جنم جنم کا گھر چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں، بزگوں کی”ڈھیریاں“ خونی رشتوں کا انتظار کرتی رہتی ہیں،ان سے ہمیشہ کیلئے ناطہ توڑنا دل گردے کا کام ہوتا ہے

 جنم جنم کا گھر چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں، بزگوں کی”ڈھیریاں“ خونی رشتوں کا ...
 جنم جنم کا گھر چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں، بزگوں کی”ڈھیریاں“ خونی رشتوں کا انتظار کرتی رہتی ہیں،ان سے ہمیشہ کیلئے ناطہ توڑنا دل گردے کا کام ہوتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط30:
 ہجرت کا سفر
 جنم جنم کا گھر چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ بزگوں کی”ڈھیریاں“ خونی رشتوں کا انتظار کرتی ہی رہتی ہیں۔ان ڈھیریوں (قبروں) سے ہمیشہ کے لئے ناطہ توڑنا دل گردے کا کام ہوتا ہے اور قیام پاکستان پر مسلمانوں کو یہ گھونٹ بھی کڑوا کرنا پڑا تھا۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ، لٹ لٹا کر، عزیزوں کی قربانیاں دے کر، اپنے قریبی رشتوں کے لاشے سر راہ چھوڑ کر، اپنی اغوا کی گئی خواتین کا غم دل سے لگا کر، لاکھوں لوگ پیدل، بیل گاڑیوں پر، غرض جیسے بھی ہوا پاکستان چلے آئے تھے۔ میرا”دادکا“ خاندان بھی ان میں شامل تھا۔ تقسیم ہند سے قبل کا معزز گھرانہ کچھ دن والٹن کیمپ میں گزار کر آدھا خاندان جھنگ،کچھ لائل پور(موجودہ فیصل آباد) اور کچھ لاہور میں آباد ہوا۔ بابا جی جھنگ چلے گئے تھے۔وہاں سب کچھ تھا یہاں کچھ بھی نہیں۔ایک نئی جدو جہد کرنا تھی، نئی شنا خت بنانی تھی۔ابا جی میں ہمت بھی تھی، ماں کی دعائیں بھی تھیں اور اللہ کی مدد بھی۔
پاکستان میں؛
 پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو میرے والد کی عمر 20 برس تھی۔ ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔ ہندوستان میں چھوڑی جائیداد کے کلیم تھے۔ بہنیں تھیں اور ایک چھوٹا بھائی۔ ساری ذمہ داری اس شخص پر آن پڑی جو خود کھلنڈرا نوجوان تھا۔ تعلیم ادھوری رہ گئی۔ کلیم کے لئے دفتروں کے چکر لگانے پڑے۔ یہ تو بھلا ہو سٹیلمنٹ کمشنر اختر حسین صاحب کا جنہوں نے ابا جی کو دادا کے نام سے پہچانا اور ان کے مشکل کام آسان ہو گئے تھے۔ اختر حسین صاحب دادا کو ذاتی طور پر خوب جانتے تھے۔ مجھے ابا جی نے بتایا”جب میں سٹیلمنٹ کمشنر کے دفتر پہنچا تو میری درخواست نامکمل کہہ کر مجھے دوبارہ آنے کو کہا گیا۔ میں سائیکل سٹینڈ سے اپنا سائیکل لے رہا تھا تو دفتر کا چپراسی آ یا اور کہا؛”آپ کو صاحب یاد کر رہے ہیں۔“ میں گیا تو مجھے سٹیلمنٹ کمشنر کہنے لگے؛
" are you son of that Malik Rasheed who was in irrigation department."
والد نے جواب دیا؛ yes۔ وہ بولے؛”where is his elder son۔ والد نے جوب دیا۔ sir standing before you.۔ اپنے سٹینو کو بلایا۔ والد کے کلیم کی درخواست لکھوائی اور اگلے دو دنوں میں ان کے کلیم کے معاملات حل کر دئیے۔اختر حسین صاحب کا یہ رویہ دراصل ان کی اپنے مرحوم دوست(میرے دادا) سے محبت کا اظہار تھا۔
براؤن آنکھیں، گھنے گھنگھریالے بال، درمیانہ قد، درمیانی مونچھیں، سخت جان، دھن کے پکے، ارادے کے سچے، لجپال، خوددار، سمارٹ، خوش لباس، درویشانہ طبعیت۔ یہ ہے میرے والد عبدالحمید کا مختصر تعارف۔         
خاندانی معاملات سلجھے، کچھ ٓاسودگی ہوئی تو ابا جی نے کچھ اپنے بار ے سوچا اور ٹرانسپورٹ کا کاروبار شروع کیا۔ دوٹرک تھے جو لاہور پشاور کے درمیان چلتے۔ والد بھی کبھی پشاور جاتے تھے۔وہاں وہ سرحد کے ’”آئرن مین“(خاں عبدالقیوم خاں) کی انتظامی صلاحیت کے معترف ہوئے۔خاں صاحب کمال انسان اور شاندار منتظم تھے۔ ابا جی کو کاروبار میں ناکامی ہوئی تو انشورنس کے کام سے منسلک ہو گئے۔ کچھ عرصہ یہ کام کرتے رہے۔پاکستان قائم ہوئے 6 سال ہو چکے تھے لیکن ان کی زندگی میں ابھی بھی struggle  تھی۔ اسی دوران ابا جی سے والہانہ محبت کرنے والے بابا جی انتقال کر گئے تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -