سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 8
سلطان محمود غزنوی کا دور حکومت
محمود غزنوی سبکتگین نو شیرواں عادل کی اولاد سے تھا۔ مصنف طبقاتِ ناصری لکھتا ہے۔
”امام ابوالفضل بیہقی می آروکہ فصر حاجی مرد بازرگان بود در عہدِ امارت عبدالملک نوح سامانی سبکتگین رابخرید بہ بخارا برد چو اثار کیا ست و جلادت برناصیہءاوظاہر بود اورا الپتگین امیر حاجب تجرید ودر خدمت الپتگین بہ طخارستان رفت و قتیکہ ایالت طخارستان حوالہ اوشد۔“
خاندانی حالات
سلطان محمود غزنوی کے والد امیر سبکتگین تھے۔ امیر سبکتگین‘ امیر الپتگین کے داماد تھے۔ البتگین امرائے دولت سامانیہ سے تھا اور اس دولت کی طرف سے ملک خراسان کا سپہ سالار رہ چکا تھا۔ سامانیہ سے پہلے مفاریہ خود مختار ہوئے۔ ان ہر دو کی حکمرانیاں ماوراءالنہر کے علاقہ پر تھیں۔ دارالسطنت بخارا تھا۔ صفاریہ اور سامنیہ حکومتوں نے کابل و قندھار تک علاقہ وسیع لرلیا۔ امیر الپتگین مذکور جو امیر ابوالیت سامانی سے خفا ہوکر بخارا سے نکل کر غزنی چلا آیا اور یہاں اپنی حکومت قائم کی۔ یہ شہر کابل سے پچھتر میل جنوب کوہستان بابا کی شاخ گل کوہ پر واقع ہے۔
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سلطان محمود غزنوی
سلطان محمود غزنوی اپنے باپ سبکتگین کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔ جس کا منشاءاپنی سلطنتِ غزنی کو وسعت و استحکام دینا تھا۔ وہ اپنی 33سال کی حکمرانی میں کامیاب ہوا۔ اس نے اپنے چاروں طرف کی سلطنتوں کو چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم‘کو ہلا ڈالا اور پنی حکومت کے حدود آگے بڑھاتا گیا۔ اس نے غزنی کی ایک طرف‘کا شغر کی اسلامی ایلخانی حکومت کو، دوسری طرف خود اپنے آقا سانیون کی سلطنت‘ تیسری طرف ویلمیوں اور طبرستان کی حکومت آل زیاد کو مشرقی سمت میں غوریوں کی سرزمین کو جن میں سے کچھ مسلمان ہو چکے تھے‘ پھر اسی مشرقی سمت میں ملتان اور سندھ کی عرب حکومتوں کو‘ادھر لاہور اور ہندوستان کے بعض دوسرے راجاﺅں کی سلطنتوں کے کھنڈر پر اپنی غزنی عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی۔
سلطان محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملے
سلطان محمود غزنوی کو دوسری سمت کی مخالف حکومتوں سے جب فرصت ملتی ہندوستان پر چڑھ آتا۔وہ اپنے دور میں سب سے پہلے 390ئ‘1000ءمیں ہندوستان میں داخل ہوا۔ جنوبی ہند کے جاٹوں کی سرکوبی کی اور چند سرحدی ضلعوں پر قبضہ کیا۔ دوسرے سال پھر آیا۔ پشاور کے آگے خیمہ زن ہوا۔ راجہ جے پال نے شکست کھائی اور گرفتار کرلیا گیا۔سلطان محمود غزنوی نے بڑھ کر دوسرے شہر ہند پر قبضہ کرلیا۔ جے پال نے خراج دے کر رہائی حاصل اور اپنی سلطنت آنند پال کے سُپرد کرکے چتا میں بیٹھ کرجل مرا۔
395ھ میں سلطان نے بجے رائے والی بھیرہ سے جنگ آزمائی کی ۔ اس نے بھی فرار کی حالت میں خودکشی کرلی پھر بھیرہ اور اس کے مضافات سلطنتِ غزنی میں ملائے۔ ملتان کے والی ابوالفتوح باطنی نے بجے رائے کی مدد کی ناکام کوشش کی تھی۔ 396ھ،1005ءمیں سلطان محمود غزنوی اس کو سزا دینے آیا۔ رائے آنند پال ابوالفتوح کی مدد کے لئے آیا مگر ناکام ہوکر فرار ہوا۔ ابوالفتوح نے سلطان محمود غزنوی کی اطاعت قبول کی۔ سلطان محمود غزنوی نے آنند پال کے بیٹے سکھ پال کو بھیرہ کا گورنر بنا دیا تھا۔ وہ اسلام لے آیا تھا‘ پھر مرتد ہوگیا۔ سلطان محمود غزنوی 398ھ،1007میں اس کی گوشمالی کے لیے آیا اور حبسِ دوام کی سزا دی۔
پھر399ھ‘1008ءمیں معرکہ کہ آرائی ہوئی۔ اس مرتبہ آنند پال کی مدد پر اجین‘گوالیار‘کابجر‘قنوج‘دہلی اور اجمیر کے راجہ اور ملتان کے والی داﺅد فوجیں لے کر آئے۔ جب الوطنی کا عام جذبہ پیدا ہوا۔ عورتوں نے اپنے زیور بیچ کر چرخے کات کر اور محنت مزدوری کرکے لڑائی میں مدد دینے کے لئے روپیہ بھیجامگر ہندوستانی راجاﺅں کی پچھلی خانہ جنگیوں کا غبار دل سے دور نہیں ہوا تھا۔ وہ کسی ایک کی کمان میں فوجوں کو نہ دے سکے۔ سلطان محمود غزنوی راجپوتوں کی اس ٹڈی دل فوج کا مقابلہ کیا۔ ہندوستانیوں کے قدم اکھڑ گئے۔ سلطان محمود غزنوی کے خلاف یہ آخری مشترکہ قومی مظاہرہ تھا‘جس میں نہ صرف ہندو بلکہ ہندوستان میں عربوں کی واحد حکومت بھی شریک تھا۔ مگر ہندوستان کو شکست ہوئی۔ اس کے بعد رایانِ ہند یکے بعد دیگرے مغلوب ہوتے گئے اور بیش بہا خزانے خصوصاً مندروں کے جواہرات فاتح کے ساتھ آتے گئے۔ اس حملہ میں سلطان محمود غزنوی نے نگرکوٹ(کانگڑہ)کے قلعہ پر قبضہ کرلیا۔
اس کے بعد 401ھ،1010ءمیں ابوالفتوح داﺅد کا خاتمہ کرنے ملتان آیا اور اس کو گرفتار کرکے ساتھ لے گیا۔ اس کے بعد اس نے 404،1013ءمیں راجہ بھیم پال سے قلعہ نندو نا لیا۔405ھ،1014ءمیں تھانیسر پر قبضہ کیا۔ پھر 406ھ،1015ءمیں کشمیر کی ناکام مہم پیش آئی۔ اس کے بعد 409ھ،1017میں قنوج اور متھرا پر قبضہ کیا۔ پھر 412ھ،1020ءمیں کشمیر پر دوبارہ حملہ آور ہوا۔ 413ھ 1021میں پورے پنجاب کو غزنی کا صوبہ بنانے کی نیت سے انتظامات کے ساتھ آیا اور پنجاب کا الحاق غزنی سے لرلیا۔آنند پال کے لڑکے ترلوکن پال کا انتقال ہو چکا تھا۔ راجہ بھیم اس کا جانشین تھا۔وہ پنجاب چھوڑ کر رائے اجمیر کے پاس چلا گیا‘جہاں 1026ءمیں اس نے وفات پائی۔
سلطان محمود غزنوی نے لاہور کا پہلا حاکم اپنے غلام ایاز کو بنایا۔ اس کے بعد414ھ،1022ءمیں گوالیار اور کانجر کو قبضہ میں لے لیا۔ پھر 417ھ،1026ءمیں ملتان کے قزاقوں کی سرکوبی کی اور 419ھ،1027،میں جاٹوں کی چھیڑ چھاڑ کا بدلہ لینے کے لئے آیا اور کامیاب رہا۔ اس طرح سلطان محمود غزنوی کے براہِ راست قبضہ میں پنجاب‘سندہ اور ملتان کے صوبے آگئے۔ کشمیر‘فنوج‘ کانجر‘گوالیار اور گجرات اس کے باج گزار بنے۔
مندروں پر حملہ آوری کا حقیقی سبب یہ تھا کہ مندر دولت کا خزانہ تھے۔ زرد جواہر کا انبار تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان کے ان حملوں میں بے شمار مندروں سے دولت حاصل کی۔ سومتات میں دو سومن وزنی سونے کی زنجیر لٹکتی تھی‘جس میں گھٹیاں آویزاں تھیں۔ جس حجرے میں بُت تھا‘اس کی قندیلوں کو روشن کرنے کی ضرورت یہ تھی بلکہ روشنی کے لئے اس میں جواہر و لماس جڑے ہوئے تھے جن کی جگمگاہٹ سے ہمہ دم روشنی رہتی تھی۔سلطان محمود غزنوی کے یہ حملے بت شکنی کے لئے نہیں‘حصولِ زر کے لئے تھے اس مقصد میں وہ اپنی توقعات سے زیادہ کامیاب رہا۔(جاری ہے)
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں