سیلاب زدگان کدھر جائیں؟

سندھ میں سیلاب متاثرین کی بحالی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی،بلاول بھٹو سیلاب کے نقصانات اور بحالی کا رونا روتے نظر آتے ہیں جن ممالک نے سندھ اور دیگر اضلاع کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے اعلانات کیے تھے وہ امداد بھی ابھی تک نہیں ملی، نگران حکومت اور مسائل میں الجھی ہوئی ہے سیلاب کے کئی ریلے تباہی مچا کر چلے گئے ہیں اور بارشوں سے بھی ملک کے کئی اضلاع شدید متاثر ہوئے تھے چند ماہ پہلے آنے والے سیلاب کے متاثرین کی مشکلات ختم نہیں ہوئی تھیں کہ بھارت نے دریائے ستلج میں پانی کے متعدد ریلے چھوڑ دئے تھے جس سے جنوبی اور وسطی پنجاب کے کئی اضلاع شدید متاثر ہوئے لیکن نگران حکومت ان کی بحالی اور امداد دینے میں ناکام نظر آ رہی ہے پاکستان میں حالیہ بارشوں سے صوبہ پنجاب میں اس سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث تقریبا سات سو دیہات زیرآب آ گئے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سیلابی پانی کی تباہ کاریاں جاری ہیں، اس قدرتی آفت سے اب تک کم از کم تین لاکھ سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، تیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔جس سے غذائی بحران کے خطرات بھی پیدا ہو گئے ہیں نو اضلاع میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔پنجاب کے میدانی علاقوں میں کئی دریا اور ندی نالے بہتے ہیں، پنجاب میں دریائے چناب میں آنے والے ایک بڑے سیلابی ریلے سے بھی کافی نقصان ہوا، بھارت سے آنے والے پانی کی وجہ سے ستلج اور راوی کے دریاؤں میں بھی سیلاب آیا لیکن سب سے زیادہ نقصان کشمیر کے علاقے سے پاکستان میں داخل ہونے والے نالوں میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے ہوا ہے،، سیلاب کی وجہ سے مویشیوں کے لیے چارے کی قلت پیدا ہو گئی ہے نالہ ڈیک میں آنے والا بڑا سیلابی ریلا نارووال اور سیالکوٹ کے علاقوں میں تباہی مچاتا ہوا مریدکے اور شیخوپورہ کے علاقوں تک پہنچ چکا۔
دریائے ستلج میں گنڈا پور کے مقام پر بھارت سے پاکستان میں داخل ہونے والے پانی کی مقدارایک لاکھ کیوسک سے بھی زیادہ تھی جب کہ پچھلے پانچ سالوں میں یہ مقدارپچاس سے پچھتر ہزار کیوسک کے درمیان رہی تھی، دریا کے کنارے حساس علاقوں میں آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پرمنتقل سرکاری عمارتوں کو خالی کروا کر ریلیف کیمپ لگا دیے گئے جب کہ اْدھر دریا کے پیٹ میں بسنے والے ایسے لوگ جو سیلابی پانی سے متاثر ہوئے ہیں، ان کی امداد کے لیے خیمے، خوراک اور ادویات بھی فراہم کی گئی ہیں بر طانیہ میں مقیم بشپ ندیم بھنڈر نے سندھ سیلاب متاثرین کے لیے لاکھوں روپے کا سامان خود تقسیم کروایا انھوں نے جڑانوالہ واقعہ میں بھی عیسائیوں کی مدد کی پنجاب میں شدید سیلاب کا باعث بننے والی حالیہ بارشوں کا سلسلہ اب کافی کمزور پڑ چکا ہے۔ دریائے ستلج تبت کی ایک جھیل راکشاستل سے نکلتا ہے اس کی کل لمبائی 1448 کلومیٹر ہے دریائے ستلج ہمالیہ کی گھاٹیوں سے گزر کر ہماچل پردیش کی ریاست میں 900 میل تک کے علاقے کو سیراب کرتا ہوا، ضلع ہوشیار پور کے میدانی علاقوں میں آ جاتا ہے۔ یہاں سے ایک بڑی نہر کی شکل میں جنوب مغرب کی طرف بہتا ہوا دریائے بیاس میں گر کر پاکستانی پنجاب کے ضلع قصور سے پاکستانی علاقہ میں داخل ہوتا ہے اور اوچ شریف سے ہوتا ہوا پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں ضم ہوجاتا ہے یہ مقام بہاولپور سے 62 کلومیٹر مغرب میں ہے۔ دیپالپور کے نزدیک سلیمانکی ہیڈورکس سے گزرتا ہوا بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔ نواب بہاولپور نے اپنی ریاست کو زرخیز بنانے کے لیے دریائے ستلج سے نہریں نکالیں، جن کا پانی نہ صرف زمینوں کو سیراب کر رہا ہے بلکہ صحرائے چولستان کے کچھ علاقوں میں فصلیں اگانے میں استعمال ہوتا ہے۔ 1960ء کے سندھ طاس معاہدہ کے تحت اس دریا کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ ہندوستان نے دریائے ستلج پر بھاکرہ بند تعمیر کیا ہے، جس سے450,000 کلو واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اور اس کا پانی زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان نے دریائے ستلج سے سرہند کینال اور وادی ستلج کے نام سے نہری منصوبے تعمیر کرکے علاقے کو زرخیز بنا دیا ہے۔
اس دریا کے پانی سے بھارتی صوبوں پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں زرعی زمین سیراب کی جاتی ہے۔ دریائے ستلج میں بھارت سے پاکستانی علاقے میں پانی اب صرف سیلاب کی صورت میں داخل ہوتا ہے کیونکہ بھارت اسے "فلڈ ریلز دریا"کے طور پر استعمال کرتا ہے۔1849ء میں سکھوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ سے پہلے یہ دریا ایک سرحد کا کام انجام دیتا تھا۔ کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے ستلج، دریائے سندھ سے مل جاتا ہے۔ زمانہ قدیم میں دریائے ستلج تحصیل احمد پور شرقیہ کے قصبہ اچ شریف کے نزدیک سے گزرتا تھا۔
بہت سے جانور حالیہ سیلاب کی وجہ سے مر چکے ہیں فصلیں تباہ ہو گئی ہیں دریائے ستلج کی تاریخ بیان کرنے کا مقصد سیلاب کی جنوبی پنجاب میں وجوہات کی نشاندھی کرنا ہے، بہاولنگر، وہاڑی اور لودھراں میں سیلاب سے سیکڑوں دیہات ڈوب چکے۔ ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔دریائے ستلج میں بھارت سے آنے والا ایک اور ریلا گنڈا سنگھ والا اونچے درجے کے سیلاب کی وجہ سے لودھراں میں مختلف علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔محکمہ تعلیم نے دریا کنارے آباد کئی اسکولز غیر معینہ مدت تک بند کردیے ہیں، متاثرین سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ کوئی ریلیف کیمپ لگا ہوا ہے نہ کوئی امداد ملی ہے۔