنے سے اس کی ٹانگ ٹوٹ چکی ہے۔میرے خیال میں جونے درندے سے دو بدو جنگ بھی کی ہے۔ممکن ہے وہ زخمی ہو گیا ہو۔تم شیر کو گھوڑے پر لادکر خیمے کی طرف واپس جاؤ اور میں جوکو تلاش کرتا ہوں۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
میں شیر کو گھوڑے پر لاد کرکیمپ کی طرف روانہ ہوا۔چچا جم آگے بڑھ گئے۔گھوڑا درندے کی بو اور لاش سے قدم قدم پر بدک رہا تھا۔ بڑی مشکل سے لگام کھینچ کھینچ کر آگے بڑھتارہا۔ کیمپ میں پہنچا تو سورج غروب ہو را تھا۔ چچا جم مجھ سے پہلے وہاں موجود تھے اور خیمے کے سامنے بڑی خاموشی سے سر جھکائے بیٹھے تھے۔مجھے دیکھ کر وہ آہستگی سے بولے:
’’جوپیل مرچکا ہے۔‘‘
میری آنکھیں پرنم ہو گئیں۔خیمے کے اندر جوکی لاش رکھی ہوئی تھی۔ اس کا دایاں ہاتھ گلے کے زخم پر تھا اور بائیں ہاتھ میں اس نے ابھی تک ونچسٹر رائفل مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔میں آنسو پونچھتا ہوا باہر نکلا ۔ہمارے شکار کا ساتھی ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ چکا تھا۔
ختم شد