تفہیم اقبال: بانگ درا (1)

تفہیم اقبال: بانگ درا (1)
 تفہیم اقبال: بانگ درا (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج ایک محفل میں حضرت علامہ اقبال کی نعت گوئی کا ذکر چل رہا تھا۔۔۔ باتوں باتوں میں ایک صاحبِ دل نے فرمائش کی کہ میں ہفتے میں ایک کالم شعرِ اقبال کی سادہ تفہیم پر بھی لکھ دیا کروں۔ آج تک اقبال اورکلامِ اقبال پر بہت سا کام ہو چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میری نظر میں دو موضوع ایسے ہیں جن پر مزید لکھا جا سکتا ہے۔


ایک تو یہ ہے کہ اقبال کا دو تہائی کلام فارسی میں ہے جس کی تدریس کا کوئی خاطر خواہ بندوبست ملک میں موجود نہیں بلکہ اگر یہ کہوں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم تدریسِ زبانِ فارسی سے اغماض برت کر اپنی نژادِ نو کو اقبال سے دور کر رہے ہیں۔ اب سکولوں اور کالجوں میں عربی فارسی کی جگہ دوسری زبانوں اور موضوعات پر توجہ دی جا رہی ہے۔ کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب تعلیمی اداروں میں یہ دونوں زبانیں بالالتزام پڑھائی جاتی تھیں اور ان کے لئے الگ اساتذہ تعینات کئے جاتے تھے۔ آج ان کی جگہ انگریزی اور کمپیوٹر نے لے لی ہے۔ یہ دونوں مضامین ہمارے اور ہماری اگلی نسلوں کے لئے بلاشبہ زیادہ کارآمد ہیں۔ لیکن ایک تو اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں اور دوسرے ہمارے چار ہمسایوں (بھارت، چین، افغانستان، ایران) میں سے دو کی قومی اورسرکاری زبان فارسی ہے۔اس لئے بھی ہمیں فارسی زبان آنی چاہیے۔ عصرِ حاضر کے علوم و فنون کی تحصیل میں زبان کا جو رول ہے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جدید موضوعات کو بھی قدیم زبانوں میں تدریس کیا جا سکتا ہے اور فارسی تو دنیا کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ شائد اس وجہ سے بھی فارسی پر ہماری توجہ کم ہو گئی ہو! لیکن ایران اسی فارسی زبان کے ساتھ نیوکلیئر سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان کی اپنی قومی زبان اردو کے ذخیرۂ لغت میں 70 فی صد الفاظ و محاورات یا تو فارسی سے براہ راست لئے گئے ہیں یا فارسی زدہ ہیں۔ فارسی اور اردو کی گرائمر تقریباً یکساں ہے۔ مجھے خود انگریزی، اردو، فارسی اور عربی زبانوں کو سیکھنے اور سکھلانے کے مواقع ملے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ فارسی اور اردو کی صرف و نحو، انگریزی اور عربی کی صرف و نحو سے کہیں زیادہ آسان ہے۔

دوسری وجہ اقبال کو سمجھنے اور سمجھانے کی ذیل میں یہ ہے کہ ان کا کلام آسان نہیں۔ شعر فہمی نثری عبارت کی تفہیم کی نسبت ایک مشکل ایکسرسائز ہے۔ اقبال کی شاعری کو اگر بہ لحاظِ فن مشکل نہ بھی کہا جائے تو اس میں معانی کی گہرائی اور وسعت بے پایاں ہے۔ اقبال کا اسلوبِ شعر ویسے بھی فلسفیانہ مباحث اور موضوعات سے مملو ہے۔ ان کا مزاج مشکل پسند لیکن ہمہ گیریت کا حامل تھا۔ دراصل کسی جامع اور مبسوط موضوع کو کسی آسان زبان میں بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جو لوگ ایسا دعویٰ کرتے ہیں وہ اس کی تکمیل پر پورے نہیں اترتے۔ اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ کلام اقبال کو جہاں تک ممکن ہو سکے سلیس زبان میں پیش کیا جائے۔


جو قارئین اقبالیات کے طالب علم ہیں یہ کالم ان کے لئے نہیں۔ نہ ان حضرت کے لئے ہے جو اقبال شناس کہلاتے ہیں۔ ان کے مضامین اگرچہ مجھے ہمیشہ مرعوب کرتے ہیں لیکن میں نے بہت کم اقبال شناسوں کو شعر اقبال کی سادہ اورآسان تفہیم کے ساتھ انصاف کرتے دیکھا ہے۔ میرا مخاطب وہ گریجویٹ طالب علم (اور طالبہ) ہے جس نے انٹرمیڈیٹ یا اے لیول میں اردو کو لازمی زبان کی حیثیت میں پڑھ رکھا ہے۔ باایں ہمہ اگر کسی نکتے کو تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہوئی تو قارئین کی بوریت کا احساس کرنے کے باوجود شرح و بسط کی طرف جانے کے لئے پیشگی معذرت!
سب سے پہلے اقبال کی پہلی اردو تصنیفِ شعر ’’بانگ درا‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بانگ درا اقبال کی پہلی کتاب نہیں تھی بلکہ چھٹی کتاب تھی جو زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی۔ اس سے پہلے شائع ہونے والی پانچ کتابیں یہ ہیں:
1۔علم الاقتصاد ۔۔۔ (1903ء)
2۔تاریخِ ہند۔۔۔1913ء (برائے سکولز)
3۔اسرارِ خودی۔۔۔1915ء
4۔رموز بے خودی۔۔۔1919ء
5۔پیام مشرق۔۔۔1923ء
اقبال کا سن پیدائش 1877ء ہے۔اس حساب سے ان کی فارسی کی پہلی کتاب جب 1915ء میں شائع ہوئی تو ان کی عمر38 برس ہو چکی تھی۔ یورپ سے بیرسٹری اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ 1908ء میں وطن لوٹے تھے۔ اس واپسی کے بھی سات برس بعد اسرار خودی کی اشاعت ان کی پختہ فکری کی دلیل ہے۔لیکن اقبال کبھی کبھی اردو میں بھی شعر کہتے رہے لیکن زیادہ توجہ فارسی پر رہی۔اسرار خودی پر جو اعتراضات ہوئے ان کا جواب دینے کے لئے ان کی رموز بے خودی شائع کرنی پڑی جو 1919ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد بھی مزید چار سال گزرے۔ اور 1923ء میں پیام مشرق شائع ہوئی جو بعض اقبال شناسوں کے ہاں اقبال کی شاہکار تصنیف سمجھی جا سکتی ہے۔ اسی دوران ان کے مداحوں نے اس بات پر زور دیئے رکھا کہ وہ اردو کلام بھی شائع کیا جائے جو اول ول منخرن میں چھپتا رہا یا انجمن حمائت اسلام کے اجلاس میں پڑھا گیا۔ ایک طرف اقبال کی شہرت ہندوستان سے باہر ان کی پہلی فارسی تصنیف اسرار ورموز کے انگریزی ترجمے کی وجہ سے پھیلنی شروع ہوئی اور دوسری طرف اندرونِ ملک بانگ درا کی اشاعت (1925ء میں) نے یہ کام کیا۔


بانگ درا کا پہلا حصہ آغاز سے لے کر 1905ء تک ہے۔ یہ آغاز کب ہوا، اس کے لئے کوئی حتمی تاریخ یا سال متعین نہیں کیا جا سکتا۔ مختلف مضامین میں اس ’’آغاز‘‘ کا تعین مختلف ہے۔ 1905ء میں وہ انگلستان چلے گئے اور 1908ء میں واپس آئے۔ دوسرا حصہ قیام یورپ کے دوران لکھے گئے اشعار پر مشتمل ہے۔ انگلستان سے وہ جرمنی گئے کہ ڈاکٹریٹ کے مقالے کے لئے جرمن زبان کی تحصیل لازمی تھی۔ یورپ میں اپنی چند در چند مصروفیات کے باوجود بھی انہوں نے اردو میں کچھ نہ کچھ کہنا جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ بانگ درا کا دوسرا حصہ حجم کے اعتبار سے پہلے اور تیسرے حصے سے یہ اعتبارِ ضحامت بہت کم ہے۔ بانگ درا کا تیسرا حصہ 1908ء سے شروع ہو کر 1935ء تک چلتا ہے۔ یہ وہ سال ہے جب اقبال کی دوسری اردو شعری تصنیف بال جبرائیل منظر عام پر آئی۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ بانگ درا اپنے موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے ان کی باقی اردو شعری تصانیف سے زیادہ جامع اور بھرپور ہے۔ بانگ درا کے مندرجہ بالا تینوں حصوں کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے کہ پہلے منظومات کو درج کیا گیا ہے اور بعد میں غزلیات کو۔ کہا جا سکتا ہے کہ غزلیات کا حصہ برائے نام ہے۔(میری مراد حجم کے اعتبار سے ہے نہ کہ مضامین و معانی کے اعتبار سے)۔۔۔ پہلے حصے میں 49نظمیں اور 13غزلیں، دوسرے حصے میں 24نظمیں اور7غزلیں اور تیسرے حصے میں 70نظمیں اور 8غزلیں ہیں۔ یعنی مجموعی طور پر 143نظمیں اور 28غزلیں بانگ درا میں شامل ہیں۔غزلیات کی تعداد بہ نسبت منظومات اگر کسی پڑھنے والے کو شائد اس خیال میں ’’مبتلا‘‘ کر دے کہ اقبال کے ہاں غزل کا مقام نظم کے مقابلے میں فروتر تھا تو اسے بال جبرائیل دیکھنی چاہیے جس میں اقبال نے اس کمی کی ساری کسر نکال دی ہے اور اگر کچھ باقی بھی تھی تو اسے فارسی کی تصانیف میں ’’برابر‘‘ کر دیا ہے۔ تمام فارسی تصانیف (مثنویوں کو چھوڑ کر) میں جگہ جگہ غزلیات ملتی ہیں۔ بانگ درا کا آخری حصہ ان کی طنزیہ اور مزاحیہ شاعر پر مشتمل ہے جس میں 27نظمیں ہیں جن کے موضوعات مختلف بھی ہیں اور ہمہ گیر بھی۔


بانگ درا کے شروع میں ان کے دوست سر شیخ عبدالقادر کا دیباچہ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ بانگ درا کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ دیباچہ ضرور پڑھیں جس میں مختصراً ان کے آباؤ اجداد، تعلیم، ابتدائی شاعری، فارسی کی طرف رغبت کی وجہ اور لندن میں اقبال سے ان کی ملاقاتیں شامل ہیں۔ اس دیباچے کے بعض حصے نذرِ قارئین ہیں:


’’اقبال کو اپنی علمی منازل طے کرنے میں اچھے اچھے رہبر ملے اور بڑے بڑے علما سے سابقہ پڑا۔ان لوگوں میں کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر میک ٹیگرٹ، براؤن، نکلسن اور سارلی قابلِ ذکر ہیں۔ پروفیسر نکلسن تو ہمارے شکریے کے خاص طور پر مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے اقبال کی مشہور فارسی نظم ’’اسرارِ خودی‘‘ کا انگریزی ترجمہ کرکے اور اس پر دیباچہ اور حواشی لکھ کر یورپ اور امریکہ کو اقبال سے روشناس کیا۔ اسی طرح ہندوستان کی علمی دنیا میں جتنے نام ور اس زمانے میں موجود تھے مثلاً مولاناشبلی مرحوم،مولانا حالی مرحوم، اکبر مرحوم، سب سے اقبال کی ملاقات اور خط و کتابت اور ان کے اثرات اقبال کے کلام پر اور اقبال کا اثر ان کی طبائع پر پڑتا رہا۔ مولانا شبلی نے بہت سے خطوط میں اور حضرت اکبر نے نہ صرف خطوں میں بلکہ بہت سے اشعار میں اقبال کے کمال کا اعتراف کیا ہے اور اقبال نے اپنی نظم میں ان باکمالوں کی جابجا تعریف کی ہے۔‘‘
’’شیخ محمد اقبال نے انجمن حمائت اسلام کے ایک جلسے میں اپنی وہ نظم جس میں کوہِ ہمالہ سے خطاب ہے پڑھ کر سنائی۔ اس میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں۔ اس پر خوبی یہ کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجود تھی۔ مذاقِ زمانہ اور ضرورتِ وقت کے موافق ہونے کے سبب بہت مقبول ہوئی اور کئی طرف سے فرمائشیں ہونے لگیں کہ اسے شائع کیا جائے۔ مگر شیخ صاحب یہ عذر کرکے کہ ابھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے، اسے اپنے ساتھ لے گئے اور وہ اس وقت چھپنے نہ پائی۔ اس بات کو تھوڑ اہی عرصہ گزرا تھا کہ میں نے ادبِ اردو کی ترقی کے لئے رسالہ ’’مخزن‘‘ جاری کرنے کا ارادہ کیا۔ اس اثناء میں شیخ محمد اقبال سے میری دوستانہ ملاقات پیدا ہو چکی تھی۔ میں نے ان سے وعدہ لیا کہ اس رسالے کے حصہ ء نظم کے لئے وہ نئے رنگ کی نظمیں مجھے دیا کریں گے ۔ پہلا رسالہ شائع ہونے کو تھا کہ میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان سے کوئی نظم مانگی۔انہوں نے کہا ’’ابھی کوئی نظم تیار نہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’ہمالہ‘‘ والی نظم دے دیجیے اور دوسرے مہینے کے لئے کوئی اور لکھیے۔ انہوں نے اس نظم کے دینے میں پس و پیش کی کیوں کہ انہیں یہ خیال تھا کہ اس میں کچھ خامیاں ہیں مگر میں دیکھ چکا تھا کہ وہ بہت مقبول ہوئی۔ اس لئے میں نے زبردستی وہ نظم ان سے لے لی اور ’’مخزن‘‘ کی پہلی جلد کے پہلے نمبر میں جو اپریل 1901ء میں نکلا، شائع کر دی۔ یہاں سے گویا اقبال کی اردو شاعری کا پبلک طور پر آغاز ہوا۔‘‘

میرا ارادہ ہے کہ بانگ درا کے تینوں حصوں سے ایک ایک دو دو منظومات کی سلیس اور سادہ تشریح قارئین کی خدمت میں پیش کروں۔ آخر میں ایک بار پھر گزارش کروں گا کہ کالموں کا یہ سلسلہ صرف اور صرف ان حضرات اور خواتین کے لئے لکھا جا رہا ہے جو اقبال کے نام سے تو واقف ہیں، کام سے نہیں اور جو اقبال کو ایک مشکل شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ مشکل ہونے اور جامع ہونے میں بڑا فرق ہے اور میری کوشش ہو گی کہ اس فرق کو جہاں تک ہو سکے دور کروں۔ (جاری ہے)

مزید :

کالم -