پی ٹی آئی کی کامیاب ہوتی حکمت عملی
ریاست نے19مجرموں کی معافی قبول کر لی اور انہیں فوری رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں نے، ماں ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔آئی ایس پی آ کے مطابق67 مجرموں نے ملٹری کورٹ کے فیصلے کے بعد آرمی چیف کو رحم کی درخواست کی ان مجرموں نے اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے معافی کی درخواستیں دیں، 19کی درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں، جبکہ بقایا48 درخواستوں پر فیصلہ ابھی آنا باقی ہے امید کی جا رہی ہے کہ ان پر بھی ہمدردانہ فیصلہ سامنے آئے گا۔رہائی پانے والوں کا پی ٹی آئی نے خوب استقبال کیا۔ پشاور میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں انہیں ہار پہناء گئے،چائے پانی سے تواضع کی گئی وہاں نعرے بازی بھی کی گئی، عمران خان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بھی کیا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا سواگت کس لئے کیا گیا، عمران خان تو ان سب سے اظہار برائت کر چکے ہیں وہ کہہ چکے ہیں کہ یہ گرفتار شدگان ان کے ورکر نہیں ہیں اگر یہ ورکر نہیں تھے تو اُن کا استقبال کیوں کیا گیا، ویسے جب یہ لوگ فوج کی تحویل میں تھے ان پر مقدمات چل رہے تھے تو پی ٹی آئی کے وکلاء نے ان کی رہائی کی کوئی کوشش نہیں کی،ان کے مقدمات میں پیش نہیں ہوئے، حالانکہ ان ملزمان کو وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کی کھلی اجازت دی گئی تھی،کچھ کے لواحقین نے وکلاء کی خدمات حاصل کر کے ان کے مقدمات لڑے، کچھ بالکل بے وسیلہ تھے انہیں سرکاری وکلاء کی خدمات دی گئیں۔پی ٹی آئی نے کسی کا پیچھا نہیں کیا، انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا تھا۔اب19افراد کی رہائی کے وقت ان سے اظہارِ یکجہتی چہ معنی دارد؟ ان میں سے کچھ افراد نے رہائی کے بعد جس قسم کے رویوں کا مظاہرہ کیا، نعرے بازی کی،اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کا مائنڈ سیٹ کیا ہے یہ لوگ پکے انتشاری اور فسادی ہیں یہ کبھی باز نہیں آئیں گے جب تک ان کا لیڈر موجود ہے، ریاست کے خلاف بولتا ہے، ملک میں انتشار و فساد پھیلاتا ہے ایسے تمام لوگ افتراق و انتشار پر تلے رہیں گے۔ماں کے حُسن ِ سلوک کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ان کو جن جن لوگوں نے پالا، پھر اسے بوتل سے باہر نکالا، اب یہ واپس بوتل میں جانے کے لئے تیار نظر نہیں آ رہے۔ اب وہ غیر ملکی ہینڈلرز کے ہاتھوں میں جا چکے، ان کوبوتل میں بند کرنے کی حکمت عملی بہت زیادہ کامیاب نظر نہیں آ رہی، جس ہمہ گیری سے،جس یکسوئی کے ساتھ اس بت کو تراشا گیا تھا اور اس میں جس جذبے کے ساتھ جان ڈالی گئی تھی اب اسے نیوٹرلائز کرنے اور واپسی بوتل میں بند کرنے میں وہ ذہانت اور یکسوئی نظر نہیں آ رہی۔ عمران خان اپنی حکمت عملی کے مطابق کام کر رہے ہیں ان کی حکمت عملی افتراق و انتشار پھیلانا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کا ہر ورکر اتنا تربیت یافتہ ہو چکا ہے کہ اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ،اس کا ہر ایکشن، اس کی ہر پوسٹ اسی حکمت عملی کی عکاس ہوتی ہے کسی بھی موضوع پر،کسی بھی ایشو پر، پارٹی کی رہنمائی یا پالیسی موجود ہو یا نہ ہو، پی ٹی آئی والے یکسوئی کے کے ساتھ اسی حکمت عملی پر چلتے، پھرتے، لکھتے اور بولتے نظر آئیں گے۔ آپ 26ویں آئینی ترمیم کا معاملہ دیکھ لیں، اس کی منظوری کے وقت پارلیمان کی قائمہ کمیٹی کے دس اجلاس منعقد کئے گئے، 9میں پی ٹی آئی کے نمائندے شریک ہوتے رہے، ترمیم کی تیاری اور اس کے خدوخال کی تیاری میں بھرپور شریک ہوتے رہے پھر جب انہوں نے عمران خان سے ملاقت کی تو آخری اجلاس میں شریک ہونے سے انکاری ہو گئے۔ ترمیم منظور ہو گئی اور اب اسے ایشو بنا کر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
آج کل قومی سیاسی اُفق پر پی ٹی آئی۔ حکومت مذاکرات کا بڑا چرچا ہے اسے بہت بڑا بریک تھرو قرار دیا جا رہا ہے، کچھ تجزیہ کار اسے پی ٹی آئی کے موقف میں مثبت تبدیلی بھی قرار دے رہے ہیں، کچھ سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ پی ٹی آئی ان ”چوروں“ کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے جن کے خلاف زبان درازی اور دست درازی کرتے ہوئے مدت ہو گئی اور عمران خان کی پوری سیاسی حکمت عملی اسی زبان درازی اور دست درازی پر مشتمل ہے عمران خان کا بیانیہ انہی چوروں، لٹیروں کو بے نقاب کرنے، انہیں ذلیل و خوار کرنے اور قومی سیاست سے باہرکرنے کے بلند آہنگ دعوؤں پر مشتمل ہے، پھر انہی کے ساتھ مذاکرات کی میز تک پہنچنے اور بات چیت کرنے کا کیا مطلب ہے۔ مذاکرات کے دو ادوار ہو چکے ہیں ابھی تک ایجنڈہ فائنل نہیں ہوا ہے۔پی ٹی آئی یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ سیاسی استحکام کی چابی، اڈیالہ جیل میں قید، عمران خان کے پاس ہے اور حکومت خاصی دباؤ میں گھری ہوئی ہے۔ شہباز شریف ریموٹ کنٹرول وزیراعظم ہے۔ پی ٹی آئی تو یہ بھی کہہ رہی ہے کہ ریاست بھی دباؤ میں ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے 19 انتشاریوں کو رہا کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ویسے یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے۔حکومت تو ہروقت پی ٹی آئی کی دو نمبر قیادت کی سہولت کاری میں مصروف نظر آ رہی ہے ذرا سی بات ہو تو کہا جاتا ہے کہ عمران خان سے مشورہکرنا ہے، حکومت فوراً اڈیالہ جیل میں ملاقات کا بندوبست کرتی ہے یہ کیا تماشا ہے ایک سزا یافتہ قیدی قومی مجرم کیا اتنا طاقتور ہے کہ ایک منتخب اتحادی حکومت کو ہر وقت دوڑیں لگواتا رہتا ہے۔ ویسے عمران خان اور ان کی پارٹی اس حکومت کو مانتی ہی نہیں،اسے دھاندلی کی پیداوار قرار دیتی ہے۔ شہباز حکومت کی کامیابیاں انہیں شدید ناپسند ہیں، پاکستان میں کسی قسم کا استحکام اور معاشی ترقی عمران خان اور ان کے مریدین کے لئے قابل ِ قبول نہیں ہے وہ برملا کہہ بھی چکے ہیں ”خان نہیں تو پاکستان نہیں“۔وہ اس حوالے سے امریکہ، برطانیہ اور کسی بھی ملک سے ہاتھ ملانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
دوسری طرف ہماری حکومت،ہماری ریاست عمران خان کے ملک دشمن بیانیے کا توڑ کرنے اور عمران خان کی منفی طرزِ سیاست کو عوام کے سامنے لانے اور قوم کو کوئی مثبت بیانیہ فروغ دینے میں قطعاً ناکام نظر آ رہی ہے۔
الیکشن2024ء کے نتائج یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ ترقیاتی سیاست شاید اب کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہ کرسکے۔عمران خان نے اپنے44ماہی دورِ حکومت (2018-22ء) کے دوران پورے ملک میں ایک بھی اینٹ نہیں لگائی۔عوامی فلاح و بہبود کا ایک بھی سنجیدہ منصوبہ مکمل نہیں کیا۔ اس کے باوجود صرف اور صرف اپنی دو تولے کی زبان، یعنی بیانے کے بل بوتے پر ایک کروڑ 88 لاکھ سے زائد ووٹ لے کر اپنی سیاست میں اپنی قطعی برتری ثابت کر دکھائی ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی طویل سیاسی تجربہ رکھنے کے باوجود عمران سیاست کو شکست نہیں دے سکے۔