نئی نسل کے سوال، پرانی نسل لاجواب

    نئی نسل کے سوال، پرانی نسل لاجواب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب سوال اتنا سخت ہو تو جواب دیتے ہوئے پسینہ تو آ ہی جاتا ہے۔ نوجوانوں کی بیٹھک تھی اور انہوں نے مجھے یہ کہہ کر بلایا تھا آپ کے ساتھ عید ملن پارٹی کرنی ہے، وقت دیں، میں کہ جس کی ساری زندگی ایک استاد کی حیثیت سے نوجوانوں کے درمیان گزری ہے، ایسی محفلوں کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں، سو حامی بھری اور وقت مقررہ پر چلا گیا۔ یہی کوئی پندرہ نوجوان ہوں گے تعارف ہوا تو پتہ چلا ان میں کئی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سکالر بھی ہیں، خوشی ہوئی۔ میرا خیال تھا شاعری کا دور چلے گا، نوجوان اپنی نظمیں، غزلیں سنائیں گے اور بعد ازاں مجھے بھی موقع مل جائے گا، مگر نہیں وہاں تو کچھ جاننے، کچھ سیکھنے اور کچھ کہنے کی طلب تھی۔ آج کے تناظر میں نئی نسل کو مطمئن کرنا بہت مشکل کام ہے۔ایک تیز رفتار انفرمیشن ٹیکنالوجی سے جڑی نسل اور دنیا میں رونما ہوئے واقعات کی پلک جھپکتے  میں اس تک رسائی ایسے حقائق ہیں جنہیں پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ ہماری نسل کے لوگ ہوں یا حکومتوں میں بیٹھے پالیسی اور فیصلہ ساز، وہ ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر سکے کہ جس نسل کا ہمیں آج سامنا ہے وہ اس دور کی نسل نہیں جس میں لوگوں کو وہی کچھ معلوم ہوتا تھا، جو ریاست اپنے میڈیا کے ذریعے دکھاتی تھی۔ اس سے آگے اندھیرا ہوتا تھا۔آج ہر بات کا تین منٹ میں پوسٹ مارٹم ہو جاتا ہے جو لوگ یعنی ارباب اختیار سمجھتے ہیں وہ پروپیگنڈے کے زور پر ذہن سازی کر سکتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ طوفان کی ایک لہر اگر ادھر سے آتی ہے تو دوسری اس سے زیادہ شدت کے ساتھ دوسری جانب سے ٹھاٹھیں مارتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بات بن نہیں رہی اور بیانیہ بنانے کی ہر کوشش رائیگاں جا رہی ہے۔ میں اس بات کو سامنے رکھ کر نوجوانوں کی بیٹھک میں گیا تھا۔ میری کوئی بقراطی کارگر نہیں ہو سکتی تھی جب تک اس میں حالات کے مطابق دلیل نہ ہو، سچائی نہ پائی جائے۔ بہت سے سوال و جواب ہوئے۔ ایک بات میں نے بغور نوٹ کی کہ ہماری نوجوان نسل اپنے ملک سے لاتعلق نہیں بلکہ بہت سے معاملات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس نے نئی نسل کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس محفل میں دو ایسے نوجوان بھی بیٹھے تھے، جن کا تعلق بلوچستان سے تھا اور دونوں بلوچ قبیلے سے تعلق بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا ہم پنجاب میں پڑھ رہے ہیں اور اس وقت ہمیں شدید دکھ پہنچتا ہے جب یہ خبریں آتی ہیں کہ کوئٹہ یا کسی دوسرے شہر میں پنجابیوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ ہم بلوچوں کا عمل نہیں۔ میں نے کہا یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ آپ اسے بُرا سمجھتے ہیں، تاہم بلوچستان میں ایک عام بلوچ کو اس تاثر سے علیحدہ کرنا ہوگا جو شرپسند دہشت گرد ایسی وارداتوں سے پھیلا رہے ہیں کہ بلوچستان میں پنجابیوں کے لئے نفرت پیداہو چکی ہے۔ اس پر دوسرے بلوچ نوجوان نے کہا اس سلسلے میں ریاستی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ بلوچستان کی یوتھ سے مکالمہ ضروری ہے۔ اسے قومی دھارے میں لانے کے لئے ان کی رائے کو وہاں اہمیت دی جانی چاہیے۔ بے روزگاری وہاں کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ مختلف صوبوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان جب واپس بلوچستان پہنچتے ہیں تو ان کے لئے نوکریاں موجود نہیں ہوتیں۔

یہ باتیں ابھی ہو رہی تھیں کہ ایک نوجوان نے وہ سوال کیا جس نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ میں سوچنے لگا جن باتوں پر ہم بزرگ نسل کے لوگ غور نہیں کر رہے وہ آج کی نئی نسل کے ذہنوں میں کس کس طرح سے کچوکے لگا رہے ہیں، کلبلا رہے ہیں اس نے پوچھا تھا سر ہم کسی کو فرعون کہہ دیں تو وہ ہمیں قتل کرنے تک آ جاتا ہے، مگر دوسری طرف ہم میں سے ہر ایک کے اندر ایک فرعون چھپا بیٹھا ہے جو بدلہ لینے یا حق مارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ کیا یہ ہمارا سب سے بڑا تضاد نہیں ہے۔  پھراس نے ایک واقعہ سنایا۔ اس کے محلے میں ایک غریب عورت نے اپنی گھر کی بیٹھک میں کھانے پینے کا ایک سٹال بنایا ہوا تھا۔ جہاں وہ گھر کی پکی ہوئی روٹیاں اور دال یا گوشت کا سالن بیچتی، لوگ لے جاتے اور اس کے گھر کا خرچ چلتا۔ شوہر کی ایک حادثے میں وفات کے بعد اس نے یہ کام شروع کیا تھا۔اس سے پہلے اسی محلے میں ایک نسبتاً بڑا ہوٹل تھا، جہاں بیٹھنے کی جگہ بھی تھی اور لوگ کھانا پیک کراکے بھی لے جاتے۔ قیمتوں میں فرق کی وجہ سے جب اس بیوہ عورت کا کام چل نکلا تو اس ہوٹل کے مالک کو تکلیف ہونا شروع ہوئی۔ وہ حیلے بہانوں سے بیوہ عورت کو تنگ کرنے لگا۔ نوجوان نے بتایا ایک دن میں نے دیکھا وہاں محکمہ خوراک کی ٹیم آئی ہوئی ہے اور بیوہ عورت کے سالن کو چیک کررہی ہے۔ پھر اس ٹیم نے سالن ناقص قرار دے کر ضبط کیا اور دس ہزار جرمانہ بھی کر دیا۔ اس کے پاس دس ہزار روپے نہیں تھے جس کی وجہ سے اس کی بیٹھک میں قائم ہوٹل کو سیل کر دیا گیا، کچھ دن بعد پتہ چلا وہ محلہ چھوڑ کے کہیں چلی گئی ہے۔ اب وہ ہوٹل والا بڑا خوش ہے اور اس کا کام پہلے کی طرح چل رہا ہے۔ اس پر اس نے سوال کیا، کیا یہ فرعونیت نہیں ہے۔ کیا اس فرعونیت کی سپورٹ ایک حکومتی محکمے نے بھی نہیں کی، ایک اور نوجوان بیچ میں بول پڑا، سر! اگر آپ اعدادوشمار نکالیں تو اندازہ ہوگا فرعون تو ہمارے معاشرے کا ایک مقبول ترین کردار ہے۔ تاریخ میں تو ایک فرعون کا ذکر آتا ہے ہمارے ہاں تو ایک نسل پروان چڑھ چکی ہے، کوئی چھوٹا ہے کوئی بڑا ہے۔

میں نے نوجوانوں کی باتوں پر غور کیا تو مجھے اشفاق احمد کی ایک بات یاد آئی۔ انہوں نے اپنے پروگرام زاویہ میں ایک بار کہا تھا ہم جس قسم کی مثالیں چھوڑیں گے ہماری اگلی نسل اس قسم کی تیار ہوگی۔ اب یہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے ہم نے فرعون کی نسل بنانی ہے یا انسان کی پیدا کرنی ہے۔ میں یہ بھی سوچنے لگا ابھی تو یہ نوجوان نسل یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ ہم سب فرعون کے لقب کو گالی سمجھتے ہیں، لیکن ہمارے اندر ایک فرعون کیوں چھپا ہوا ہے،یعنی وہ اس دوعملی کو بُرا سمجھتے ہیں، لیکن اگر ہم نے اسی رفتار سے اپنے مزاجوں کو فرعونیت میں ڈھالنے کا سلسلہ جاری رکھا تو پھر یہ نسل بھول جائے گی کہ انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ انسان کی عظمت حلیمی، نرمی، تحمل اور برداشت میں ہے۔ دوسروں کے حق کو تسلیم کرنا ایک ایسا وصف ہے جو ہمیں اسلام بھی سکھاتا ہے اور ہمارا آئین بھی۔ آج برداشت کا عنصر معاشرے سے ناپید ہوتا جا رہا ہے۔  ذرا ذرا سی بات پر قتل ہو جاتے ہیں دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہر حد تک جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اس طرح تو معاشرہ نہیں بنتا، اس طرح تو زندگی نہیں گزرتی۔ قانون اپنی جگہ ہے، اس سے پہلے انسانیت ہے۔ ہمارا آئیڈیل حضور اکرمؐ کی ذات اقدس کو ہونا چاہیے، جنہوں نے دشمنوں کو بھی دعا دی، ان کے امتی ہو کر ہم فرعون کس خوشی میں بن جاتے ہیں؟ اس پر بھی گریبان میں کبھی جھانک لیں تو کیا ہی اچھا ہو۔

مزید :

رائے -کالم -