ڈونلڈ ٹرمپ کا عالمی تجارت پر خود کش حملہ

     ڈونلڈ ٹرمپ کا عالمی تجارت پر خود کش حملہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈونلڈ ٹرمپ ایک غیر روایتی سیاسی لیڈر ہیں وہ ایسا ثابت بھی کر چکے ہیں امریکہ کی ڈیڑھ پونے دو سو سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک امریکی صدر دوسری ٹرم کا انتخاب ہار جائے، ٹرمپ کے ساتھ ایسا ہوا۔پھر یہ بھی ایک تاریخ ہے کہ کسی امریکی صدر نے دوسری ٹرم میں ہار جانے کے بعد تیسری مرتبہ الیکشن لڑ کر کم بیک کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کر دکھایا، وہ تیسری دفعہ الیکشن لڑ کر دوسری مرتبہ منتخب ہو چکے ہیں۔وہ اس سے پہلے بھی عمومی و جاری ٹرینڈز کے خلاف اپنا بیانیہ بنا کر،بالکل منفرد اور مشکل بیانیہ بنا کر الیکشن جیتے ہیں۔امریکی سوسائٹی میں، امریکی معاشرے میں نسل پرستی پائی جاتی ہے، رنگ کی بنیاد پر امریکی معاشرے میں تضادات ہیں ان تضادات کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے اس کی وجوہات بھی ہیں۔امریکہ ریڈ انڈینز کی سرزمین تھی، گوروں نے ان کی سرزمین پر قبضہ کیا انہیں غلام بنایا،اپنی حکمرانی قائم کی پھر یہ حکمرانی عالمی سطح پر چھا گئی۔امریکہ عالمی طاقت بن گیا،لیکن اسے عالمی قوت گوروں نے نہیں بنایا بلکہ پوری دنیا سے سمٹ کر آنے والی ذہانت و محنت نے امریکہ کو سپر پاور بنایا یہ امریکی آئین کی طاقت ہے کہ یہاں رنگ و نسل اور مذہب وغیرہ جیسے تعصبات سے بالاتر ہو کر حکومت اپنے شہریوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرتی ہے اپنے شہریوں کو، یہاں آنے والے کو کام کرنے، آگے بڑھنے کے برابر مواقع مہیا کرتی ہے، یہاں پوری دنیا سے کوئی بھی فرد آ کر اپنی قسمت بنا سکتا ہے اِسی امکان کے تحت پوری دنیا سے ذہنی و محنت کش افراد چھن چھن کر امریکہ آتے رہے اور اس کی تعمیر و ترقی کا باعث بنتے رہے۔ چار جولائی1776ء میں 13ریاستوں پر مشتمل یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ قائم ہوئی اور پھر250 سالوں میں یہ عالمی قیادت کے منصب جلیلہ پر فائز ہو گئی۔دوسری جنگ عظیم میں یہ بات طے ہو گئی تھی کہ برطانیہ اب عالمی طاقت نہیں رہا۔امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم گرا کر جنگ کو فیصلہ کن بنایا اور پھر آنے والے45سالوں کے دوران امریکہ و سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ جاری رہی۔امریکہ نے جمہوری اور سرمایہ دارانہ نظام کی حامل دنیا کی قیادت کی  اور اشتراکیت کو شکست دی۔90ء کی دہائی میں سوویت یونین 15 ٹکڑوں میں تحلیل ہو گیا، دو طاقتی عالمی نظام الٹ پلٹ  گیا۔امریکہ عالمی فاتح کے طور پر ابھرا، لیکن نائن الیون نے اسے افغانستان میں 20سال تک الجھا دیا۔اِس دوران چین عالمی تجارت پر چھا گیا۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے چین دنیا کے تین براعظموں تک جا پہنچا، چینی مصنوعات دنیا  کے کونے کونے تک پہنچ رہی ہیں۔ چینی قومی پیداوار بڑھتی جا رہی ہے گزرے سال میں چین کی مجموعی قومی پیداوار19.53 ٹریلین ڈالر تھی جبکہ امریکہ کی30.34 ٹریلین ڈالر تھی۔ چین ہر لمحہ اِس فرق کو کم کرتا چلا جا رہا ہے اور اب وہ وقت دور نہیں ہے جب یہ فرق نہ صرف ختم ہو جائے گا، بلکہ چین، امریکی برتری کا خاتمہ کر چکا ہو گا۔امریکہ نے اپنے آپ کو عالمی چودھری رکھنے کے لئے دنیا کو جنگوں میں دھکیلا،علاقائی تنازعات کو ہوا دی تاکہ اس کا اسلحہ بکتا رہے اور اس کی معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔ چین نے اس کے برعکس دنیا میں ایک وکھری ٹائپ کا ماڈل پیش کیا، اس کا ماڈل بھی اپنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرنے کی ذمہ داری بھی چین نے خود اٹھا رکھی ہے چین کا یہ ماڈل تعمیر اور ترقی پر مشتمل ہے اور یہ تیزی سے قبولیت عام حاصل کر رہا ہے۔چین کی مجموعی برآمدت کا حجم2025ء میں 5980 ارب ڈالر رہا اس میں 50فیصد برآمدات بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے جڑے ممالک کو کی گئیں۔ چین ایک معاشی دیو کے طور پر اُبھر چکا ہے عالمی تجارت پراس کی برتری قائم ہو چکی ہے۔گزرے سال میں چین نے تجارت میں 9921 ارب ڈالر سرپلس کمایا تھا اس کی بین الاقوامی تجارت اس کے حق میں رہی جبکہ امریکہ نے اِسی عرصے کے دوران3005ارب ڈالر کی اشیاء و خدمات برآمد کیں گویا چین کی برآمدات سے نصف۔ چین یہ فرق بڑھاتا چلا جا رہا ہے چین نے نہ صرف اپنی پیداواری صلاحیت بڑھائی ہے بلکہ معیاری اور قیمتی اشیاء کے پیداواری حجم میں بڑی منصوبہ کے ساتھ اضافہ کیا ہے، جس کے باعث اس کی برآمدی آمدنی مسلسل بڑھتی چل جا رہی ہے۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت تین براعظموں بشمول ایشیاء، یورپ اور افریقہ میں انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی پر سرمایہ کاری کی۔ سڑکیں، ریلویز اور بندرگاہیں تعمیر کیں۔ صنعتی زونز قائم کئے پھر پیداواری سہولیات پر سرمایہ کاری کر کے کمائی شروع کی۔ یہ ایسا ماڈل ہے، جس میں فریقین فائدہ اٹھاتے ہیں چین اپنے ساتھ جڑنے والی اقوام کو معاشی طور پر اٹھاتا اور ترقی کا حصہ بناتا ہے، جبکہ سرمایہ دارانہ نظام گزری ایک صدی کے دوران اپنے برگ و بار دنیا پر آشکار کر چکا ہے اس کا نتیجہ جنگیں، قحط، غربت اور بدحالی کی شکل میں سامنے آ چکا ہے عالمی نظام حکمرانی دنیا کے لئے عذاب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ عالمی نظام تجارت اور عالمی نظام زر مخصوص اقوام کے فائدے کے لئے کام کرتا رہتا ہے عالمی سرمایہ دار اقوام متحدہ،عالمی بنک، آئی ایم ایف،لنڈن کلب، پیرس کلب اور ایسے ہی اداروں کے قیام کے ذریعے چھوٹی اور غریب اقوام کو محکوم بنانے،انہیں قرض کے پھندے میں پھنسا کر اپنی بات منوانے اور اپنا حلیف بننے پر مجبور کرنے کا کام لیتے رہے ہیں۔گزرے سو سالوں کے دوران سائنس اور ٹیکنالوجی نے حیرت انگیز ترقی کی ہے، لیکن چھوٹی اور غریب اقوام کو ان کے ثمرات حاصل نہیں ہو سکے ہیں دنیا کی کثیر آبادی اب بھی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہے، غربت کا شکار ہے، ایجادات کے ذریعے امیر اقوام اپنا معیارِ زندگی بہتر سے بہتر بنا رہی ہیں۔ امراء اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں جبکہ خلقِ خدا کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے چین نے اپنا ہی ایک عالمی نظام ترتیب دینے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے چین اپنے ساتھ جڑنے والی اقوام کی فلاح و بہبود اور معاشی ترقی کا بندوبست بھی کرتا ہے۔ عالمی تجارت پر چھا رہا ہے عالمی زر کی منڈی میں بھی اس کے اثرات محسوس کئے جانے لگے ہیں چین ڈالر کی بجائے لوکل کرنسی میں تجارت کی حوصلہ افزائی بھی کرنے لگا ہے، کئی ممالک میں اس نے اپنے کمرشل بنک قائم کرنا شروع کر دیئے ہیں اور اسی ملک کی کرنسی  میں لین دین کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کر دی ہے، گلوبل سٹاک مارکیٹ  میں بھی چین کے اثرات محسوس کئے جا رہے ہیں۔

ایسی صورتحال میں امریکہ کا سو ممالک سے امریکہ کی طرف سے برآمدات پر اضافی ٹیکسوں کا نفاذ ناقابل ِ فہم ان ممالک کی برآمدات یعنی امریکہ میں امپورٹس پر ٹیکس لگانے کا مطلب ہے کہ ان ممالک کی اشیاء امریکہ میں مہنگی ہوں گی مثلاً پاکستان پر29 فیصد ٹیرف کا مطلب ہے کہ پاکستان جو چیز امریکہ برآمد کرے گا وہ جونہی امریکہ پہنچے گی اس پر10فیصد فلیٹ ٹیکس29+ فیصد اضافی ٹیرف لاگو ہو جائے گا۔ پاکستانی برآمد کننگان کو39فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔100ممالک کی برآمدات،امریکہ میں مہنگی ہو جائیں گی۔امریکی اشیاء سستی ہوں گی اس طرح امریکہ عالمی تجارت میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے دیکھتے ہیں نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -