’’بھلائی کے کام‘‘

دین کامقصد انسانوں کی خیر خواہی ، خدمت اور بھلائی ہے ۔دین کا پیغام یہ ہے کہ لوگوں کو جہنم کی آگ میں گرنے سے بچایا جائے۔۔۔ اگر کسی کا گھر جل رہا ہو، اس کو جلنے سے بچایا جائے تو یہ خدمت اور بھلائی کا کام ہے ، اگر وہ خودموت کے بعد آگ میں گرنے والا ہو تو اسے آگ سے بچانے کی فکر کی جائے یہی ایک انسان کا اہل ایمان کے دوسرے بھائی کے لئے بھلائی کا سب سے بڑا کام ہے۔ بھلائی کے کاموں کا بڑا وسیع دائرہ ہے ۔فرد کا بھلائی کرنا ،بھلائی عام کرنا ،لوگوں کو بھلائی کی جانب راغب کرنے کا مائنڈ سیٹ ضروری ہے، یہی امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ بعض صورتوں میں انسانوں سے بھلائی کے کام کا ذکر ایمان کے ساتھ ساتھ ہی نہیں، اس کا ایمان سے پہلے ذکر کیا گیا ہے۔۔۔سورۃ الیل) 92:5۔(10۔۔۔ میں اللہ کا فرمان ہے، ’’جس نے راہ خدا میں مال دیا ،خدا کی نافرمانی سے پرہیز کیا اور بھلائی کو سچ مانا ،اس کو ہم آسان راستے کے لئے سہولت دیں گے‘‘۔ قرآن کریم میں بعض آیات، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل کی تعمیر ہی یہ ہے کہ بندہ اللہ کے بندوں کی خدمت کرے ان سے بھلائی خیر خواہی کی روش اپنائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جسے سیدنا ابو ہریرہؓ نے روایت کیا ہے کہ ’’جو شخص کسی مومن کی دنیا میں کوئی تکلیف رفع کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف رفع کرے گا۔ جو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے گا ، اللہ تعالیٰ دنیا و آخر ت میں اس کے لئے آسانی فرمائے گااور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی عیب پوشی کرے گا۔
اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے ۔جو شخص طلب علم کے لئے سفر کرے، اس کے عوض اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرمائے گا۔ جب کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے کسی گھر میں کتاب اللہ کی تلاوت اور تعلیم کے لئے جمع ہوتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ، اللہ تعالیٰ کے فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر اپنے ہاں موجود مخلوق میں کرتا ہے ، جسے خود اس کا عمل پیچھے چھوڑ دے اس کا نسب اسے آگے نہیں لا سکتا‘‘۔۔۔ (صحیح مسلم :2699)۔۔۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ اپنے بھائی کی مدد ہر حال میں کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ نے بیان کیا ہے کہ ہم غزوہ تبوک میں تھے، مہاجرین میں سے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کو لات مار دی۔ انصاری نے کہا کہ اے انصاریو دوڑو اور مہاجر نے کہا اے مہاجرو دوڑوتو رسول اللہﷺ نے اسے سنا اور فرمایا کہ کیا قصہ ہے ؟یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے ۔لوگوں نے بتایا کہ یارسول اللہ ؐ ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات مار دی ہے، آپ ؐنے فرمایا اس طرح جاہلیت کی پکار کو چھوڑدو کہ یہ نہایت ناپاک باتیں ہیں۔عصبیت کا ذہن اور عمل انسانوں کے معاشرے کو تباہی اور بھلائی کے تصور کو غارت کر دیتا ہے ۔قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں متعدد مسائل کا ذکر اور انسانی بھلائی کے لئے رہنمائی ملتی ہے ۔
شفیق و مدد گار: مؤمن آپس میں رحیم و شفیق اور ایک دوسرے کے مددگار اور بھلائی کے دلدادہ ہوتے ہیں ۔رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو قوت پہنچاتا ہے اورآپ ؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کودوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا ۔آپ ؐ کا فرمان ہے کہ ظلم کرنا حرام ہے اور ظلم کرنے والے قیامت کے دن اندھیرے میں ہو ں گے ۔
خدمت خلق : انسانی بھلائی کا بہت ہی اہم کام خدمت خلق ہے۔ ان اعمال کی فضیلت بیان ہوئی ہے ۔کسی کی پریشانی رفع کرنا اللہ کو پسند ہے، اس لئے عام انسانوں کی تکالیف کو دور کرنے کے لئے خدمت و بھلائی کرتے رہنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ کی مخلوق حتیٰ کہ جانوروں پربھی شفقت و رحمت کرنے کا بڑا اجر و ثواب ہے ۔ دین اور انسانوں کی خدمت اور بھلائی میں مؤمن کو بہت ہی احتیاط اور ایسے جذبے سے سرشار ہونا چاہئے، جس میں مسلسل محنت ،صبر اور دینی جذبہ للہیت اور اخلاص ہو ۔رسول اللہ ؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، ان پر اوجھڑی لاددی گئی ،لیکن آپ ؐ نے ہر قسم کی سختیوں کا سامنا صبر سے کیا ،لیکن انسانوں کی بھلائی اور خدمت کا کام ترک نہیں کیا، اس لئے مخالفین بھی صادق و امین کہنے پر مجبور ہو گئے ۔
تنگ دستی پر آسانی : انسانی بھلائی کے لئے یہ راہنمائی ملتی ہے کہ کسی تنگدست پر آسانی کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا و آخرت میں آسانیاں فرمائے گاجو دوسروں سے معاملات میں خوش اسلوبی اختیار کرتا ہے، نبی ؐ نے اس کے حق میں رحم کی دعا کرتے ہوئے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم کرے جو خریدو فروخت کرتے وقت خوش اسلوبی اختیار کرے اور مطالبہ کرتے وقت بھی خوش اسلوبی سے مطالبہ کرے ‘‘۔۔۔ (بخاری:2076)۔۔۔ آپ ؐ کے فرمان کو ابوہریرہؓ نے روایت کیا ہے کہ جو کوئی تنگدست کو رعایت ومہلت دے یا اسے معاف کردے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عرش کا سایہ نصیب کرے گا، جس دن اس کے سائے کے علاوہ کسی اور چیز کا سایہ نہیں ہو گا‘‘۔۔۔ (ترمذی:1306)
عیب چھپانا: ایک مسلمان کو اگر کسی مسلمان کے کسی عیب کا پتہ چل جائے تو اس کی تشہیر کرنے کی بجائے اس پر پردہ ڈالنا اور چھپانا چاہیے، یہ بھی مسلمان کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی ہے ۔رسول اللہﷺ کا فرمان ہے، ابن عباسؓ نے روایت کیا ہے کہ ‘‘ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب ظاہر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے عیب ظاہر کرے گا، یہاں تک کہ اسے گھر میں ہی رسوا کردے گا‘‘۔۔۔ (سنن ابن ماجہ :2546)
علم کی فضلیت : طلب علم کی بڑی فضلیت ہے، اس سے انسانوں کی بھلائی کی شاہراہیں تعمیر ہوتی ہیں۔ اسلام سے قبل عرب معاشرے پر جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی ،عرب کے لوگ تعلیم وتعلم سے یکسر بیگانہ تھے آفتاب اسلام طلوع ہو ا تو اس کی اولین شعاؤں نے بے علمی کا اندھیرا ختم کر دیا ۔۔۔ ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘۔۔۔ (القلم :96:1) ۔۔۔طلوع اسلام کے وقت مکہ میں کل سترہ افراد لکھنا پڑھناجانتے تھے، لیکن اسلام کی بدولت تعلیم کا رواج اس قدر تیزی سے بڑھا کہ قلیل مدت میں صحرا نشین بدو علم کے کاروانوں کی رہبری کرتے نظرآئے ۔صحابہ کرامؓ ایک ایک حدیث کی تلاش میں مہینوں کا سفرطے کیا کرتے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ علم ہی زندگی کا اصل اثاثہ ہے۔ ایسا علم جس میں حق سے آشنائی اور ایسا نظام تعلیم جس میں طبقاتی کشمکش نہیں، انسان کو انسانیت کی معراج اور انسانوں کی خدمت کا شعوردیناتعلیم ہی انسانوں کی بھلائی کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔
قرآن کا فہم : قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب اور آخری رسول ؐ کے ذریعے دین کی تکمیل ہو گئی ۔قرآن کریم کی تلاوت اور اللہ کے گھر میں بیٹھ کر اس کے فہم پر غور و فکر کرنا ایسا عمل ہے جس کے لئے رسو ل اللہ ؐ کا فرمان ہے :’’تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو خود قرآن پڑھے اور دوسرے کو پڑھائے۔۔۔ (حدیث بخاری :5027)۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی اسی میں ہے کہ قرآن و سنت کا نظام انفرادی اور اجتماعی زندگی میں غلبہ اختیار کرے،اقامت دین کی جدوجہد میں کام کرنا بڑی بھلائی ہے ۔
نجات کا ذریعہ:’’بے شک اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ متقی ہے‘‘۔۔۔ (الحجرات:49:13)۔۔۔ رسول اللہ ؐ نے ایک دفعہ اپنے خاندان والوں کو خطاب فرمایا توآپؐ نے نام لے لے کر کہا کہ اے خاندان قریش،اے بنو عبدالمطلب ، اے عباسؓ(رسولؐ اللہ کے چچا)،اے صفیہؓ(رسولؐ اللہ کی پھوپھی)،اے فاطمہؓ بنت محمدؐ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچالو میں اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا‘‘۔۔۔ (بخاری ،مسلم : 2753،26)۔ یعنی سب انسان حضرت آدم ؑ کی اولادہیں، ان میں فرق مراتب صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ اولاد، ایمان اور اعمال صالح کی صفت رکھتی ہو گی تو پھر اولاد کی نیکی والدین کے لئے رفع درجات کا باعث ہو گی۔قرآن کریم کی سورۃ طور پر اس کی صراحت موجود ہے ۔ یہ دنیا اللہ کی عبادت اور مخلوق کی خدمت کی جگہ ہے اور وقت کا ایسا وقفہ ہے، جہاں ابدی زندگی کے پھل کا بیج لگا یا جاتا ہے ۔انسانی بھلائی کا بڑا کام یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی صحیح رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ کانام،اس کے احکامات اور ختم المرسلین ؐ کے پیغام کو عام کیاجائے ۔اللہ کے دین کو عام کرنے اور انسانوں کی بھلائی کے لئے خدائی مشن میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے انتھک محنت بلا جھجک جاری رکھی جائے ۔اپنے اس فرض کی ادائیگی کے لئے حیلوں بہانوں کی آڑ میں چھپنے سے زیادہ محتاط رہنا چاہئے۔انسانی بھلائی کے اعلیٰ مقاصد پر نظر ہو اور راستے کی مشکلات، رکاوٹوں کو عبور کرنے کا گر سیکھنا چاہئے۔
آپ ؐ کو انسانیت کی راہنمائی اور بھلائی کا فرض سونپا گیاتھا ۔آپؐ نے اللہ کے تمام احکامات ایک ایک کرکے سب لوگوں تک پہنچا دئیے۔یہ بہت ہی مشکل کام تھا، تاہم رسول اللہ ؐ نے اسے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے انجام دیا ،انسانوں نے سکون پایا اور آپؐ نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔آپؐ نے حجۃ الوداع میں ایک لاکھ مسلمانوں سے خطاب کیا،مقدس آواز عرفات کے میدان میں گونج رہی تھی ،لوگوں کے کانوں تک پہنچ رہی تھی، روز قیامت تک اس کی گونج باقی رہے گی ۔آپؐ نے فرمایا کہ :اے لوگو! میں ایک مشن کے ساتھ تم لوگوں کے پاس آیا۔میں نے بہت سی باتیں بیان کیں ،کل اللہ تعالیٰ کے حضور پوچھا جائے گا کہ کیا میں نے اپنا مشن پورا کر دیا یا نہیں، تم اس بارے میں کیا گواہی دوگے؟ آج ہم میں سے ہر مرد اور عورت ،جوان و پیر غور کرے کہ اس وقت انسان ،اہل ایمان کن بحرانوں ،مشکلات ،ذلت ورسوائی اور نفسانفسی سے دوچار ہیں ، آج کے دور میں بھلائی کا کام یہی ہے کہ اپنی اصلاح کریں ،معاشرے کی اصلاح کریں ، نیکی اختیار کریں ،نیکی عام کریں ،برائی سے اجتناب کریں اور برائیوں و فواحش و بے حیائی کے عوامل کو روکیں ۔نئی نسل ،گھر میں اپنی اولاد وں کی فکر کریں، چنانچہ آج دنیاوی عیش وآرام ،چکاچوند کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے آپ کو شیطانی سوچوں سے پاک کرنا چاہئے،اپنی ذمہ داریوں کو جانیں اور عمل کے لئے کمر بستہ ہوں ۔انسان اور انسانیت سسک رہی ہے ،انسانی خون، خصوصا خون مسلم ارزاں ترین ہو گیا ہے۔ دنیا کی امامت کا فریضہ ادا کرنے والے اغیار کے فکری ،معاشی، تہذیبی غلام بن گئے ہیں ۔انسانی بھلائی اسی میں ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کی طر ف پلٹ آئیں ۔معاشرے میں موجود ہر شخص کی اپنے اپنے محاذ پر ذمہ داری عائدہوتی ہے ۔انسانوں کی تباہی کے مقابلہ میں بھلائی کے لئے نیکی ،نیک اور سلیم الفطرت لوگ متحد ہو جائیں ۔