جھوٹ کے پاؤں،پی ٹی آئی کا سر

   جھوٹ کے پاؤں،پی ٹی آئی کا سر
    جھوٹ کے پاؤں،پی ٹی آئی کا سر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور پی ٹی آئی کا سر نہیں ہے کیونکہ ایک طرف فیصل چودھری ایڈووکیٹ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو بنی گالا شفٹ ہونے کی آفر ہوئی اور دوسری جانب شیر افضل مروت کا فرمانا ہے کہ عمران خان کو نتھیاگلی میں خیبر پختونخوا ہاؤس میں شفٹ ہونے کی آفر ہوئی ہے۔ ان لوگوں کے بیان ملتے ہیں نہ شکلیں اور سمجھتے ہیں کہ جو کہیں گے وہی بیانیہ بن جائے گا۔گزشتہ برس  لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ کو دماغ کا خلل لاحق تھا، اب فیصل چودھری ایڈووکیٹ کا سر گھوم گیا ہے۔ شیر افضل مروت تو خیر پورے کے پورے گھومے ہوئے ہیں۔ 

ہمیں لگتا تھا کہ صرف عمران خان اپنی مقبولیت کے نشے میں ہوتے ہیں لیکن اب تو لگتا ہے کہ پوری پی ٹی آئی نشے میں ہے اور یہ نشہ سوشل میڈیا کا ہے جہاں جس کا جو دل کرتا ہے بک دیتا ہے۔ غالب نے غالباً پی ٹی آئی کے جنونیوں کے لئے ہی کہا تھا کہ 

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ   نہ   سمجھے  خدا کرے کوئی 

آپ برا نہ منائیں، مقصد کسی کی توہین نہیں بلکہ یہ گزارش کرنا ہے کہ اگر بنی گالا یا خیبر پختونخوا ہاؤس میں بھی ہاؤس اریسٹ ہی ہے تو پھرعمران خان کو اڈیالہ جیل رہنے میں کیا حرج ہے؟کیونکہ نواز شریف یا بے نظیر بھٹو کی طرح انہیں بھی بیرون ملک جانے کی سہولت آفر ہوئی ہوتی تو کوئی فائدہ بھی تھا، یہ کیا کہ ایک کوٹھڑی سے نکل کر دوسری کوٹھڑی میں قید ہو جائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ عمران خان کی جھوٹی موٹی سیاسی شہرت کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے اور انہیں ملک بدرکرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کی رہائی کے لئے کون سا پنجاب کے لوگ مرے جا رہے ہیں، وہ تو بس رات سونے سے پہلے سوشل میڈیا پر کوئی سا بھی من پسند وی لاگ سن کر سہانے سپنوں میں کھو جاتے ہیں۔البتہ ایک فرق یہ پڑا ہے کہ اب پہلے کی طرح کود کود نہیں پڑتے، بلکہ سچ پوچھئے تو اب تو عمران خان کی بات ہی نہیں کرتے۔ یہ الگ بات کہ ان سب کو ٹرمپ کے حلف اٹھانے کا شدت سے انتظار ہے!

عمران خان کو لانچ کرنے والوں نے انہیں پنجاب میں نواز شریف کی مقبولیت کا توڑ کرنے کے لئے لانچ کیا تھا کیونکہ آصف زرداری کی پیپلز پارٹی میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ یہ معرکہ سر کر سکتی۔ مگر 2018ء کی بدترین دھاندلی بھی نون لیگ کی پنجاب میں مقبولیت کو گہنا نہ سکی تھی اور جنوبی پنجاب سے جہانگیر ترین کا جہاز چلا کر پنجاب اسمبلی میں بزدار کو گاڑا گیا تھا۔ جہاں تک 8 فروری 2024ء کے انتخابات کا تعلق ہے تو اس میں تو پی ٹی آئی کے خلاف اتنی دھاندلی ہوئی تھی، اتنی دھاندلی ہوئی تھی کہ رانا ثناء اللہ بھی ہار گئے تھے۔البتہ پنجاب میں پھر بھی پی ٹی آئی برسراقتدار نہ آسکی۔ آ جا کر خیبر پختونخوا میں حکومت بنی لیکن اگر مولانا فضل الرحمٰن کو سنا جائے تو انہیں وہاں اسٹیبلشمنٹ سے وہی گلہ ہے جس کا رونا پی ٹی آئی پنجاب کے حوالے سے روتی نظر آتی ہے۔ 

جن حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان کو آج نہیں تو کل رہا کردیا جائے گا، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اسی طرح جو سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو رہا کروالیں گے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیوں چاہے گی کہ ایک ایسے وقت میں جب وہ ہائبرڈ نظام کی بدنامی مول لے کر اپنے ماتھے سے وہ داغ دھونے کی کوشش کر رہی ہے جو جنرل فیض حمید اور ان کے حواریوں نے لگائے تھے، عمران خان کو رہا کر کے دوبارہ سے انہیں جھوٹے بیانیوں کا باجہ بجانے دیا جائے اور ملکی معیشت کا دوبارہ سے بھٹہ بیٹھ جائے اور آئی ایم ایف سمیت ہر غیر ملکی قرضے کی واپسی ناممکن ہو جائے اور پاکستان خدانخواستہ ڈیفالٹ کر جائے۔ اسٹیبلشمنٹ تو چاہے گی کہ عمران خان کو اگلے تین سال تک اسی طرح قابو رکھا جائے اور ان کے لئے اڈیالہ جیل کا دروازہ انتخابات سے ایک سال پہلے ہی کھولاجائے۔ 

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پی ٹی آئی نے پنجاب میں 8فروری کا انتخابی معرکہ جیت لیا تھا تو اس جھوٹ کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ تب تک جنرل فیض کا مافیا کام کر رہا تھا جس نے انتخابات میں اپنا کام دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو پی ٹی آئی کے حق میں کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ تب تک جنرل فیض کا آرمی چیف بننے کا مشن ناکام ہو چکا تھا وگرنہ جس طرح کمشنر راولپنڈی نے انتخابات کو متنازع بنانے کی کوشش کی تھی، وہ ناکام نہ ہوتی اور پاکستان میں ایک ہڑبونگ مچ جاتا۔ چونکہ باقی صوبوں کی طرح پنجاب کے لوگوں نے بھی عمران خان کو ووٹ نہیں کیا تھا، اس لئے ایسا ہڑبونگ برپا نہ ہو سکا۔ حتیٰ کہ 26نومبر برپا ہوگیا۔ 

سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی جانب سے جھوٹ کو فروغ دینے کا سلسلہ تب سے زوال میں بدل گیا جب سے فائر وال نصب کی گئی ہے، اور اب کبھی لطیف کھوسہ تو کبھی فیصل چودھری کو میدان میں کودنا پڑتا ہے کہ جھوٹا بیانیہ گھڑا جا سکے لیکن کبھی ڈی جی آئی ایس پی آر تو کبھی خواجہ آصف اس کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔ ویسے بھی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے، اب پہلے کی طرح عمران خان زمان پارک میں ہیں اور نہ ہی انہیں عورتوں اور بچوں کی ڈھال میسر ہے۔ اب وہ اڈیالہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جہاں پنجاب پریزن کے جوان پہرہ دیتے ہیں اور کسی چڑیا کو بھی وہاں پر نہیں مارنے دیتے۔ 

مزید :

رائے -کالم -