مسلمان ہیں، غور کیوں نہیں کرتے؟

 مسلمان ہیں، غور کیوں نہیں کرتے؟
 مسلمان ہیں، غور کیوں نہیں کرتے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام مذہب نہیں دین ہے قرآن اللہ کا دیا وہ تحفہ ہے جو روز محشر تک جوں کا توں رہے گا۔ اللہ کے پیارے رسولؐ نے اپنے زمانہ حیات کے دوران عملی مثالیں قائم کیں اور راہ نجات بھی بتائی دین اسلام در حقیقت انسانیت ہی کا مکمل نمونہ ہے۔ دکھ ہوتا ہے جب ہماری اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے اغیار طعنہ دیتے ہیں۔ اب تو ہم اور ہمارے دانشور یہ کہتے ہیں کہ یورپ و امریکہ والے اگر چند خلاف شرع اور ممنوعات چھوڑ دیں تو وہ مسلمانوں سے بہتر انسان ہیں ایسا کہتے ہوئے ہمیں بالکل حجاب یا شرم نہیں ہوتی کہ ہم خود کو سدھارتے نہیں اور مثالیں اغیار کی دیتے ہیں۔ حضور اکرمؐ کی سیرت مبارکہ نمونہ اور سراسر انسانیت ہے۔ ان کی عملی زندگی کا مطالعہ اس دور کے حوالے ہی سے نہیں اب تک گزرنے والے حالات کے مطابق بھی کرنا چاہئے۔ حضورؐ نے قیادت کے حوالے سے بھی بہت کچھ بتایا اور بعد کی زندگی اور حالات سے بھی آگاہ کیا ان کا فرمان ہے کہ امت مسلمہ جب تک الٰہی احکام کے مطابق زندگی گزارے گی تب تک قیامت برپا نہیں ہو گی اور اگر کردار ہی درست نہ رہے تو روز محشر جلد بھی آ سکتا ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ریت کے میدانوں میں آسمان کو چھوتی عمارتیں بنیں گی اور ریت سونا اگلے گی۔ تاہم لوگوں کے اخلاق کمزور ہوں گے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا اور ہم کو آگاہ کیا کہ ان کے بعد قیامت اور دجال کی آمد سے پہلے 34 کی تعداد میں ایسے افراد آئیں گے جو جھوٹے اور بے ایمان ہوں گے لیکن لوگ ان پر یقین کریں گے۔ ہم اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسے کئی افراد آ چکے اور ہمارے سامنے بھی رہے، ایران میں تو  خاتون بھی ظاہر ہوئی اور حسن بن صباح کا ذکر تو بہت سن چکے اس شخص نے تو جنت بھی بنائی اور لوگوں کو سیر بھی کرائی۔ آج خودکش بم دھماکوں کا دور ہے اور ذہنی طور پر تیار کئے گئے بیمار لوگ خود کو اڑا کر دوسروں کی جان لیتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حسن بن صباح کے فدائین اس کے اشارے پر قلعہ کی دیوار سے کود کر خودکشی کر لیتے اور اس کی ہدایت پر زہر آلود خنجر لے کر اس کی طرف سے بتائے گئے ہدف کو قتل بھی کرتے تھے۔ یوں نہ صرف ماضی بعید بلکہ ماضی قریب اور حال کے دور میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں فرامین رسولؐ موجود ہیں اور آج ہم جو کچھ بھی بھگت رہے یہ ہماری نافرمانی کا نتیجہ ہے ہم اتنے بڑے منافق ہو گئے ہیں کہ یہ سب مانتے ہوئے بھی عمل سے گریز کرتے اور قیامت کو قریب کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم اور ہمارے معاشرے کا بیشتر حصہ اتنا منافق ہے کہ جھوٹ بول کر اسے سچ اور درست قرار دینے کے لئے بھی دلائل دیتا ہے اور ہم جیسے لوگ ان کے ساتھ اتفاق بھی کرتے ہیں۔


یہ بھی عرصہ سے سوچتا چلا آ رہا ہوں کہ میں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ پرہیز گار حضرات میں بھی گزارا اور دنیا بھی دیکھی خصوصی طور پر اس صحافتی پیشے کے 58 سے ساٹھ سال کے دوران جو دیکھا سنا اور پرکھا اس سے تو حواس متاثر ہوئے ہیں۔ قارئین آپ اور میں ان لوگوں میں شامل ہیں جو حالات سے بری طرح متاثر ہیں ذرا غور فرمائیں تو ہمارے سیاست دان جو رہبری کے دعویدار ہیں وہ ہماری تقدیروں کے فیصلے کرتے ہیں اور ہمارے مقدر میں بھوک اور بیماری آ چکی ہے ذرا غور فرمائیں اور سوچیں یہ جو حضرات قوم اور ملک کے غم میں پھول کر کپا ہو رہے ہیں اور ان کے وزن بڑھ چکے ہیں ان کو روٹی، روز گار کا کیا غم ہے کیا ان کو گرمی اور سردی کے موسم متاثر کرتے ہیں؟ کیا یہ ہماری طرح رکشاؤں اور ویگنوں کے مسافر ہیں اور کیا یہ بھی پیدل چل کر اپنا پسینہ بہاتے ہیں کسی شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو چھوڑیں ذرا غور کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ جو حضرات ہم عوام کے نام پر غم کھا کھا کر ”موٹے“ ہو رہے ہیں ان کو کس بات کی فکر ہے کیا ان کو بجلی اور گیس کے بڑھتے نرخ متاثر کرتے ہیں اور کیا بازار میں ہوئی گرانی کے اثرات بھی ان کے کسی عمل سے ظاہر ہوتے ہیں۔


یہی حضرات ہمارے محترم اور ہمارے رہنما ہیں اور ہمارے دکھ درد کے ساتھی ہونے کا اعلان کرتے ہیں ان کے دل میں درد اتنا ہے کہ الیکشن الیکشن کھیل کر ملک کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے یہ اتنے ہمدرد اور با ذوق ہیں کہ مذاکرات کی تین نشستوں کے بعد بھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائے اور قوم کو پھر سے ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس حوالے سے کوئی بھی کم نہیں۔ کیا کسی نے اس بات پر غور کیا کہ اب جو آئینی اداروں کے درمیان سخت کشیدگی اور محاذ آرائی شروع ہو چکی یہ سیاست کا پر تو نہیں؟ اعلیٰ ترین عدلیہ اور پارلیمینٹ کے درمیان جو کشمکش جاری ہے اسے کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے یہ محاذ آرائی مرے کو مارنے والی بات ہے پہلے ہی ملک میں کون سا سکھ ہے کہ یہ دکھ بھی دیا جا رہا ہے۔ پارلیمینٹ میں آج بعض حقائق کے حوالے سے سچ بھی کہا جا رہا ہے جب نظریہ ضرورت اور زیر التوا مقدمات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ان محترم سیاسی راہنماؤں سے یہ تو پوچھا جا سکتا ہے کہ حضور آپ نے خود کتنی بار نظریہ ضرورت کے محافظوں اور منتخب وزیر اعظم کو پھانسی لگانے والوں کا ساتھ دیا اور آج پارلیمینٹ کی حرمت یاد آ گئی ہے۔ عدلیہ کے حوالے سے یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایک ایسی اپیل کا فیصلہ سنایا گیا اور مجرم کو بری کر دیا گیا جس کا انتقال ہوئے بھی آٹھ سال ہو گئے تھے کیا عدلیہ میں اوپر سے نیچے تک سب اچھا ہے کہ آئینی اداروں کی محاذ آرائی ہو۔


قوم اس تمام تر صورت حال کے اندر بے بس ہے اور یوں بھی حالیہ سیاست ایسی ہے کہ اختلاف سے ذاتی دشمنی تک پہنچ چکی اور قوم کے ہر شعبہ میں واضح تقسیم نظر آ رہی ہے کیا ایسا عدم اتفاق ہمارے ملک میں ترقی کا ذریعہ بن سکتا ہے؟
اس وقت ہمارے ملک کی معاشی صورت حال یہ ہے کہ عالمی سطح پر اسے سری لنکا کے مساوی قرار دیا جا رہا ہے اعتراف کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف امریکی آشیر باد پر ہمیں ناچ نچا رہا ہے اور وہ معاہدہ ہونے نہیں دیا جا رہا جس کی بنیاد پر دوسرے مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کو بھی آسانی ہوتی ہے کہ وہ تعاون کریں۔ ہم مجبور ہوتے ہوئے بھی اندرونی اختلاف ختم کر کے ایک جگ بیٹھ کر اپنے اختلاف ختم نہیں کر پائے، ایک دوسرے کو الزام دیئے جا رہے ہیں اور سیاسی محاذ آرائی میں خلل نہیں آنے دے رہے۔ دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے اور دشمن تاک لگائے بیٹھا ہے کیا یہ سب اس بات کا تقاضہ نہیں کرتا کہ ہم سب کچھ بھول کر ملک کی بقاء کے لئے اکٹھے ہو جائیں؟ قارئین! اگر یہ حضرات ایسا نہیں کرتے تو پھر ہمیں بھی اپنے رویوں پر غور کرنا ہوگا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ سب کب تک چلنے دیا جائے گا۔
آج صورت حال بہت خراب ہے اور اس کی درستگی کے لئے مکمل قومی یکجہتی کی ضرورت ہے اگر ہماری جماعتیں اور سیاسی راہنما حالات کا جائزہ لے کر یہ محسوس کرتے ہیں تو کیوں نہیں سب اختلافات بالائے طاق رکھ کر اتحاد اور اتفاق رائے کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے۔

مزید :

رائے -کالم -