سب سے بڑا کھیل میلہ…… مگر انعام؟
بچپن میں بڑے کہتے تھے ”پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب …… کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب“ مگر جدید دنیا نے بڑوں کی یہ باتیں غلط ثابت کر دیں۔ آج اگر آپ نے پیسہ کمانا ہے تو آپ ایک کامیاب کھلاڑی بن جائیں اور پھر پیسوں کی برسات دیکھیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی آج کروڑوں میں کھیلتے ہیں، بلکہ کئی کی آمدن تو اربوں میں چلی گئی ہے، کیونکہ بہت سارا پیسہ جو یہ پاکستان سے باہر وصول کرتے ہیں وہ ان کے اثاثوں میں دکھایا نہیں جاتا۔ مشہور کرکٹر گولڈن آرم بولر مدثر نذر کے والد اور پاکستانی ٹیم کے پہلے اوپنر نذر محمد نے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ جو پیسہ آج اِن کرکٹرز کو ملتا ہے ہمیں ملتا تو ہمیں کوئی آؤٹ کر کے تو دکھاتا۔
یہ نہیں کہ صرف کرکٹ میں پیسہ ملتا ہے، فٹ بال کی دنیا میں لیونل میسی اور کرسٹیانو رونالڈو ارب پتی ہیں اور وہ بھی ڈالروں میں۔ ٹینس کو دیکھیں تو انعام کی رقم سن کے ایک دفعہ تو دِل سے آہ نکل جاتی ہے کہ کاش ہم بھی ٹینس ہی کھیل لیتے۔ ساری عمر ضائع کر دی صحافی بن کر کیا ملا، کیا فائدہ ہوا؟ گزشتہ ماہ جب پیرس اولمپک میلہ شروع ہوا تو 100سال کے وقفے کے بعد پیرس میں ہونے والے اِس میلے کے حوالے سے بہت ساری غلط فہمیاں تھیں،جو چند دن میں دور ہو گئیں۔ یہی سوچا تھا کہ پتہ نہیں اِن کھلاڑیوں کو ”کتنے اربوں“ بانٹے جائیں گے، لیکن اب ذرائع ابلاغ بتا رہے ہیں کہ کھلاڑیوں کو صرف میڈل ملے گا۔ جی سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے کے ساتھ کوئی ”کیش“ نہیں ملے گا، البتہ ایک ڈبہ ملے گا،جس کے اندر 2024ء اولمپک کا پوسٹر ہے اور بعدازاں 2024ء اولمپک کا خوبصورت مسکوٹ بھی ملے گا۔ یہ ہے وہ ”ٹوٹل انعام“ جس کے لئے اِس وقت 206 ممالک کے 10500 کھلاڑی دن رات ”محنت نہیں جنگ“ کر رہے ہیں، لیکن ”انعام“ ہیں اور وہ انعام سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے جیت کر وطن واپس پہنچنے پر ان کھلاڑیوں کو اپنے ملک کو یہ عزت دلوانے پر ”بڑی بڑی رقوم“ کی شکل میں ملیں گے۔ سب سے بڑی رقم ہانگ کانگ حکومت اپنے کھلاڑیوں کو دے گی۔ سونے کا تمغہ جیتنے والے کو سات لاکھ 68 ہزار ڈالر، یعنی 21 کروڑ روپے کا ”پرس“ ملے گا۔ چاندی کا تمغہ جیتنے والوں کو 3 لاکھ 84 ہزار ڈالر اور کانسی کا تمغہ جیتنے والے کو ایک لاکھ 92 ہزار ڈالر ملیں گے۔
آپ سوچیں گے ہانگ کانگ تو بہت امیر ملک ہے لیکن یاد رہے یہ اب چین کا حصہ ہے۔ سنگاپور ایک خوبصورت ملک، ایک چھوٹا سا جزیرہ، لیکن ایک ترقی یافتہ ملک جو اپنے سونے کا تمغہ جیتنے والے کھلاڑیوں کو 20 کروڑ روپے کا انعام دے گا۔ چلیں اب کچھ مسلمان ممالک کی بات بھی ہو جائے۔ انڈونیشیا جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے، وہ سونے کے تمغے والے کھلاڑیوں کو تین لاکھ ڈالر، یعنی آٹھ کروڑ 36 لاکھ روپے دے گا۔ قازقستان وسطی ایشیائی مسلمان ریاست ہے، وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں، وہاں سونے کا تمغہ جیتنے والے کو ڈھائی لاکھ ڈالر، یعنی چھ کروڑ 97 لاکھ روپے ملیں گے۔ ملائیشیا ایک اور مسلمان ملک جو اپنے سونے کا تمغہ جیتنے والے کھلاڑی کو چھ کروڑ روپیہ دے گا۔
اب ذرا یورپین ملکوں کا رخ کر لیا جائے تو آپ کو حیرانی ہو گی کہ رقم ”یکدم نیچے“ گر جائے گی۔ سپین سونے کے تمغے پر ایک لاکھ ڈالر دے گا جو کہ پاکستانی دو کروڑ 84 لاکھ روپے بنتے ہیں۔ فرانس جو کہ میزبان ملک ہے اور جہاں یہ سارے مقابلے ہورہے ہیں اور جن کا دستہ 500 کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، وہ سونے کا تمغہ جیتنے والے کھلاڑیوں کو 2 کروڑ 42 لاکھ روپے دے گا۔ جنوبی کوریا جنوبی ایشیا کا ترقی یافتہ ملک جس نے 1960ء کی دہائی میں پاکستان سے اس کا ”پانچ سالہ ترقیاتی پروگرام“ کا منصوبہ مانگا تھا کہ ہم نے بھی ترقی کرنی ہے، اس کے بعد ہم تو وہیں رہ گئے اور وہ ہم سے اور ہمارے پروگراموں سے سیکھ کر آج وہاں پہنچے ہیں کہ جہاں دنیا میں ان کی مثال دی جاتی ہے۔ جنوبی کوریا اپنے کھلاڑیوں کو سونے کا تمغہ جیتنے پر سوا کروڑ روپے دے گا۔ امریکہ بہادر ”دنیا کی سب سے بڑی طاقت“ وہ اپنے سونے کا تمغہ جیتنے والے کھلاڑیوں کو ایک کروڑ 60 لاکھ روپے دے گا۔
اب ہم اپنے ہمسایوں میں چلے جاتے ہیں۔ بھارت میں حکومت اپنے کھلاڑیوں کو سونے کا تمغہ جیتنے پر 75 لاکھ روپے دے گی، لیکن اسی پر بس نہیں، بھارتی اولمپک ایسوسی ایشن بھی سونے کا تمغہ جیتنے والوں کو ایک ایک کروڑ روپیہ دے گی۔اب پاکستان کی باری ہے پاکستان میں 2007ء میں ایک سپورٹس پالیسی بنائی گئی تھی جس کے تحت جو ایتھلیٹ سونے کا تمغہ جیت کر آئے گا اسے ایک کروڑ روپیہ، چاندی کا تمغہ جیتنے پر 50 لاکھ روپیہ اور کانسی کا تمغہ جیتنے پر 30 لاکھ روپے ملیں گے۔یہ رقم 2007ء میں تو یقینا بہت بڑی تھی کہ اُس وقت ڈالر 100 روپے سے بھی کم تھا، تاہم آج وہ ڈالر 284 روپے کا ہے تو یہ رقم اب کم از کم تین کروڑ تو ہونی چاہئے، لیکن ہماری حکومتوں نے ”پیسہ بچانے“ کا ایک بڑا اچھا طریقہ ڈھونڈ رکھا ہے۔ پیسہ بچانے کے لئے ہم اپنے کھلاڑیوں کو اس ”مقام“ تک لے کر ہی نہیں جاتے جہاں سے وہ سونے کا تمغہ جیتنے کے اہل بن سکیں۔ چلیں سونے کا نہ صحیح چاندی کا یا کانسی کا تمغہ ہی جیت لیں، مگر ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ کھلاڑی اس قابل ہی نہ ہوں کہ میڈل جیتیں اور انہیں پیسے دینے پڑیں۔ اگر کھلاڑیوں کو پیسے دے دئیے تو پھر ”آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹ“ کہاں سے ہوگی؟ یہ جو ”40 خاندان“ ہیں جن کے پیٹ نہیں بھرتے، ان کو ہم پیسے کہاں سے دیں گے؟ اگر ہم نے کھیلوں پر پیسے خرچ کر دیئے اور کھلاڑی تمغے جیتنے لگ پڑے تو مشکل ہو جائے گی۔ اِس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ 2016ء میں ہم نے صرف سات کھلاڑی برازیل اولمپکس میں بھیجے تھے، 2020ء میں ہم نے صرف 9 کھلاڑی ٹوکیو اولمپک بھیجے اور اب پیرس میں صرف سات کھلاڑی بھیجے، جن کے ساتھ بزرگ وفاقی وزیر کا نام لکھنے سے پَر جلتے ہیں۔ سب کو پتہ ہے کون صاحب اپنی بیگم کے ساتھ ہیٹ پہن کر دریائے سین کی ”سیر“ کر رہے ہیں۔ سات کھلاڑیوں کے ساتھ 11 آفیشل بھیجے گئے ہیں، انہوں نے کون سا سونے کا تمغہ جیتنا ہے؟ یہ تو اولمپک ولیج میں بھی نہیں رہیں گے،جہاں کھلاڑی رہتے ہیں۔یہ ”آفیشل“ تو اعلیٰ ہوٹلوں میں رہتے ہیں اور ”حکومتوں کے خرچ“ پر رہتے ہیں۔ حکومتی خرچ پر ”روٹی کھاتے“ ہیں، سیر سپاٹے کرتے ہیں۔ یہ پیسہ جو ہم ان پر خرچ کرتے ہیں اگر کھلاڑیوں کی تربیت اور ان کو کھیلوں کی سہولتیں مہیا کرنے پر خرچ کردیں تو نتائج اچھے ہوں گے، ورنہ نتیجہ ٹھینگا اور ایک بار پھر ٹھینگا ہو گا۔