سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 9
صوبہ پنجاب کی نظامت
سلطان محمود غزنوی نے پنجاب کو سلطنتِ غزنی کا ایک صوبہ قرار دیا۔ اس نے اس صوبہ کے مرکز سے دور دراز ہونے کی وجہ سے یہاں ایک نیا نظام قائم کیا۔ایاز کے بعد فوجی اور انتظامات اختیار علیحدہ علیحدہ حکام کے سپرد کئے۔ انتظامی امور ابواسمن علی المعروف بہ قاضی شیرازی کے سپرد کئے اور سپہ سالاری کے عہدہ پر علی اری یارک کو مامور کیا لیکن گورنر اور سپہ سالار دونوں کا ایک دوسرے سے سروکار نہ رکھا۔ دونوں براہِ راست غزنی کے ماتحت تھے اور پرچہ نویسی پر ابوالحکم نام کے ایک افسر کو مقرر کیا۔
اگرچہ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان کو اپنا وطن نہیں سمجھا‘اس کو غزنی پیارا تھا اسی کو اس نے آباد کیا۔ تاہم ہندوستان سے اس کا ایک رابطہ پیدا ہوچکا تھا۔ ہندوستان کے جنگی ہاتھیوں پر اس کو ایسا ناز تھا کہ وہ خلیفہ بغداد کو بھی دھمکی دینے سے باز نہ آیا اور الفیل ما الفیل کا عبرت آموز جواب پایا۔ اس نے اپنی ساری عمر میں کبھی کسی ایک ہندو کو بھی جبر سے مسلمان نہیں بنوایا اور نہ امن کی حالت میں کسی ایک مندر کو توڑنے اور بت شکنی کرنے کا کوئی واقعہ پیش آیا۔ اس نے ہندوستانی مقبوضات کے لئے اپنا سکہ ہندی زبان میں جاری کیا اور اپنی فوج میں ہندوﺅں کو معزز عہدوں پر بھی سرفرار کیا۔ ہندوراﺅ اس کی فوج کا اعلٰی افسر تھا۔ تو لک بھی رکنِ سلطنت تھا۔
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 8 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جب سلطان محمود غزنوی کو بھائی کی لڑائی سے فراغت ملی تو وہ بلخ کی طرف متوجہ ہوا۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خراسان میں امیر الامرائی کا منصب آل سامان کی طرف سے کہتا تھا‘ امیر منصور نے بکتوزوں کو تجویض کر دیا تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے بخارا میں امیر منصور کے پاس ایلچی بھیجا اور اپنی رنجش کا اظہار کیا۔ امیر نے یہ جواب دیا کہ بلخ و ہرات و ترمذکی امارت تم کو دی گئی اور بکتوزوں کو خراسان کی‘وہ بھی ہماری دولت کا بندہ ہے اُس کو معزول کرنا مناسب نہیں۔ سلطان نے ابوالحسن حموی کو بہت سے تبرکات اور تحائف دے کر بخارا بھیجا اور امیر منصور سے یہ پیغام کیا کہ مجھے ایسی توقع ہے کہ آپ کی اور میری دوستی کا سرچشمہ بے التفاتی کی خس و خاشاک سے کم نہیں ہوگا میرے اور میرے باپ کے ٰحقوق آل سامان پر ہیں‘ جو ضائع نہیں جائیں گے۔ رشتہ الفت ختم نہ ہوگا اور بنائے متابوت و مطاوعت منہدم نہیں ہوگی۔ جب ابوالحسن جموی بخارا میں پہنچا تو امیر منصور نے اس کو منصب وزارت کی نوید سنائی۔ وہ تو سفارت کو چھوڑ اپنی وزارت کے شغل میں مصروف ہوا۔ پیغام کے جواب کی طرف اصلاً متوجہ نہ ہوا‘ سلطان بانصرور نیشاپور کو روانہ ہوا۔ جب اس کے ارادہ سے بکتوزون واقف ہوا تو ایک عرضداشت بخدا بھیج کر صورت حال کو بیان کیا۔ امیر منصور غرور و جوانی کے زور کے سبب سے سپاہ جمع کرکے خراسان کی طرف روانہ ہوا اور سرخس تک برابر چلا گیا‘کسی جگہ نہیں ٹھہرا۔ سلطان محمود غزنوی اگرچہ جانتا تھا کہ اس سے مقابلہ کرنے کی طاقت امیر منصور نہیں رکھتا لیکن کفرانِ نعمت کی بدنامی کی سرزنش کے خوف کر سے نیشاپور واپس چلا آیا اور مرغاب میں گیا۔ بکتوزوں نے فائق کی صلاح سے غدر مچایا‘ امیر منصور کو گرفتار کرکے اندھا کیا اور عبدالملک‘کہ خرد سال تھا تخت پر بٹھایا۔ سلطان محمود غزنوی سے ڈر کر مرو چلا گیا۔ سلطان نے اس کا تعاقب کیا۔ بکتوزوں اور فائق دونوں نے ملکر سلطان کا مقابلہ کیا۔ سلطان محمود غزنوی کو فتح ہوئی۔ ان نمک حراموں کو شکست ہوئی۔ عبدالملک کو فائق لیکر بخارا پہنچا۔ اور بکتوزوں نے نیشاپور کی راہ لی اور کچھ دنوں بعد بخارا آیا اور پراگندہ لشکر جمع کرنے کی فکر میں ہوا۔ اس اثناءمیں فائق بیمار ہوکر مرگیا۔اور ملک خان کا شغر سے بخارا کی طرف متوجہ ہوا۔ عبدالملک اور اس کے تمام متعلقین کا کام کیا۔ دولت آل سامان کو(جو ایک سو اٹھائیس سال تک فرمانرو رہی۔) انتہا کو پہنچایا تو سلطان محمود غزنوی بلخ‘ خراسان کی حکومت میں مصروف ہوا۔ چاروں طرف اس کی جوانمردی اور شجاعت کی دھوم مچ رہی تھی۔ خلیفہ بغداد القادر بالند عباسی نے خلعت گرانمایہ ارسال کیا۔ امین الملتہ یمین الدولہ کا خطاب اُس کو دیا۔ 390ھ میں بلخ سے ہرات اور ہرات سے سیستان آیا۔ یہاں کے حاکم حنیف بن احمد کو مطیع کرکے غزنی آیا۔ پھر اسی زمانہ میں ہندوستان کی طرف متوجہ ہوا‘ اُس کے چند قلعے والئے اور غزنی چلا گیا۔ ماوراءالنہر میں آل سامان کو ایلک خان نے خلاص کیا اور ایک خط سلطان محمود غزنوی کو لکھا جس میں مملکتِ خراسان پر حکمرانی کی مبارک باد دی۔ ان دونوں بادشاہوں میں دوستی و یگانگی کی بِنا مستحکم ہوئی۔ سلطان محمود غزنوی نے بہی ابوالطیب سہیل بن سلیمان کو سفیر بنا کے ایلک خان کے پاس بھیجا اور اس کو بہت سے جواہرتحفہ بھیجے۔ غرض مدتوں تک ان دونوں بادشاہوں میں دوستانہ خط و کتابت رہی اور ایک دوسرے کو تحائف بھیجتے رہے مگر آخر میں یہ عداوت سے بدل گئی۔
اب سلطان محمود غزنوی خود مختار ہوگیا۔ آل سامان سے جو کچھ تعلق تھا‘ اس سے بے تعلّق ہوا۔ خطبون و سکون سے اُس کا نام نکالا۔ اس کی جگہ اپنا نام جاری کیا۔ سب گہر کے لڑائی جھگڑوں سے فارغ ہوا۔ سلطنت کا انتظام اور گہر کا بندوبست کیا‘ پھر وہ ارادہ کیا جو ان دنوں مسلمانوں میں سب سے بڑا سمجھا جاتا تھا اور فیروز مند بادشاہوں کے شایان تھا یعنی اسلام کا ہندوستان میں پھیلانا اس کے ہندوستان پر بارہ حملے مشہور ہیں۔ مگر وہ سترہ دفعہ ہندوستان آیا۔ تاریخوں میں ان مہمات میں اختلاف ہے۔ کوئی کسی مہم کو اول لکھتا ہے‘ کوئی اس کو پیچھے تحریر کرتا ہے۔ فرنگستانی محققین نے ان کی ترتیب میں اور مقامات کی تشخیص میں اپنی فکرِ دقیق سے بہت سے عقدے حل کئے ہیں۔ ہم ان کو بھی لکھتے ہیں۔
فرشتہ اور نطام الدین احمد نے لکھا ہے کہ”390ھ کے قریب سلطان ہندوستان کی طرف متوجہ ہوا اس نے کئی قلعے فتح کئے اور ان میں اپنی طرف سے حاکم مقرر کئے۔ ان(مہم اول) فتوحات کے بعد وہ غزنی واپس آیا مگر اس کا ذکر باریخ یمینی میں نہیں ہے۔“
391ھ۔ 1001ءمیں سلطان دس ہزار چیدہ سوار لیکر غزنی سے ہندوستان کی طرف روانہ ہوا۔ پشاور کے قریب اس کے باپ کا قدیمی دشمن جے پال والئی لاہور بارہ ہزار سوار تیس ہزار پیدل اور تین سو زتجیر فیل لیکر لڑنے کے لئے کھڑا ہوا مگر اس نے شکست پائی اور اپنے پانچ ہزار آدمیوں کی جانیں گنوائیں خود آپ پندرہ عزیزوں کے ساتھ اسِیر ہوا۔ سلطان محمود غزنوی بھنڈہ کے قلعہ کوفتح کرکے مسمار کیا۔ اس کے بعد سلطان غزنین کو چلا آیا تو راجہ جے پال کو ساتھ لایا۔ اس نے خراج و باج کا عہد و پیمان لیا اور چھوڑ دیا۔ اس کے عزیزوں سے بھی فدیہ لیکر رہا کیا۔ جب یہ راجہ رہا ہوکر اپنے ملک واپس آیا تو شکست پر شکست کھانے سے اور قید ہونے سے اس کو شرم آئی یا کوئی مذہبی مسئلہ ایسا تھا کہ جب راجہ دو دفعہ دشمنوں سے ہزیمت اُٹھائے یا اُنکے ہاتھ میں قید ہو تو پہر راج کے قابل نہ ہے اور اس گیاہ کا کفارہ آگ میں جل کر کرے۔ اس نے راج کو اپنے بیٹے آنند پال کو دیا اور خود جلتی آگ میں جل کر خالستر ہوا۔ فرنگستانی محققین نے قلعہ بھٹنڈہ کی تحقیق میں بہت جانفشانی کی ہے‘کوئی ان میں سے کہتا ہے کہ وہ ستلج پار تھا۔ سلطان محمود غزنوی بے روک ٹوک اس دریا کے پار اُتر آیا اور اُس کع فتح کرلیا۔ کرنیل ٹوڈ کہتے ہیں”وہ بڑا آباد اور نامی مقام تھا اور لاہور کا راجہ یا لاہور میں یا اس قلعہ میں رہا کرتا تھا۔“سرجان الیٹ نے بعد تحقیق یہ فیصلہ کیا کہ قلعہ پھٹنڈہ کوئی نیام مقام نہیں ہے بلکہ وہ بائیں ہندیا دائیں ہند ہے جیسا کہ تاریخِ یمینی میں لکھا ہے” یہ ایک مقام دریائے سندھ کے مغربی کنارہ پر مشہور معروف ہے۔ اٹک سے پندرہ میل‘ لاہور اور پشاور کے قدیمی شارع اعظم پشاور سے تین منزل کے فاصلہ پر واقع ہے‘وہ مشرقی قندھار کا دارالسلطنت تھا۔“ابوالفد امورِ بیرونی اور بیہقی نے سکندر اعظم کو اس کا باقی قرار دیا ہے۔اب اس کو ہنڈ کہتے ہیں‘ آگے معلوم ہوگا کہ اس بات کے ماننے سے کئی تاریخی عقدے حل ہوتے ہیں۔ سلطان محمود غزنوی 393ھ میں سیستان گیا اور وہاں کے حاکم حنیف کو غزنی لے آیا پھر ہندوستان کی طرف اس کی توجہ ہوئی۔ 395ھ میں بلدہ بہاطیہ بھٹیز(تیسری بھٹیز کی فتح) کی طرف روانہ ہوا۔ حدود ملتان میں دریا سندھ سے گزر کر بھٹیز کی دیوار کے نیچے پہنچا۔ اس شہر کی فصیل اونچی اور مضبوط تھی لیکن اُس کے گرد خندق تھی۔ وہاں کے راجہ بج رائے کو اپنے لشکر پر بڑا غرور تھا۔ ناصرالدین سبکتگین کی طرف سے جو سرحد پر حاکم مقرر تھے‘نہ ان کی وہ اطاعت کرتا‘ نہ راجہ جے پال کی شرئطِ فرمانبرداری کی بجالاتا تھا۔ جب اس نے سلطان محمود غزنوی کا لشکر دیکھا تو وہ اپنے شہر سے لشکر اور ہاتھیوں سمیت نکلا کہ اُن سے مسلمانوں کے کشکر کو ڈرائے۔ سلطان تین دن اور رات برابر اس سے لڑا لیکن اس میں بھی معلوم نہ ہوا کہ منصور کون ہے اور مقہور کون قریب تھا کہ مسلمانوں کو شکست ہو جائے۔ اُس لئے چوتھے روز سلطان نے منادی کی کہ ّآج جنگ سلطانی ہوگی چاہئے کہ جو آدمی نوکر ہیں یا جوان و پیر سب لڑائی کے لئے مستعد ہوں اور میدان جنگ میں آئیں۔ راجہ بجے رائے کہ سن کر اپنے بت خانہ میں گیا اپنے معبُد سے امداد چاہی، ہندوﺅں کو تکمیلِ صلاح کے لئے حکم دیا اور روز مگاہ میں بڑی شان و شوکت سے آیا۔ مسلمانوں نے اس پر حملہ کیا۔ چاشت سے سہ پہر تک خوب حرب و صرب رہی‘کشتون کے پشتے لگے۔ کسی لشکر پر آثارِ عجز وضعف نہیں ظاہر ہوئے۔ سلطان محمود غزنوی اوّل درگاہ معبُد میں متوجہ ہوا۔ پھر اُس نے خود دشمن کی سپاہ کے قلب پر حملہ کیا اور لشکر کو ہزیمت دی‘راجہ بجے رائے حصار میں آیا۔حصار کا بھی سلطان نے محاصرہ کیا۔ خندق کے بہرنے کا حکم دیا۔ راجہ ایسا مضطفر اور مستحیر ہوا کہ اپنے خاص ملازموں کے ساتھ رات کو پیادہ پا جنگل کو بھاگ گیا اور کسی پہاڑی پر پناہ لینی چاہی سلطان نے سپاہ کو اس کے تعاقب میں بھیجا۔ اس نے جاکر راجہ کو ایسا گھیرا کہ جیسے گریبان گلے کو گھیرتا ہے سوائے اس کے چارہ نہ تھا کہ اس نے خنجر سے اپنے تیئں آپ مار ڈالا۔ پھر محمود غزنوی نے 396 ھ میں ملتان کی تسخیر کا ارادہ کیا۔(جاری ہے)
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 10 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں