اسلم کمال کا نقش ِ کمال

اسلم کمال کا نقش ِ کمال
اسلم کمال کا نقش ِ کمال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ویسے تو ادب بھی اسلم کمال کا بہت بڑا حوالہ ہے، مگر جو ناموری اور شہرت اسلم کمال کو اپنے فن ِ مصوری کے سبب پہلے پاکستان، پھر عالمی سطح پر نصیب ہوئی، اس کے بعد اسلم کمال کی شناخت کا اصل حوالہ مصوری ہی قرار  پایا ہے۔پاکستان کے دُنیا بھر میں جو سفارت خانے ہیں، وہاں پاکستان کی مصوری کی منفرد شناخت کے تعارف کے لئے اسلم کمال ہی کے فن پاروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔آپ کی آنکھوں کو روشنی اور روح کو طمانیت بخشنے کے لئے اسلم کمال کی کوئی نہ کوئی شاہکار تصویر دیوار پر  لگی ضرور نظر آئے گی:
رات مجلس میں تری، ہم بھی کھڑے تھے چُپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ


پاکستان کے نامور ادیبوں اور شاعروں کی کوئی نئی کتاب شائع ہونے کا جب بھی مرحلہ آتا ہے تو ان کا پہلا انتخاب اور پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ ان کی کتاب کے لئے سرِ ورق اسلم کمال کی مصوری ہی کا شاہکار ہو۔ اسلم کمال کو خود بھی یاد نہیں  ہو گا کہ وہ اب تک کتنی کتابوں کے لئے سرورق بنا چکے ہیں،لیکن یہ تعداد ہزاروں میں ضرور ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں کتابوں کے سب سے زیادہ ٹائٹل اسلم کمال ہی نے بنائے ہیں۔اسلم کمال چونکہ مصور بھی ہیں اور ماہر خطاط بھی، اِس لئے ان کے بنائے ہوئے کتابوں کے سرورق کے حُسن کو اسلم کمال کی مصوری اور خطاطی کا امتزاج دوبالا کر دیتا ہے۔اسلم کمال کی مصوری کا سب سے اہم حوالہ یہ ہے کہ اُنہیں اقبالؒ کا مصور کہا گیا ہے۔ اقبالؒ کی تصویر کشی کرتے ہوئے اسلم کمال نے اپنے فن کے کمال جوہر دکھائے ہیں۔ فنِ مصوری میں وہ باکمال پہلے بھی تھے، لیکن اقبال کے اشعار کی مصوری کرتے ہوئے اسلم کمال کا   ہنر و فن حقیقت میں کمال تک پہنچا ہُوا  نظر آتا ہے۔ اقبالؒ کے اشعار و افکار کی اور بھی بہت سارے نامور مصوروں نے مصوری کی ہے، لیکن جس تواتر، جس تسلسل اور جس کمالِ فن سے اقبالؒ کے اشعار کو اسلم کمال نے مصور کیا ہے، اس میدان میں اسلم کمال کا اور کوئی ثانی نہیں۔


یہ حُسن اتفاق ہے کہ علامہ اقبال ؒ، فیض احمد فیض اور خود اسلم کمال کا تعلق بھی سیالکوٹ سے ہے۔ قسامِ ازل نے علامہ اقبالؒ اور فیض احمد فیض کو جہاں شاعر کے قلم سے نوازا ہے، وہاں سیالکوٹ کے ہی اسلم کمال کو مصور کا مُوقلم بخشا گیا کہ وہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے عالمگیر شہرت کے حامل اقبال ؒ و فیض کے کلام کو مصور کر کے خود بھی شہرتِ دوام حاصل کرے۔ اسلم کمال کا یہ بے مثال اعزاز ہے کہ فیض احمد فیض جیسے عظیم شاعر نے اسلم کمال کو خود دعوت دی کہ وہ اُن کی شاعری کو مصور کرے۔ فیض احمد فیض نے اپنی کسی ذاتی ضرورت کے لئے شاید ہی کبھی کسی سے کوئی فرمائش کی ہو،لیکن جب فیض احمد فیض نے خود اپنے کلام کی مصوری کے لئے اسلم کمال سے فرمائش کی تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلم کمال کا بطور مصور فیض احمد فیض کی نظر میں مقام و مرتبہ کتنا بلند تھا۔ اسلم کمال نے فیض احمد فیض کے جن اشعار کو مصور کیا ہے،وہ فیض احمد فیض کے کلیات نسخہ ہائے وفا میں آپ دیکھ سکتے ہیں اور اب فیض احمد فیض کے کلام کی مصوری ”نقش ِ کمال“ کے نام سے اسلم کمال نے اپنی ایک الگ کتاب میں بھی محفوظ کر دی ہے۔ یہ کتاب جنوری2020ء میں شائع ہوئی ہے۔ فیض احمد فیض آج زندہ ہوتے تو ”نقش ِ کمال“ دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔فیض کو اسلم کمال سے محبت بھی بہت تھی۔”نقش ِ کمال“ دیکھ کر یقینی طور پر فیض کے دِل میں اسلم کمال کے لئے محبت اور قدر دانی کا جذبہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ فیض ہی کا ایک شعر ہے:


وہ تو وہ ہے، تمہیں ہو جائے گی اُلفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو
اسلم کمال کی کلامِ فیض کے حوالے سے ہر تصویر میں اتنی زیبائی اور اتنی گہرائی ہے کہ اسلم کمال کے یہ نقوشِ کمال دیکھ کر فیض احمد فیض کا کلام ہمیں اور بھی دِل آویز محسوس ہونے لگتا ہے۔ فیض احمد فیض کی نظمیں ”تنہائی“ اور ”مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ“ یقینا آپ نے پڑھی ہوں گی، ان نظموں کی اسلم کمال نے اس کمال سے تصویر کشی کی ہے کہ ان تصاویر کو دیکھ کر  ہمیں پوری طرح ادراک ہو جاتا ہے کہ فیض احمد فیض نے کہا کیا ہے؟ اسلم کمال نے اپنی تصاویر میں فیض احمد فیض کے کلام کی سفارت کا پوری طرح حق ادا کیا ہے۔اقبالؒ نے  کہا تھا کہ:


رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہئ فن کی ہے، خونِ جگر سے نمود
کلامِ فیض کے حوالے سے اسلم کمال کی مصوری کو مجھے معجزہئ فن کہنے کی اجازت دیجئے، کیونکہ اسلم کمال کی ہر تصویر میں مصور کے خونِ جگر  کا ظہور محسوس ہوتا ہے۔فیض کا ایک شعر ہے:
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِرہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزمِ یار چلے گئے


فیض کا کردار کہہ لیں یا لباس کہہ لیں، اُس پر کوئی داغ نہیں تھا۔ اسلم کمال نے جب فیض کی درج بالا شعر کی مصوری کی تو اس شعر کو اپنی تصویر میں بڑے منفرد انداز میں پیش کیا۔فیض کے لباس پر اُن کی کتابوں کے نام لکھ دیئے گئے ہیں اور مصور کے خیال میں یہی وہ ”داغ“ تھے جو فیض احمد فیض اپنے دامن پر سجا کر سرِ بزم یار چلے گئے تھے۔ عکس ِ رخ یار ہو یا لیلائے وطن۔ فیض دونوں کے عشق میں سرخرو رہے:
اِس عشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دِل
ہر داغ ہے اس دِل میں بجز داغِ ندامت
فیض احمد فیض کے عروسِ سخن کو جس انداز سے اسلم کمال نے اپنے فن کی صورت میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، مَیں اُن کی خدمت میں اپنی طرف سے سلامِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔

مزید :

رائے -کالم -