’’وزارِت ڈیم‘‘ بنانے کی تجویز

’’وزارِت ڈیم‘‘ بنانے کی تجویز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان ویسے تو ایک خوش قسمت مُلک ہے کہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے پانی کے بہترین ذخائر مہیا کئے ہیں۔بہتے ہوئے پانی کے علاوہ منجمد کیا ہوا پانی بھی بہت بڑی مقدار میں گلیشیرز کی شکل میں موجود ہے،لیکن بین الاقوامی موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے دونوں قسم کے ذخائر کو اگر بروقت سنبھالنے کے لئے ڈیم نہ بنائے گئے تو پھر مستقبل میں پاکستان واقعی پانی کے زبردست بحران کا شکار ہو سکتا ہے،جس کے نتیجے میں شدید مالی اور معاشی بحران سر اُٹھا سکتا ہے۔ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہمارے ستر فیصد سے زیادہ کاشتکار ہیں،جو پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پانی کی مینجمنٹ کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور پورے مُلک میں پانی کے چھوٹے بڑے ذخائر کا جال پھیلایا جائے۔اِن خیالات کا اظہار سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی طرف سے ہونے والی راؤنڈ ٹیبل ویڈیو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر ان کے ساتھ چیف گیسٹ، واپڈا چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل(ر) مزمل حسین نے بہت زبردست باتیں کیں، تقریب کا انتظام فیڈریشن نے کیا تھا اور اِس مقصد کے لئے ہیڈ کوارٹر کراچی، زونل آفس پنجاب لاہور میں اور کیپٹل آفس اسلام آباد میں پانی کے حوالے سے گفتگو کرنے والی معروف شخصیات موجود تھیں۔فیڈریشن کے صدر غضنفر بلور نے ابتدائی کلمات ادا کئے اور موضوع کے علاوہ شرکا کا تعارف کرایا اور پانی کے مسئلے کا اجمالی خاکہ پیش کیا۔ نائب صدر فیڈریشن طارق حلیم نے پانی کے مسئلے پر بیان پیش کیا۔لاہور زونل آفس میں فیڈریشن کے سابق صدر افتخار علی ملک نے پانی کے مسئلے کی سنگینی کا احساس دِلاتے ہوئے بتایا کہ ہماری معیشت کا دارومدار پانی کے ذخائر پر ہے۔اِس لئے ہمیں چاہئے کہ اِس مسئلے کی سنگینی کو سنجیدگی سے لیں۔اگر پاؤں کے نیچے پانی نہ رہا تو ہم تو یہ محاورہ بھی استعمال کرنے کے قابل نہیں رہیں گے کہ پانی سر سے گزر چکا ہے، اِس لئے پانی محفوظ کرنے اور آئندہ نسلوں کو مسائل سے بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کر کے نئے چھوٹے بڑے ڈیم جلد از جلد تعمیر کئے جائیں اور اِس مقصد کے لئے اگر وزارتِ ڈیم بھی بنا دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔


کراچی ہیڈ آفس میںیونائیٹڈ بزنس گروپ کے سرپرست اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق سربراہ ایس ایم منیر نے بھی اِس بات پر زور دیا کہ نئے ڈیمز اور آبی وسائل کی حفاظت کے لئے خصوصی انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں پانی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ پانی استعمال ہوئے بغیر ہی ضائع ہو جاتا ہے۔اگر پاکستان اور انڈیا کا باہمی موازنہ کیا جائے تو انڈیا میں ضائع ہونے والے پانی کی شرح نسبتاً کم ہے۔فیڈریشن کے سابق صدر زبیر طفیل نے پانی کو پاکستان کے لئے زندگی موت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیڈریشن اس مسئلے پر جو کمیٹی بنانے جا رہی ہے،میری تجویز ہے کہ اس کا چیئرمین ایس ایم منیر کو بنا دیا جائے،جس پر ویڈیو لنکس پر تینوں شہروں میں موجود شرکاء نے تالیاں بجا کر تائید کی۔واپڈا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل(ر) مزمل حسین نے اگرچہ ایک دوسری اہم میٹنگ میں بھی جانا تھا،لیکن پھر بھی انہوں نے ٹیکنیکل سیشن سے پہلے ہونے والے سیشن کو کافی وقت دیا اور کہا کہ پاکستان کے لئے پانی ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

پانی کی صورتِ حال بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے، پہلے آبادی کم تھی،اِس لئے کبھی پانی کی کمی کا احساس نہیں ہوا، اب بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے پانی کی گڈ گورننس بہت ضروری ہے۔افتخار علی ملک نے صحیح کہا ہے کہ پاکستان ان پندرہ ممالک میں شامل ہے، جہاں پانی کی کمی کا مسئلہ ہے۔پاکستان کے لئے پانی کا قطرہ قطرہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اربوں کا پانی ضائع ہو جاتا ہے،اسی فیصد پانی سو دن کے لئے دستیاب ہوتا ہے، مصر میں تین سال کی فصلوں کے لئے پانی محفوظ رکھا جا رہا ہے،جبکہ ہمارے ہاں ایسا کوئی ٹھوس انتظام نہیں ہے، اِس وقت پانی محفوظ رکھنے کے لئے بڑے بڑے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے،کالا باغ ڈیم سمیت درجن بھر سے زیادہ ڈیم تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔


دوسرا سیشن ٹیکنیکل تھا جس کا آغاز مرزا اختیار بیگ نے کیا،دوسرے ماہرین میں وسیم وہرہ، میر مظہر تالپور،غلام مرتضیٰ، ڈاکٹر معظم علی خان،وقار الدین صدیقی، شفقت کاکا خیل،سید ایوب قطب، میر رفیق،ڈاکٹر ایس عمران احمد، طاہر عمران قریشی نے پانی کے مسئلے پر سیر حاصل بحث کی اور اپنی اپنی تجاویز پیش کیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ واٹر کنٹرول ہم کھو چکے ہیں، ہمیں نئے درخت لگانے کی ضرورت تو ضرور ہے،لیکن ایسے درخت لگانے کی ضرورت ہے جو بہت کم پانی پیتے ہوں‘‘۔ماضی میں ایسے درخت لگائے گئے جو بے تحاشا پانی پیتے تھے۔پاکستانی سائنس دانوں پر اعتماد کریں، اُنہیں موقع دیں، وہ پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں حکومت کی پوری مدد کریں گے۔موسمی تبدیلیوں سے بروقت باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ مسائل کا سامنا کرنا سیکھیں، کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جسے پاکستانی سائنس دان حل نہ کر سکیں، تھر کے صحراؤں سے لے کر کراچی شہر تک کو آسانی سے پینے کا پانی اور کھیتی باڑی کے لئے وافر پانی دستیاب ہو سکتا ہے، بس ذرا سی صحیح پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں پانی کے مختلف شعبوں کے ماہرین موجود ہیں، بس ان کی ذہانت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

مزید :

رائے -کالم -