مستونگ میں خودکش حملہ توآپ کو یاد ہوگا لیکن وہ کونسے 2 انتہائی سادہ سوالات تھے جن کا جواب ملتے ہی قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے فوری بمبار کو شناخت کرلیا؟ تفصیلات منظرعام پر
مستونگ (ویب ڈیسک)بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 13 جولائی کو خودکش حملے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سراج رئیسانی سمیت 150 سے زائد افراد ہلاک اور 200 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔حملہ آورحفیظ اس جلسے میں چوتھی قطار میں بیٹھا ہوا تھا اور جس وقت نوابزادہ سراج رئیسانی خطاب کے لیے آئے تو اس نے سٹیج کے پاس آ کر اپنے آپ کو اڑا دیا تھا۔قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حملے کے چند دن کے اندر ہی حملہ آور کو شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
بی بی سی کے مطابق 17 جولائی کی رات پولیس سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے شہر دھابیجی کے محلے غریب آباد کا گھیراؤ کرتی ہے۔ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ دروازہ کھولنے والے شخص کی عمر 60 برس کے لگ بھگ ہے۔ اس سے پہلا سوال ہوتا ہے، حفیظ نواز کون ہے؟وہ بتاتا ہے کہ اس کا بیٹا ہے۔ دوسرا سوال ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہے؟ وہ بلاجھجھک کہتا ہے کہ افغانستان جہاد کے لیے گیا ہے۔اور ان دو سادہ سوالوں کی مدد سے سندھ پولیس کے کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کو مستونگ میں انتخابی مہم کے دوران خودکش حملہ کرنے والے حفیظ نواز کی شناخت کرنے میں کامیابی مل جاتی ہے۔پولیس کو یہ تفصیلات بتانے والے حفیظ کے والد محمد نواز تھے۔
ایس ایس پی سی ٹی ڈی پرویز چانڈیو نے بی بی سی کو بتایا کہ مستونگ دھماکے کے بعد وہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کوئٹہ اعتزاز گورایہ سے رابطے میں تھے، جنھوں نے انہیں بتایا کہ نامعلوم لاشوں کے فنگر پرنٹ سے ایک نوجوان کی شناخت سندھ کے ضلعہ ٹھٹہ سے ہوئی ہے۔انھوں نے اس لڑکے کی تفصیلات طلب کیں اور تفتیش کے لیے جب دھابیجی پہنچے تو حفیظ کے والد نے تصدیق کی کہ وہ افغانستان منتقل ہوچکا ہے۔'جب اس کے والد کو اس نوجوان کی تصویر دکھائی گئی تو اس نے تصدیق کی کہ یہ اسی کا بیٹا ہے۔'محمد نواز کا تعلق ایبٹ آباد شہر کے محلے مولیا سے ہے مگر وہ تقریباً 30 سال قبل دھابیجی منتقل ہوگئے تھے، جہاں وہ دودھ فروخت کرتے ہیں۔حفیظ کے علاوہ ان کے دیگر بچوں کی پیدائش بھی یہاں ہی ہوئی۔