مذاکرات کامیاب ہوں گے، شاہ محمود نظر انداز کیوں؟

   مذاکرات کامیاب ہوں گے، شاہ محمود نظر انداز کیوں؟
   مذاکرات کامیاب ہوں گے، شاہ محمود نظر انداز کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی کمیٹیوں کا دوسرا اجلاس بھی ہو گیا اس میں بھی کوئی بڑی پیش رفت نہ ہوئی اور پہلی میٹنگ کی طرح تقاریر پر اکتفا کیا گیا۔ تحریک انصاف کی طرف سے عمر ایوب نے روائتی طویل تقریر کی اور اسی موقف کا اعادہ کیا جو وہ بار بار دہرا رہے ہیں۔ اجلاس کے بعد بھی عمر ایوب نے میڈیا سے کم و بیش پہلے والی باتیں کیں اور بتایا کہ تحریک انصاف تو اپنا بیانیہ بنا چکی اور ہمارے صرف دو ہی مطالبات ہیں کہ نو مئی اور چھبیس نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور سیاسی اسیروں کو رہا کیا جائے، اگرچہ عمران خان کا نام نہیں لیا لیکن ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف سب مقدمات جھوٹے ہیں یوں وہ خان صاحب کو بھی سیاسی اسیر ہی کہہ رہے ہیں اگرچہ ان کا مختلف الزامات کے تحت ٹرائل بھی ہو رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر تحریک انصاف کی حاضر اور باہر والی لیڈرشپ کی طرف سے شاہ محمود قریشی کو بالکل ہی نظر انداز کیا ہوا ہے ان کے اس شکوے کو بھی درخور اعتنا نہیں جانا کہ ان کے تجربے سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا،  شاہ محمود قریشی بھی تب سے مقید ہیں، جب سے عمران خان ہیں پہلے وہ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں تھے مگر اب ان کو لاہور رکھا گیا ہے اور اڈیالہ تب لایا جاتا ہے جب ان کے مقدمہ کی تاریخ ہو۔ آج مجھے شاہ محمود قریشی یاد آتے ہیں کہ ان کی گفتگو بھی آن ایئر ہوئی ہے۔ میری ان سے مرحوم جونیجو دور سے واقفیت اور تعلقات ہیں، ان کی میٹھی زبان اور تیز تقریروں سے محظوظ ہوتا رہا ہوں، ان کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں، پہلے مذاکرات کے حوالے سے کچھ اور عرض کرلیا جائے۔ تحریک انصاف کے برعکس مسلم لیگ (ن) کی ترتیب دی گئی، کمیٹی کے اراکین بہت محتاط گفتگو کرتے ہیں، حالانکہ تحریک انصاف کے حضرات اپنے موقف پر بضد ہیں، اگرچہ خلاف توقع علی امین گنڈا پور کا رویہ مختلف اور مثبت گردانا جا رہا ہے سرکاری کمیٹی محتاط ضرور ہے لیکن بعض باتوں کی وضاحت کے لئے محترم رانا ثناء اللہ اینکر حضرات کو مایوس نہیں کرتے اور واضح کرتے چلے جا رہے ہیں کہ مقدمات کے فیصلے تو عدالتوں کو ہی کرنا ہیں اور عمران خان کی رہائی بھی عدالتوں ہی سے ہوگی۔ یوں اب تیسری میٹنگ کا انتظار ہے جو اگلے ہفتے ہوگی اور اس سے پہلے پی ٹی آئی والی پوری کمیٹی جیل میں عمران خان سے مشاورت کر چکی ہوگی کیونکہ عمر امین گنڈا پور کے مطابق بانی جماعت ہی نے مذاکرات کی اجازت دی اور وہی پالیسی دیں گے۔

اس سلسلے میں پاکستان میں موجود قیادت کوئی اثر نہیں رکھتی اگرچہ کمیٹی کے تین اراکین کے سوا باقی سب کے سب اب کسی نتیجے پر پہنچ کر احتجاج ختم کرنا چاہتے ہیں، البتہ خود خان صاحب کا رویہ کیا ہوگا اس بارے میں کچھ اندازہ حالیہ مشاورت کے بعد ہی ہو سکے گا، ہمارے چند پاکستانی امریکی اور برطانوی شہریوں کے علاوہ ایک آدھ فرانسیسی سے بات چیت ہوئی تو میں حیران رہ گیا کہ بیرون ملک انصافیوں کی اکثریت عمران خان کے سوا پاکستان میں موجود کسی لیڈر کو نہیں مانتی، ایک دوست کے مطابق جو حضرات عمران خان کے پیار میں تحریک انصاف کے فنانسر اور مالدار لوگ ہیں وہ اب ان مذاکرات کی کامیابی چاہتے ہیں کہ اکثر امریکہ اور برطانیہ میں موجود چند رہنماؤں کے رویے سے بہت شاکی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ خان صاحب بھی حالات کی بہتری چاہتے ہیں لیکن یہ حضرات مانتے ہی نہیں ہیں حتیٰ کہ اگر پاکستان میں موجود موجودہ لیڈرشپ نے کوئی سمجھوتہ کرلیا تو پھر تحریک انصاف اوورسیز بننے کو کوئی نہیں روک سکے گا کہ خصوصاً امریکی پاکستانی بہت پرجوش اور منتخب صدر ٹرمپ سے بہت توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔

برطانیہ میں مقیم ایک دانشور کی دانش جو فوج کے کردار سے شروع ہوتی اور اس پر ہی ختم ہو جاتی ہے  ان سے یہ استفسار کیا جائے کہ وہ اس معاملے میں دور تک چلے جاتے ہیں حالانکہ پاکستان کے معروضی حالات ایک مضبوط فوج اور جدید اسلحہ کے تربیت یافتہ جوان چاہتے ہیں اور یہی جدت، بہادری اور بھارت کے مقابلے میں دفاعی ضرورت تو لازم ہے، ایسے میں کیا فوج کو منتشر کر دیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ سیاسی کردار تو فوری اور یکدم ختم ہونا چاہیے، کیا عجب منطق ہے یہ تو خود پیارے عمران خان نہیں چاہتے ان کو تو شکوہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) کو گلے کیوں لگایا، ان حالات میں میری دلی خواہش ہے کہ حالیہ مذاکرات کامیاب ہوں جن کی امید پچاس فیصد بھی نہیں ہے۔ یہ ضرورت ہے کہ ملک میں استحکام ہو اور سیاسی قیادت بھرپور تعاون کے ساتھ دشمن قوتوں کا مقابلہ کرے، خصوصاً افغانستان، طالبان، دہشت گردوں، بھارت اور امریکہ کے حوالے سے ان کے درمیان مکمل یگانگت اور اتفاق رائے ہو جائے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے اس حوالے سے یہ کہنا بھی غیر ضروری یا مخالفت نہیں ہوگی کہ تحریک انصاف والے 9مئی کے شرپسندوں کو اپنے کارکن نہیں مانتے، تاہم جب فوجی عدالتوں سے سزائیں ہوئیں تو ان کی طرف سے بھرپور مذمت کے ساتھ کارکن تسلیم کرلیا گیا اور اب ایک بار پھر ان میں سے 19ملزموں کی سزا معاف ہونے پر تسلیم کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی کی بات بھی تھی تو ان صاحب نے خلاف توقع اور خلاف روایت تحریک انصاف کا ساتھ نبھایا ہے اور ثابت قدم چلے آ رہے ہیں، تحریک انصاف والے ان کے تجربے اور روابط سے مستفید نہیں ہو رہے، میں نے شاہ محمود قریشی کو سب سے پہلے ان کے والد سجاد قریشی کے ساتھ جونیجو دور میں وفاقی وزیر اقبال احمد خان (مرحوم) کے پاس آتے دیکھا، جب میں اور سید فاروق شاہ (مرحوم جنگ والے) ان کے پاس بیٹھے تھے، مخدوم سجاد قریشی نے خان صاحب کو سلام کیا اور روائتی سرائیکی انداز میں بتایا کہ وہ صاحبزادے کو سلام کرانے لائے ہیں جو بیرون ملک سے تعلیم مکمل کرکے واپس آیا ہے اور یوں شاہ محمود کو متعارف کردیا،ہم موجود تھے تو ہمارے ساتھ بھی علیک سلیک ہوئی، پھر تقدیر کے فیصلے ہوئے مخدوم سجاد قریشی پندرہ روز کے بعد پنجاب کے گورنر ہو گئے اور شاہ محمود نوازشریف کابینہ کے صوبائی وزیر خزانہ بنے ہمارا آنا جانا رہا اور جب وہ مسلم لیگ ن کو جھوڑ کر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے رہنما شمار ہوئے تو وابستگی بڑھ گئی کہ میں محترمہ کے جلسے جلوس کی کوریج پر متعین تھا اور شاہ محمود جنوبی پنجاب کے ہر جلسے میں محترمہ سے پہلے مجمع کو گرمانے کے لئے سرائیکی میں تقریر کیا کرتے تھے  وہ پیپلزپارٹی کے بڑے لیڈروں میں شمار ہو گئے تھے اور پھر یہاں بھی نبھاہ نہ کیا کہ دوسری بار وزارت خارجہ نہیں ملی تھی، تب سے انصافیے ہیں اور اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کی یہاں قدر ختم ہو گئی ہے دیکھیں اور کیا ہوتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -