ہتک عزت بل اور صحافتی مشکلات

     ہتک عزت بل اور صحافتی مشکلات
     ہتک عزت بل اور صحافتی مشکلات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

   پوری دنیا میں صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے جان پر کھیل جاتے ہیں اپوزیشن کا کرادار ادا کرتے ہیں حکومت اور معاشرہ کو درست سمت کی طرف لیکر جاتے ہیں ان کے اوپر ایف آئی آر اور دہشت گردی کے پرچے ہوتے ہیں جنگوں میں عوام کو براہ راست کوریج کے دوران شہید ہوتے ہیں اور بے شمار قتل و غارت اور تشدد کا بھی شکار ہوتے ہیں آج تک صحافیوں کے قتل کے ملزمان کبھی نہیں پکڑے گئے کیونکہ ان کے قتل کے پیجھے کون لوگ ہو تے ہیں سب کو پتہ ہوتا ہے سچ کی آواز بنتے ہیں اور مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں ساری زندگی کرب و مشکلات میں بسر کرتے ہیں اور ان کی اولاد اور خاندان بھی ان کے صحافتی فرائض سے متاثر ہوتے ہیں اسرائیل اور غزہ جنگ میں درجنوں صحافی شہید ہوئے،  پاکستان میں صحافیوں کے حالات بھی کچھ اتنے اچھے نہیں ہیں آزادی صحافت پر آئے دن پابندیاں اور نئے نئے قانوں سامنے آتے ہیں پنجاب اسمبلی میں صوبائی حکومت کا پیش کردہ ہتک عزت بل 2024منظور کرلیا گیا، اپوزیشن نے بل کیخلاف شدید احتجاج کیا جبکہ صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا، ایوان کی سیڑھیوں میں بل نامنظورکے نعرے لگائے۔ وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الر حمن نے ہتک عزت بل 2024 پیش کیا۔اس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید نعرے لگائے گئے اور احتجاج کیا گیا جبکہ صحافیوں نے بھی پریس گیلری کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسمبلی احاطے میں احتجاج کیااور ملک بھر میں احتجاج کی کال دی ہے۔ اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے بھی اس بل پر اپنا رد عمل دیا ہے ایسے قانو ن سے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگے گی۔کسی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہو تا الزام لگا دیں اور کہیں یہ آزاد ی اظہار رائے ہے، اب الزام لگانے کے بعد اس بل کے تحت صحافوں کو جواب بھی دینا ہوگا،، اپوزیشن نے بل سے متعلق دس سے زائد ترامیم پنجاب اسمبلی میں جمع کرائی تھیں،بل پر بحث کے دوران اپوزیشن کی تجویز کردہ تمام ترامیم مسترد کردی گئی ہیں اور بل اکثریت رائے سے منظور کرلیا گیا،جس پر اپوزیشن نے بل کو کالا قانون قرار دیا اور بل کی کا پیاں پھاڑ کر احتجاج کیا۔ بل کا اطلاق الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ہوگا، اس بل کے تحت پھیلائی جانیوالی جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا۔ بل کا یوٹیوب، ٹک ٹاک، ایکس /ٹوئٹر، فیس بک، انسٹا گرام کے ذریعے پھیلائی جانیوالی جعلی خبروں پر بھی اطلاق ہوگا،کسی شخص کی ذاتی زندگی اور عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کیلئے پھیلا ئی جا نیو الی خبروں پر قانون کے تحت کارروائی ہوگی، ہتک عزت کے کیسز کیلئے خصوصی ٹربیونلز قائم ہونگے جو چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہونگے۔ 30 لاکھ روپے کا ہر جا نہ ہوگا، آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کیخلاف الزام کی صورت میں ہائیکورٹ کے بنچ کیس سننے کے مجاز ہونگے، خواتین اور خواجہ سراؤں کو کیس میں قانونی معاونت کیلئے حکومتی لیگل ٹیم کی سہولت میسر ہو گی۔ چار صوبائی وزرا بلال یاسین، شیر علی گرچانی، عاشق حسین کرمانی اور ذیشان رفیق مذاکرات کی کوششوں میں مصروف رہے صدر پریس کلب ارشد انصاری کاظم خان سمیت دیگر صحافیوں نے ہتک عزت بل پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا اور اسے ظالمانہ آرڈینیس قرار دیا ہے۔صحافی کیمونٹی کیساتھ زیادتی ہے اور یہ بل ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا پاکستان میں ہمیشہ اظہار آزادی پر ہر حکومت نے مختلف قوانین بنائے اور میڈیا کو دبانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے ہیں،صحافتی تنظیموں کے عہدیداران نے بل کو صحافتی برادری پر شب خون قرار دیا۔

حکومت کا دعویٰ ہے ہم سب سے بڑے جمہوریت پسند ہیں، جب ماضی میں پیکا کے قوانین نافذ ہوئے تو بھی احتجاج ہوئے تھے،، اس بل کیخلاف تمام صحافتی تنظیمیں اے پی این ایس، سی پی این ای، ایمنڈ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ اور کلبز ایک پیج پر ہیں۔موجودہ حکومت سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے بہت خوف زدہ ہے اور سوشل میڈیا نے حکومت کی ناک میں دم کر رکھ ہے جس سے رائے عامہ تیزی سے ان کے خلاف ہو رہی ہے حکومت بہت پریشان ہے اور اس صحافتی جنگ کو روکنے کے لیے ہر قدم اٹھائے گی۔