ڈس انفارمیشن کے طوفان میں سسٹم نہیں عوام بدلیں !!
اگر بارش میں شہر ڈوبنے کو بیڈ گورننس کہنے یا یورپ کے بھی ڈوب جانے کی مثالیں دیتے دیتے آپ کا سانس پھولنے لگا ہے تو تصویر کا ایک اور رخ دیکھ لیتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سوشل میڈیائی کمپین کے سیلاب میں بہ جاتے ہیں۔ ڈس انفارمیشن کے اس سیلاب میں معلومات اور حقائق کی چھوٹی سی کشتی ہمیں نظر ہی نہیں آتی۔ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ ہمارے یہاں سسٹم اور لائن آف یکشن کے لئے بنیادی ڈھانچے پر مکالمہ ہی نہیں ہوتا۔ ہم نہ تو کچھ جاننے میں حقیقی دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی مسائل حل کرنا ہمارا مسئلہ ٹھہرا۔ ہم میں سے اکثر لوگ ریٹنگ ، جذباتیت اور پارٹی مفادات کے غلام ہیں۔ اب یہاں کوئی ایسا دانا بھی نظر نہیں آتا جو سمجھانے آئے کہ پارٹیاں عوام اور ملک کی بہتری کے لئے ہوتی ہیں نہ کہ ملک پارٹیز کے لئے بنایا اور توڑا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں تو لوگوں کو ہی نہیں ممبران اسمبلی کی اکثریت کو بھی یہ علم نہیں ہوتا کہ ان کا اصل کام صرف قانون سازی ہے لہذا وہ اس کام کے سوا سبھی کچھ کرتے رہتے ہیں۔
بہرحال لاہور میں بارش ہوئی اور شہر کی کئی سڑکیں ڈوب گئیں۔ سنا ہے اڑتیس سال بعد ایسی بارش ہوئی ہے۔ ہم میں سے آدھے لوگ سرکار کو برا بھلا کہتے رہے اور آدھے یورپ کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں بھی بارش کے بعد سڑکیں ڈوب جاتی ہیں۔ کچھ دوستوں نے کراچی میں سیلاب پر فوج آنے کی پانچ سال پرانی تصاویر لاہور کی بتا کر اپ لوڈ کر دیں ، کچھ بھارت کی ویڈیو شیئر کرتے رہے ، کچھ دوست جیل روڈ انڈر پاس میں ڈوبے لوگ دکھاتے رہے ۔ اصل تصاویر میں جی پی او چوک کا گڑھا درست تھا ، پانی میں ڈوبی بعض سڑکیں بھی حقیقی پائی گئیں۔ اب بحث یہ نہیں کہ پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے سابق حکومت ذمہ دار ہے یا یہ یورپ میں بھی یہی ہوتا ہے۔ بحث یہ ہے کہ سسٹم کتنا مضبوط ہے ؟
دنیا بھر میں سسٹم واقعہ یا آفات کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ قدرتی آفات کے بعد انتظامی سسٹم نے ریکور کتنی دیر میں کیا؟ بالکل ویسے ہی جیسے دنیا بھر میں جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں۔ امریکا میں شاید پاکستان سے زیادہ جرائم ہوتے ہیں لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ کیس کتنے عرصہ میں حل کیا گیا ؟ مثال کے طور پر ہم نے زینب قتل کیس پر پورے ملک میں شور مچایا لیکن یہ کیس ایک ماہ سے بھی پہلے حل ہو گیا تھا۔ ہم پولیس کی کمونیکیشن پر طنز کرتے ہیں لیکن تین چار دن قبل فیصل آباد میں سات آٹھ سال کی ایک بچی سے زیادتی اور پھر قتل کے نامعلوم ملزم کو تین دن میں ٹریس کر کے ائیرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ زینب کیس میں بچی سے زیادتی اور قتل کی قصور وار پولیس نہیں تھی کیونکہ پولیس کسی کے ساتھ مطمئن انداز میں جاتی ہر بچی کو روک کر نہیں پوچھ سکتی کہ وہ کس کے ساتھ جا رہی ہے لیکن کیا وہ لوگ بھی ذمہ دار نہ تھے جنہیں نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ کر بھی اپنے محلے دار کو پہچاننے سے انکار کر دیا تھا ؟
فیصل آباد میں بچی کو دن کے اجالے میں لیجایا گیا اور دن کے وقت ہی لاش چوراہے پر پھینکی گئی لیکن کوئی شہری کچھ ''دیکھنے "' کو تیار نہیں تھا۔ کیا ذمہ دار ہم شہری نہیں تھے ؟ اس کے باوجود اگر پولیس نے تین دن میں نامعلوم قاتل کو معلوم قاتل ثابت کر کے بروقت ائیرپورٹ سے گرفتار کر لیا تو اس کا مطلب ہے کہ پنجاب میں پولیس کا نظام بہتر ہے لیکن سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہ دیکھنے والے شہریوں کی آنکھیں خراب ہیں۔
اسی طرح لاہور بارش کے دوران ڈوبا رہا لیکن اگر بارش کے بعد چند گھنٹوں میں سڑکیں ٹریفک کے لئے اوپن تھیں تو اس کا مطلب ہے سسٹم درست کام کر رہا ہے۔ جن انڈر پاس کو سارا دن سوشل میڈیا پر ڈوبا ہوا دکھایا گیا۔ شام کو میں وہاں سے گزرا تو پانی کا نام و نشان نہیں تھا۔ جی پی او چوک پر گڑھا دکھایا جا رہا تھا لیکن اگلے دن اس پر سے ٹریفک گزر رہی تھی۔ اس کا مطلب ہے کم از کم پنجاب کی حد تک سسٹم درست کام کر رہا ہے اور پولیس سمیت دیگر ادارے کم وقت میں بہتر نتائج دے رہے ہیں۔
سرکار کا بالکل یہ کام ہے کہ سیوریج کا سسٹم ٹھیک کرے اور محکموں کو ایکٹیو رکھے لیکن اگر آپ کے سڑکوں پر پھینکے شاپنگ بیگ ، جوس کے ڈبے اور دیگر چیزوں کی وجہ سے نکاسی آب کے راستے بند ہو جائیں اور بارش کا پانی کھڑا ہو جائے تو سرکار نہیں آپ کو ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی بچی کو محلے دار یا رشتہ دار کے ساتھ جاتا دیکھنے والے اس سے زیادتی اور قتل کے بعد بھی خاموش رہیں لیکن پولیس اس کے باوجود قاتل ٹریس کر کے گرفتار کر لے تو پولیس کی بجائے پہلے آپ کو اور مجھے ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے۔
آئی جی پنجاب کے حکم پر گزشتہ دس روز میں تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے سیکنڑوں افراد انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر گرفتار کئے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں سسٹم بدلنا چاہئے یا عوام ؟
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔