والئی ملتان حمید لودہی امیر ناصرالدین سبکتگین کے ساتھ اخلاص رکھتا تھا اس کی خدماتِ شائستہ بجالاتا تھا۔ پوتا ابوالفتح داﺅد بھی اپنے دادا کے طریقہ پر چلتا تھا اور سلطان کی اطاعت کرتا تھا۔ مگر جب بلدہ بھٹیز کے محاصرہ میں سلطان مصروف تھا تو اس نے خارج ازعقل حرکات شروع کیں۔ صلاحِ وقت دیکھ کر سلطان محمود غزنوی اس سال تو کچھ بولا نہیں‘دوسرے سال میں سلطان محمود غزنوی کو اس کی خبر ہوئی کہ ابوالفتح قرمطی اپنی خباثتِ نفس سے ملتان کے باشندوں کو قرمطی بنانا چاہتا ہے تو بندگانِ خدا کو الحاد اور زندقہ سے بچانے کے لئے اس نے حکم دیا کہ مسلمانوں کا لشکر تیار ہو۔ وہ یہ لشکر لیکر ملتان کی طرف برسات میں روانہ ہوا۔ بارش سے دریا چڑھے ہوئے تھے اس سے سلطان کے ساتھیوں کو دشواریاں پیش آئیں۔ سلطان نے ہند کے راجہ آنند پال سے درخواست کی کہ وہ اس کو پنے ملک میں سے گزرنے دے۔ راجہ نے درخواست کو منظور نہ کیا اور مقابلہ کے لئے کھڑ ہوا جس کا نتیجہ اُس کے حق میں زہر ہوا۔ پھر اس کا یہ ارادہ بنا کہ اوّل آنند پال کا جھگڑا چکائے اور نیچا دکھائے۔ باوجود اس کہ جنگلوں پر راجہ کا بڑا اقتدار تھا مگر سلطان نے درختوں کو کاٹنا‘آگ لگانا اور آدمیوں کو کا قتل عام ایسا شروع کیا کہ راجہ کمین گاہوں میں بھاگنے دوڑنے لگا۔ جہاں جہاں یہ راجہ بھاگ کر جاتا وہیںاُس کے تعاقب میں سلطان جاتا۔ راجہ کے ملازموں کو یا تو جنگل اور درون کے درندے شکار کرتے یا بھاگ کر کشمیر میں پناہ لیتے۔سلطان نے درون تک تعاقب کیا تو آنند پال کشمیر بھاگ گیا۔ جب ابوالفتح والئی ملتان نے راجہ آنند پال کا یہ حال دیکھا کہ اس طرح سلطان کے آگے بھاگیا پھرا تو اس نے جانا کہ میری حقیقت کیا ہے کہ میں سلطان سے برسرِ مقابلہ آسکوں اس لئے اس نے یہ ارادہ کیا کہ جتنا مال ہے‘ اس سب کو ہاتھیوں پر لاد کر سراندیپ چلا جاﺅں اور سلطان کے لئے ملتان خالی چھوڑ جاﺅں مگر سلطان کب اس کو فرصت دیتا تھا‘ اس نے ملتان کا محاصرہ کیا۔ابوالفتح متحصن ہوا۔ سات روزتک محاصرہ رہا۔ ابوالفتح نے منت سماجت کر کے ان شرائط پر صلح کرلی کہ بیس ہزار درہم سرخ سال نذر دیا کروں گا اور الحاد سے احتراز کرکے حکام شرعی کو جاری کروں گا۔ سلطان نے ان شرائط کو اس کئے منظور کرلیا کہ ارسامان جاذب حاکم ہرات نے قاصد دوڑا کر سلطان کو خبر دی تھی کہ لشکر ایلک آ پہنچا ہے اور خرابی مچا رہا ہے۔ اس سبب سے سلطان جلد غزنی کو روانہ ہوا۔ مہمات بھٹنڈہ(وادی ہند) راجہ سکھ پال کے حوالہ کر گیا۔
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہر مذہب کا یہ قاعدہ ہمیشہ چلا آتا ہے کہ جتنی مدت اُس پر گزرتی ہے اتنی اس کی تفریق ہوتی ہے‘یعنی بدعتی فرقے نئے نئے پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ مذہب اسلام بھی اس قاعدہ سے متشنٰی نہ تھا۔ اس میں بھی بدعتی فرقے پیدا ہونے شروع ہوئے‘نعض فرقوں نے وہ بدعات اختراع کیں کہ اصل اسلام کا حصّہ ان کے مذہب میں تھوڑا ہی باقی رہا۔ ان بدعتی فرقوں میں سے فرقہ قرمطی ہے‘وہ فرقہ اسمعیلیہ کی ایک شاخ سے گو ان دونوں فرقوں کے مسائل میں فرق ہے مگر مو¾رخ اپنی لاعلمی سے ایسا ان کو خلط ملط کرتے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی مراد کس فرقہ سے ہے۔
اس عبداللہ کے مریدوں میں ایک احمد تھا‘جس کا نام بعدازاں قرمط ہوا۔ اس کا عروج 278ھ میں ہوا۔ وہ قرمطی مذہب کا بانی ہے۔ قرمط کے معنی عربی خط کے باریک اور تنگ لکھنے کے ہیں کام کے نزدیک کہنے کے اسی سبب سے احمد کو قرمط کہتے ہیں کہ وہ پوشیدہ و باریک طور پر مذہب سکھاتا تھا۔ اسی کے نام سے اُُس کے فرقے کا نام قرمظی ہوا‘جس کی جمع قرامطہ آتی ہے۔ اُس نے شہری و جنگلی قوموں کے جن کا کچھ مذہب نہ تھا اور عقل سے بھی خارج تھی‘ اپنے دین کی طرف دعوت دی اور نامہ لکھا۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم فرج بن عثمان رہنے والا قریہ نصرانیہ کا لکھتا ہے کہ میں سچ کی طرف سے جو کلمہ ہے دعوت کرتا ہوں‘وہی مہدی تھا‘وہی احمد بن محمد بن حنیفہ تھا‘ وہی جبرئیل تھا‘انسان کی صورت سچ مچ بنا ہے اور مجھے کہا کہ تو داعی (دعوت کرنے والا)ہے اور حجتہ ہے اور ناقہ صالح ہے اور آخر عیسیٰ ہے۔ یحییٰ بن زکریا اور روح القدس ہے۔ اُس کو یہ بتایا کہ نماز کی چار رکعتیں ہیں دو طلوع شمس سے اور دو غروب شمس سے پہلے۔ہر نماز کی اذان یہ ہے کہ موذن تین دفعہ کہے اللہ اکبر اور”دو مرتبے کہے اشہدان لاالہ الااللہ اور اشہدان آدم رسول اللہ اور اشہدان نوخا رسول اللہ اور اشہدان عیسیٰ رسول اللہ اور اشہدان محمد رسول اللہ اور اسہدان احمد محمد بن الحنیفہ رسول اللہ بیت المقدس کی طرف قبلہ ہو اور اتوار کا دن یوم سلب سے اس دن تعطیل چاہئے اور ہر نماز میں سورہ فتح پڑھے جو احمد بن محمد بن محمد بن حنیفہ پر نازل ہوئی ہے۔ روزہ دو روزہ مہرجان اور ینمروز کے دن رکھے۔ شراب حرام‘خمر حلال‘جنابت سے غسل کرنا لازم نہیں آتا۔ مگر نماز کے واسطے ضرور فرض ہے۔ جس جانور کے کچلی اور دانت ہوں‘ اس کا کھانا درست ہے۔اس فرقہ نے 290ھ میں شام پر بڑا ہولناک حملہ کیا 311ھ میں بصرہ اور کوفہ کو لوٹا اور ابو طاہر کو اپنا پیشوا بنا کر 319ھ میں شہر مکہ کو لے لیا اور قتل عام کیا پھر حجرا سود کو لے گئے اور بیس برس تک اپنے قبضہ میں رکھا۔ خاندان عباسیہ کا بیسواں خلیفتہ الراضی سالانہ روپیہ اُن کو لئے دیتا تھا کہ وہ حاجیوں کو حج کرنے دیں۔
ہلاکو اور منگو خان نے اس فرقہ قرمطیہ اور اسماعیلیہ کے زن و مرد بچوں کو قتل کیا۔ابو ریحان بیرونی نے لکھا ہے کہ قرمطی مشرق میں وادی سندھ میں پھیل گئے اور ملتان کے بُتِ اعظم کو توڑا۔ محمود غزنوی نے اسی فرقہ کا ملتان سے منہ کالا کیا۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہاں سے بالکل خارج نہیں ہوئے۔ محمود غزنوی نے پہران کو 571ءمیں ملتان سے نکالا ہے۔ 634ءمیں دہلی میں اُن کا زور ہوگیا تو یہاں کی جامع مسجد میں بہت آدمیوں کو قتل کیا مگر آخر قرمطیوں میں سے کوئی باقی نہ رہا۔ سب قتل ہو گئے۔
پہلے لکھا ہے کہ سلطان محمود غزنوی اور ایلک خان کے درمیان بہت اتحاد تھا مگر جب سلطان محمود غزنوی دور دراز کے فاصلہ پر مہمِ ملتان میں مشغول تھا۔ تو ایلک خان نے ملک خراسان کو خالی دیکھا۔ طمع دامنگیر ہوئی۔ سیاہ وش تگین خان کو جو صاحب جیش اور اُس کا خویش تھا‘ لشکر فراوان دیکر خراسان بھیجا اور جعفر تگین خان کو دارالملک بلخ پر شحنہ بنایا۔ اس زمانہ میں سلطان محمود غزنوی کی طرف سے ہرات میں ارسلان جاذب اس لئے مقیم تھا کہ اگر کوئی حادثہ رونما ہو تو وہ غزنی جاکر تعرض اعداءسے اس کو مسنون رکھے۔ جب واقعہ پیش آیا تو وہ غزنی گیا اور سیاہوش تگین ہرات آیا اور حسن ابن نصر کو منیشاپور میں استخراج مال کے لئے بھیجا۔ اعیان خراسان نے یہی اس سبب سے کہ سلطان کی غیبت پر مدت گزر گئی تھی اور کچھ اُس کی خبر اُن کو نہ تھی اور متوحش خبریں اس کی سنتے تھے سلطا ن کے دشمنوں سے دوستی اور اتحاد شروع کیا۔ ابوالعباس ابن احمد نے غزنی سے حدود بامیان تک حفظِ مسالک اور ضبط ممالک میں بہت احتیاط کی اور اس حدود کے مداخل و مخارج ہوشیار اور کارگزار آدمیوں کے سپرد کئے پھر ملتان کو قاصد دوڑائے کہ اس حادثہ سے سلطان کو مطلع کریں۔ سلطان نے مہمات وائے ہند سکھپال کے حوالہ کیں نہت جلد سلطان غزنی پہنچا اور ایک لشکر با شکوہ اور کثیرالانبوہ لیکر بحر مواج کی طرح بلخ میں آیا۔ جعفر تگین تو اس کے ہول سے ایسا بھاگا جیسے لاحول سے شیطان بھاگتا ہے اور ترمذمین پہنچا۔ سلطان نے اُس کے سرراہ دس ہزار سپاہ دیکر ارسلان جاذب کو بھیجا۔ سیاوش تگین کنارجیون پر آیا مگر دریا اس وقت طغیانی پر تھا۔ اس لئے یہاں سے پہر گیا اور مرومین پہنچا تاکہ بیابان کی راہ سے ماوراءالنہر میں چلا جائے۔ ہوا نہایت گرم تھی‘فرخن گیا تو محسن ابن طاق نے اسے روکا مگر سیاوش تگین نے اُسے شکست دی اور اُس کے دو ٹکڑے کر دیئے اور طرفین سے بہت آدمی ہلاک ہوئے مگر ارسلان جاذب نے اُس کو سرخس میں ٹھہرنے نہیں دیا۔ وہ منیشاپور کی طرف روانہ ہوا۔ہر منزل میں ارسلان جاذب نے اُس کا تعاقب کیا اور اس کا قافیہ تنگ کیا۔ اُس کا مال اسباب بہت ضائع کیا۔سیاہوش تگین نے شمس المعانی قابوس سے التجا کی بہت مشکل سے بیابان کی راہ سے مرد کی راہ اختیار کی۔ ارسلان کے انتظار میں سلطان مرومین مقیم تھا۔ اُس نے سنا کہ بیابان کی راہ سے سیاوش تگین اس طرف آتا ہے۔ سلطان نے ابوعبداللہ طائرکو لشکرِ عرب کے ساتھ اُس کے پیچھے بھیجا۔ بیابان کے اندر جہاں پانی کا نام نہ تھا عبداللہ نے لشکرِ عرب سے سیاوش تگین کو جا لیا۔ اس کے بھائی کو سات سو آدمیوں کے ساتھ قید کیا۔ اُس کو بند گران میں غزنی روانہ کیا۔ سیاوش تگین جان بچا کر چند آدمیوں کے ساتھ ایلک خان سے جاملا۔ اس سے ایلک کو بڑا غصہ آیا اور قدر خان نے ملک ختن کو فریاد نامے بھیجنے شروع کئے۔ قدر خان نے اپنے ملک میں دور دور سے فوج بلائی۔ ماوراءالنہر اور ترکستان کی فوجیں جمع ہوکر روانہ ہوئیں۔ سلطان محمود غزنوی کو جب یہ خبر ملی کہ طخارستان میں یہ ہجوم ہو رہا ہے تو وہ ؓبلخ کی طرف روانہ ہوا۔ ترکی خلجی‘ہندی‘افغانی‘غوری‘لشکروں کو جمع کرکے بلخ سے چار فرسخ پر ایک وسیع و عریض موضع پر فروکش ہوا۔ ایلک خان اور قدرخان بھی اُس کے نزدیک اُترے۔ جابنین سے جوانوں نے میدان جنگ میں جولانیاں شروع کیں۔ دن بھر لڑے رات کو اپنی اپنی جگہ پھرے۔ دوسرے روز طرفین سے اپنی میمنہ و میسرہ و قلب درست کرکے میدان جنگ میں آئے۔ پھر تو لڑائی ایسی ہوئی کہ کشتون لگ گئے اور ایک خون کا دریا صحرا میں بہنے لگا۔ سلطان نے ہاتھی پر بیٹھ کر سپاہ قلب ایلک خان پر حملہ کیا۔ ایلک خان کے صاحب رایت کو ہاتھی نے گھوڑے پر سے اٹھا کر ہوا میں پھینکا اور جب نیچے گرا تو دونتوں سے دو ٹکڑے کر ڈالا۔ سلطان کے ہاتھی دشمنوں کے لشکر پر ٹوٹ پڑے فوج کے اندر گھس گئے اور گھوڑوں پر سے سواروں کو سونڈ پر اٹھاتے نیچے گراتے اور پاﺅں سے مسل ڈالتے۔ ان ہاتھیوں سے ایلک خان کا لشکر سنبھلنے و ٹھہرنے نہیں پاتا تھا کہ دونوں لشکر ٹھہر گئے۔ غزنی والوں نے ایسی تیزی سے حملہ کیا‘ہزاروں کی جان لی اور دشمن کی فوج چاروں طرف بھاگ گئی جیحون سے پار اُتر کر اپنے ملک کو گئی۔ 397ھ،1006ءمیں ایلک خان کو ایسی شکست ہوئی کہ پہر اُس نے خراسان کا نام نہیں لیا۔ سلطان کو غنائم موفور ہاتھ لگیں۔
تاریخ یمینی میں لکھا ہے کہ ایلک خان کو جب شکست ہوئی تو سلطان محمود غزنوی نے اس کے تعاقب کا ارادہ کیا‘جاڑے کا موسم تھا۔ ان اطراف میں سردی ایسی پڑتی تھی کہ لشکر کے اکثر سپاہیوں jd9اس کی برداشت کی تاب نہ تھی‘اس تعاقب پر وہ راضی نہ تھے۔ مگر جب سلطان محمود غزنوی خود بہ نفس نفیس اس بات میں ساعی تھا تو ناچار سب کو اس کا ساتھ دینا پڑا۔ تیسری رات تھی کہ برف پڑی‘سخت جاڑا ہوا سلطان کے واسطے ایک بارگاہ کھڑی کی گئی۔اس میں انگیٹھیاں بہت جلائی گئیں اور ایسی گرمی ہوئی کہ اکثر امیروں نے چاہا کہ جاڑے کے کپڑے اُتار ڈالیں۔ لطیفہ اس اثناءمیں و لچک آیا۔ سلطان نے ہنسی سے کہا کہ تو باہر جا اور جاڑے سے کہہ کہ تو جانکنی کس لئے کرتا ہے ہم یہاں ایسے گرمی کے قریب ہوگئے ہیں کہ کپڑوں کو اتار کر پھینکتے ہیں‘لچک کر فوراً باہر گیا پھر آیا اور زمین پر بوسہ دے کر عرض کیا کہ میں نے سلطان کا پیغام جاڑے کے پاس پہنچا سکتا مگر رات ایسی خدمت کرونگا کہ کل حضرت سلطان اور اُن کے مقربین کو اپنے گھوڑوں کی خدمت خود کرنی پڑے گی‘کہیں میری اس حرکت سے آپ مجھ سے خفا نہ ہو جایئے گا۔ سلطا ن نے اس بات کو سن کر بظاہر تو اس وقت ہنسی میں ٹال دیا مگر دل میں وہ اپنی اس عزپمت سے پشیمان ہوا اور مراجعت کا ارادہ کیا۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ اُسی شب کو ہندوستان سے خبر آئی کہ سکھ پال‘جس کے کو آب سارا یا نواسہ شاہ کہتے ہیں وہ مرتد ہوکر اپنے اصلی دین پر پھر گیا۔ ہم نے پہلے لکھا ہے کہ ابوالفتح لودی سے سلطان محمود غزنوی صلح کرکے جب غزنی جانے لگا تو وہ اپنا قائم مقام راجہ سکھ کو کر گیا تھا۔ یہ راجہ پشاور میں مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا اور ابو علی سمجوری کے ہاتھ پر مسلمان ہوا تھا۔ اُس کا نام فارسی کتابوں میں طرح طرح سے لکھا ہے۔ آب سار۔ آب شار۔ نواسہ شاہ۔ سلطان کو جب خبر پہنچی کہ نواسہ شاہ مرتد ہو گیا تو وہ سنتے ہی کوچ پر کوچ کرتا ہوا ہندوستان آیا اور دفعتاً ابو نصر نے نواسہ شاہ کو گرفتار کرلیا۔ سلطان اُس کو غزنی لایا۔ اور ساری عمر قید خانہ میں رکھا اس سے بہت سا روپیہ لیا۔ اُس کے نام کی بہت سی مثالیں ہیں مگر سب مٰیں بہتر یہ ہے کہ وہ راجہ جے پال کا نواسہ تھا اور شاہ کا لفظ اُس کے نام کے ساتھ بولا جاتا تھا اس لئے نواسہ شاہ اُس کا نام تھا۔(جاری ہے)
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 11 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں