’صحافستان‘ کا مستقبل
گزشتہ دنوں بچپن کے ایک عزیز دوست ڈاکٹر زاہد فاروق انگلینڈ سے اپنی دو ہفتوں کی چھٹی گزارنے پاکستان آئے ہوئے تھے ۔ ایک کافی شاپ پر رات گئے ملاقات کے دوران اُن کا اصرار وہی تھا جو پاکستان سے باہر رہنے والے تقریباً ہرپاکستانی کا ہوتا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ اس کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ کب ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو گا اور یا یہ کہ یہاں کی عوام کب خوشحال ہو گی؟ مجھ بیچارے نے اکیلے ہی دوران بحث جیسے تیسے اُنہیں کسی حد تک مطمئن کیا(یہ نہیں معلوم کس حد تک) کیونکہ وہاں ہم دونوں کے ایک اور ’لنگوٹیہ صاحب جن کا نام قصداً نہیں لیا جارہا‘، بھی برآجمان تھے لیکن سرکاری محکمے میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے باوجود مجال ہے جو اُنہوں نے میرا ساتھ دیا ہو۔
ایسا نہیں کہ ڈاکٹر زاہد برطانوی نیشنل ہیں یا وہاں اک عرصے سے رہ رہے ہیں، ابھی چند سال قبل ہی ملازمت کے سلسلے میں وہ انگلینڈ گئے لیکن اُن کی وطن کےلئے پریشانی بالکل ویسی ہی تھی جیسے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی ہو ا کرتی ہے۔ دوران بحث میں مذاق ،مذاق میں اُنہیں بھگوڑا بھی کہتا رہا اور پا کستان پر اُن سے زیادہ اپنا حق بھی جتاتا رہا کہ میں تو لڑائی لڑ رہا ہوں لیکن اُن پر اُس کا اثرہوکے نہیں دیا کیونکہ وہ اپنے آپ کو اب زیادہ بڑا سٹیک ہولڈر گردانتے ہیں۔۔۔کیوں؟ اس کا جواب کسی ’بھگوڑے‘ کے پاس نہیں۔
ہلکی سی خنکی میں کافی اور اُس کی طرح کی گرما کرم بحث کہ ذرا سی بد احتیاطی بھی منہ جلا دے۔۔۔ اگرچہ ایسی بحث سے اُٹھا نہیں جاتا لیکن فکر معاش نے اس پرندے کے ’پر‘ ایسے باندھے کہ اب ’بے پر©‘ کا محسو س کرنے لگا ہے،پس چار و ناچار اجازت چاہی کہ رات بہت بیت چکی تھی اور صبح اُسی کوہلو میں جاکر جتنا تھا۔ اُٹھ کر اپنی اپنی گاڑیوں کے پاس تو پہنچ گئے لیکن بحث اک بار پھر چھڑ گئی مگر اِس مرتبہ موضوع بحث میڈیا تھا۔ ویسے تو بحیثیت صحافی کسی بھی طرح کی بحث سے چاہ کربھی راہ فرار اختیار نہیں کیا جا سکتا مگر جب بات اپنے ہی ’چاک گریبان‘ کی ہو تو کسی کے چاہنے پربھی خاموش نہیں رہا جا سکتا تاہم وقت کی کمی کے باعث یہ کہہ کر بحث کو سمیٹا کہ ڈاکٹر صاحب’صحافستان ‘چھٹی گزارنے آئے ہیں ، آئندہ نشست پر اس کی سیر کرائیں گے لیکن وہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔۔۔ الوداع کہا اور گھر کی راہ لے لی لیکن اُس رات سو نہ سکا۔ پاکستان سے صحافستان کا سفر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا تھا سو سب فلم کی طرح چلنے لگا۔صبح ہوئی، شام ہوئی ۔۔۔روزانہ وہی کوہلو اوروہی روٹین لیکن فلم ہے کہ تمام ہی نہیں رہی بلکہ اُلٹا اِس فلم میں ایک نہیں کئی کئی سین شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے میں سوشل میڈیا کا باریک بینی سے مشاہدہ کر رہا ہوں، یہاں آزادی رائے کے ان پڑھ اور جاہل گھوڑے اس طرح سے دوڑائے جاتے ہیں کہ موضوع کے چیتھڑے تک نہیں ملتے مگر فی الوقت کوئی کچھ نہیں کر سکتاکیونکہ سوشل میڈیا کی لگام جانے کس کے ہاتھ میں ہے،،، کسی کے ہاتھ ہے بھی کہ نہیں معلوم نہیں۔گولیوں سے لیکر پٹرول بم اور یہاں تک کہ کیمیائی ہتھیارتک سب کچھ اس پر اورہر طرف چل رہا ہے۔ بعض’ ناخدا ‘تاہم اسے اپنے مقاصد کے لیے بڑے زیرک انداز میں استعمال ضرور کر رہے ہیںکہ یونہی تو دہائیوں پر محیط حکومتیں نہیں گر گئیں ، ایسے ہی تو کئی اب تک لرز رہی ہیں اور جانے ’کتنی ‘ہیں جنہیں احساس تک نہیں کہ اُن کی جڑوں میں سوشل میڈیا کے بم جا بجا فٹ کیے جا چکے اب جب ناخدا چاہیں گے مقصد پورا ہو جائے گا۔۔۔ کامیاب ہے ماسٹر مائنڈ کہ ناکام کیسے رہ سکتا تھا؟ ؟؟ اندھوں کی نگریوں پر تو کانے ہی راج کیا کرتے ہیں۔۔۔سوشل میڈیا تو سوشل میڈیا،،،ہمارے ہاں تو دس بارہ سال کی عمر کی اس چھوٹی پردہ سکرین پر بھی تلاطم برپا ہے۔۔۔ کئی ’ذہنی ناتواں© ‘ روزانہ کی بنیاد پر ایسا مواد نشر کررہے ہیں کہ جسے سوشل میڈیا کے گھوڑے ’چارے ‘کے طور پر استعمال کر کے دن تو کیا رات بھر بھی سر پٹ دوڑتے ہیں اور ہر موضوع کو اس طرح روندتے ہیں کہ اللہ کی پناہ !!!
اسی لیے تواب مباحثے بھی عجب اورسرخ وسیاہی مائل دکھائی دیتے ہیں۔رائے زنوں میں سے تقریباً ہر کسی کی آنکھوں میںسیاہ ڈورے نظر آتے ہیںاور جن کی آنکھوں میں نہیں اُن میں سے زیادہ تر کی’آستینوں ‘ کا پسینہ سیاہی مائل ہے۔ چند ایک البتہ ضرور ہیںکہ جوشفاف آستینیں لیے اپنے گفتار و کردار کے بل بوتے ان سب سے نبرد آزما ہیںب لیکن لفظوں کی نگری کے زیادہ توسفید پوش توجانے کہاں اور کب کہ روپوش ہو گئے کہ اُنہیں ’دا غوں‘ سے ڈر لگتا تھا جبھی تو لفظوں کے اِن نئے سوداگروںکے قلم اور زبان سیاہی مائل لہو رنگ اگلتی ہے ۔ ۔ ۔ عجب اس لیے کہ ’غلاظت ‘کی بے حد درجہ ملاوٹ حرمتِ لفظ کواس قدر تعفن زدہ کر چکی کہ نہ لفظ رہا نہ حرمت۔۔۔ کامیاب ہے ماسٹر مائنڈ کہ ناکام تو ہو ہی نہیںسکتا تھا۔۔۔کیسے ہو سکتا تھا؟؟؟
جانے کتنے سفید پوش کیمرے ہلا ہلا کر دکھائے جانے والے زلزلوںکی نظر ہوگئے۔۔۔ جانے کتنے ہی پڑھے لکھے نئی پردہ سکرین پر’مخصوص‘ اہلیت کی بنا پر متعارف کرا دیے جانے والے فنکاروں کے زیر عتاب آ کرخود ہی پردہ کر گئے جبھی تو یہاں سوشل میڈیا سے لے کر چھوٹی سکرین پر ہر طرف ’بے لگام و حسین ‘ اورسیاہی مائل سرخ ذدہ سے نظارے ہیں۔
صحافستان کے بہت سے سفید پوش، حالات کی تنگ دستی دور کرنے کے لیے ’روزگار ‘دینے والے مداریوں کی جانب سے ’جو کہا جائے وہ کرو‘ پر آمادہ ہوکر ’چھوٹے‘ بن گئے اور لگ گئے مداری کی خواہش کے عین مطابق کرنے تماشہ ۔۔۔تو اب تو ہونا ہی ہے شب و روز تماشہ سب کے آگے۔
یہاں چند ایک ایسے بھی ہیں جن کا ماضی کا پیشہ تو قابل بیان نہیں مگرغلیظ ڈائیلاگ ڈلیوری میں چونکہ اُن کا کوئی ثانی اس لیے سفید پوشوں کو ہی گالیاں دیتے دیتے وہ موجودہ سکرین کے نئے ’سفید پوش ‘بن بیٹھے کہ اب کوئی بھی قومی سین اُن کے بنا ذرامشکل سے ہی مکمل ہوتا ہے۔
کچھ ایسے بھی ہیں جن کی باگیں تماشہ گروں نے مداریوں سے بالا بالاجیسے چاہیں ویسے ہلائیں اور کمال فن یہی رہا کہ وہ چوکتے نہیں اسی لیے تو صحافستان کے کرتا دھرتا بن بیٹھے۔۔۔ہاں ان کا’پوشیدہ ‘کمال یہ بھی ضرور ہے کہ مداریوں کوبھی معلوم نہیں کہ دراصل ان کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہیں۔ الف ب آتی ہو یا نہ بھی آئے تو کیا،،، ’جی سر‘ آ گیا یہی کافی ہے کہ مداری کوتو بندر سے اتنا ہی چاہئے ۔۔۔ بلا چوں چراں مرضی کا تماشہ نہ کر سکے تو مداری کا کاروبار کیسے چلے، اب بندر کسی کی جیب پر حملہ کرے یا عزت پر۔۔۔ مداری کو اس سے غرض ہی کہاں ۔ ۔ ۔ اُسے تو بس اِس سے غرض ہے کہ تماشے کے پس پردہ کاروبار چلتا رہے۔ ایسے ہی اب صحافستان میں چوٹیوں کی مانند نظر آتے ہیں ،،،نہ بھی ہوں تو بھی دعویٰ ابوالہول یہی ہے کہ اُن کی موجودگی یہاں کی زمین کا توازن قائم رکھنے میں نا گزیر۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے یہاں کا ہرحکمران اپنے اپنے دور کا ناگزیر گزرا ہے۔
ماضی کے سفید پوش مداریوں کی ڈگڈگی پر ناچتے نئے سوداگروں کی نت نئی چھلانگوں سے ڈر کر جانے گمنامی کے اُس دیس جا بسے ہیں کہ ڈھونڈے سے نہیں ملتے اور اگر کوئی مجبوریوںکے بھنور میں پھنسا بھوکا ننگاغلطی سے صحافستان کا رخ کربھی لے تو ’تن ،من ،دھن تو کیا ، سبھی کچھ لُٹا دینے والے مداریوں کے چھوٹے‘ ، اُن کی اتنی تذلیل اس طرح کرتے ہیں کہ یا تو وہ بھی ’چھوٹے©‘ بن جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر صحافستان کے کسی جنگل میں گمنامی اختیار کر لیتے ہیں۔
تماشہ گروں اور مداریوں کے اشاروں پر ناچتے ان سوداگروں کے گرد جمع کروڑوں تماش بین ۔۔۔ معذرت ۔۔۔ زیرک صحافی آزادی رائے کا لبادہ اوڑھے اپنا اپنا ’کلام ‘سوشل میڈیا کی بندوق سے دوسروں کے سینوں میں اس طرح سے اگلتے ہیںکہ اک دوسرے کے سینے نہ صرف منور ہوجاتے ہیں بلکہ وہ یہ ’علم‘ صحافستان کی زمین کو سیراب کرنے کے لئے ہر طرف تھوکتے پھرتے ہیں۔ اَن دیکھی، بنا جانچی نا پختہ اور’ پیشہ‘ ورانہ معلومات پر مبنی مباحثوں کا خزانہ ہر طرف سے لاوے کی طرح اُگلتا نظر آتا ہے۔ہاں البتہ!!! آنکھوں سے آنسو نکالتاہر سو پھیلا یہ دھواںوقتی ہے کہ کچھ تماشہ گروںاور مداریوں کے درمیان معاملات کے طے ہوتے ہی کافی حد تک کم ہوتا چلا جائے گا مگرہر طرف پھیلتا یہ لاوا صحافستان کی زمین کو اس قدر زرخیز کر دے گا کہ اک دن آج کے تماشہ گر اور مداری بھی ماضی کے سفید پوشوں کی طرح یا تو روپوش ہو جائیں گے یا پھر اَن جانچی اور’ پیشہ‘ ورانہ معلومات کے ملاپ سے صحافستان کی زمین ہرطرف سے اُگنے والے پیدائشی صحافیوں کے غلام ہوں گے۔