پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے      (3)

   پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے      (3)
   پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے      (3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 طاہر یوسف بخاری کے فائنل امتحان کا مرحلہ گزرا تو مَیں گرمیوں کی چھٹیوں میں والدین کے پاس واہ گیا ہوا تھا۔ صبح ہی صبح کچنار روڈ والے گھر کی بیل بجی اور دیکھا کہ بخاری ڈرائنگ روم کی دہلیز پر قہقہوں کے طوفان کو روکے کھڑے ہیں، ذرا پیچھے دن رات کے ساتھی قیصر ذوالفقار بھٹی۔ ”یار، کمال کر دیا۔ نہ خط نہ ٹیلی فون، اور ٹھائیں ٹھپ دروازے پر۔“ ”ملک صاحب، کل رزلٹ نکلا تو مَیں نے سوچا کہ کامیابی کی اطلاع خود جا کر دی جائے۔ میکلوڈ روڈ سے رات کی فلائنگ کوچ پکڑی اور پھر پنڈی سے واہ۔“ اب پہلے ناشتہ ہوا، پھر چائے کا تانتا بندھا۔ اِس لیے کہ تب ہم پیالیاں نہیں گنتے تھے، چینکیں گنتے تھے۔ یوں تین روز تک ہمارا سرکاری گھر لاہور کے چائینیز لنچ ہوم کا نقشہ پیش کرتا رہا جہاں ایک اتوار مامتا کی شفقت والے ویٹر حبیب نے میرے کان میں کہا تھا کہ آج آپ نے اُنیس سیٹ چائے منگوائی ہے۔ 

 واہ میں باہر نکلتے تو بخاری اور بھٹی کی ہمراہی میں پہلا اسٹاپ پروفیسر افتخار یوسف کا فلیٹ ہوتا۔ ذرا آگے موسیقار خادم حسین اور طبلے پر بھائی نصیب علی کی سنگت۔ وہاں سے کیفے ناز میں، جو ہمارے لیے ’کیفِ ناز‘ تھی، معروف نعت خوان سید منظور الکونین، کہنہ مشق شاعر علی مطہر اشعر اور بشیر آذر کے ساتھ معمول کی بیٹھکیں۔ موخر الذکر اچھے خاصے غزل گو تھے لیکن ہر شام تازہ کلام زبردستی سنانے کی خواہش کے سبب بشیر آذر کی بجائے ’بشیر اوازار‘ کہلائے۔ تینوں دن آخری پڑاؤ آرڈننس کلب میں ڈلا جہاں ساجد پیرزادہ کے بقول، رات گئے کلوزنگ ڈیوٹی ہماری ہی ہوتی۔ ایک صبح میرے اسی سالہ دادا نے شکوہ کیا ”تم نے دوستوں سے ملوایا ہی نہیں۔“ عرض کی کہ ابھی مِل لیں۔ آتے ہی گولڈ لیف کا پیکٹ مہمانوں کی طرف بڑھایا۔ ”نہیں نہیں، بزرگو، یہ نہیں۔“ ہنستے ہوئے جواب ملا ”یار، یہ کوئی اچھی چیز تو نہیں لیکن اگر پیتے ہو تو اِس میں تکلف کیسا؟“چند سیکنڈ میں دھوئیں کے مرغولے اڑنے لگے۔ سبھی خوش کہ بزرگوار اپنے آدمی ہیں۔

 یہی ماحول لاہور سے شرقپور کے نواح میں طاہر یوسف بخاری کے گاؤں رانا بھٹی پہنچ کر مِلا تھا۔ آج کل کے برعکس کسی پیشگی اطلاع کے بغیر ایک جمعرات بھٹی صاحب کو پیچھے بٹھایا اور نیلی سوزوکی کو کِک لگائی۔ پون گھنٹے میں ہم دروازے پر تھے۔ سہ طرفہ قہقہوں کی یلغار میں کِسے یاد رہا کہ یہاں ہمارا بخاری محض انگریزی ادب کا ایم اے نہیں بلکہ سید یوسف شاہ کے نام سے ایک بھاری گدی کا جانشین ہے اور امام مسجد کا بیٹا۔ پر شب بسری کے دوران مجال ہے جو میزبان کی روحانی برتری ہماری فکری رنگ رلیوں میں رکاوٹ بنی ہو۔ صبحدم جمعہ کی چھٹی کا آغاز ایک اور خوشگوار دستک سے دوچار کر گیا۔ دروازہ کھُلا تو کسی طے شدہ منصوبے کے بغیر سہیل قمر علی مرزا جو کہیِں سے ہمارے انقلابی پروگرام کی ٹوہ لگا کر مسافر بس سے رانا بھٹی آن پہنچے تھے۔ بس کاسفر اِس لیے کہ سہیل کو اپنے جرنیلی باپ کی طرف سے، جو گورنر پنجاب کے سینئر مشیر بھی رہے، سرکاری کار پر اُس وقت کے ضوابط کے تحت کبھی کالج تک جانے کی اجازت بھی نہ مِلی تھی۔ 

 اب یہ سوچ کر جھرجھری سی آتی ہے کہ اگر جنرل صاحب کو اُس شام سو سی سی موٹر سائیکل پر ہم تینوں کی لاہور واپسی کا علم ہو جاتا تو ہماری کیا درگت بنتی؟ شاید یہ نیکی کام آگئی کہ رانا بھٹی میں دوپہر کو ’اصلی تے وڈے‘ لسی دار پنجابی کھانے سے پہلے سہیل قمر مرزا نے میری اِس تجویز کی تائید کی تھی کہ ہمیں بخاری کے والد سید مشتاق علی شاہ کی امامت میں نمازِ جمعہ ضرور ادا کرنی چاہیے۔ بعد میں طاہر بخاری کی زبان سے یہ جملہ مزا دے گیا کہ ”اباجی کہتے تھے مجھے تمہارا عینک والا لمبا سا دوست واحد شریف آدمی لگا ہے۔“

 بخاری کے تعارف سے لے کر اُس ’گھُس بیٹھیا‘ تقریب تک کوئی سال بھر کا وقفہ ہے جہاں ’ہم دیکھیں گے‘ کی سوگ میں ڈوبی ہوئی لَے پہلی بار سُننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ فیض احمد فیض کی اِس نظم کو بھرپور عوامی قبولیت بعد میں ملی۔ لیکن ہم نے صبحِ انقلاب اور یومِ حشر کو یکجا کر دینے والا یہ الوہی ترانہ سب سے پہلے پاک ٹی ہاؤس لاہور میں اُس صبح سُنا جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھے ستائیس دن ہوئے تھے۔ اب یاد نہیں کہ صدارت حبیب جالب نے کی یا امین مغل نے، مگر سامعین تیس چالیس سے زیادہ نہیں تھے۔ اقبال بانو کے لیے یہ دھُن اسلامیہ کالج کے شعبہء فزکس والے اسرار احمد نے بنائی تھی۔ وہی اسرار احمد جنہوں نے آئی اے رحمان کے الفاظ میں، اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بکاؤ مال سمجھ کر منڈی کی طاقتوں کے حوالے کبھی نہ کیا۔ اُس روز جی سی (یو) کے ضیاالدین ڈار، انتظار مہدی، قیصر بھٹی، طاہر بخاری اور مَیں ایک ہی قطار میں بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے رہے۔ صرف بخاری نے کہا ”فیض صاحب اپنی غیر موجودگی میں بھی ہمارے قافلہء درد کے سالار بن گئے ہیں۔“

 چند ہفتے گزرے ہوں گے کہ معروف شاعر احمد فراز کے متنازعہ نعتیہ شعر کی گونج میں ہماری بزمِ ادب کے نگران اور اردو کے استاد علی ظہیر منہاس نے لاہور میں فراز کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کے ساتھ شام منانے کا اعلان کر دیا۔ اُس دن سر فضل حسین ریڈنگ روم کے اندر طالب علم گروہوں کے درمیان کھینچا تانی، بخاری صاحب سمیت، محفل کے سبھی شرکا کو مدتوں یاد رہی۔ حمایت اور مخالفت کے شور میں احمد فراز تشریف لائے تو شرارتی عناصر نے لاؤڈ اسپیکر کے تار پر پاؤں رکھ کر ہماری زباں بندی کرنا چاہی۔ طالب علموں کو چھوڑ کر مہمانِ خصوصی سے پہلے کلام پیش کرنے والے واحد ’بزرگ‘ شاعر شاہد ملک تھے۔ احمد فراز ڈائس پر آئے تو زور کا نعرہ لگا ’منکرِ رسول مردہ باد‘۔ ساتھ ہی فراز مرحوم کی گمبھیر آواز گونجی ”سب سے پہلے نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیش کرتا ہوں۔“ پھر وہی نعت سُنا دی جو بھٹو کی پھانسی کے تناظر میں زباں زدِ عام تھی۔ یہ شعر بار بار سُنتے ہوئے بخاری صاحب کا چہرہ تمتما رہا تھا: 

 مِرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا

 مَیں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے

 تب ایم اے کر لینے پر طاہر یوسف بخاری اور قیصر ذوالفقار بھٹی اپنے ’آبائی‘ کمروں سے پسپا ہو کر اسلامیہ کالج سول لائینز کے کریسنٹ ہاسٹل میں مورچہ بند ہو چکے تھے۔ الاٹمنٹ بخاری کے چھوٹے بھائی یونس کے نام پر ہوئی۔ یوں فنی طور پر دونوں غیر قانونی اٹیچ منٹ کے مرتکب تھے، لیکن خدا جانے کِس ہُد ہُد کے مشورہ پر توپوں کا رُخ دائیں بازو کی اُس تنظیم کی طرف کر دیا جو حکومتِ وقت کی حلیف تھی۔ دونوں کا سقوطِ ڈھاکہ گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں ہوا۔ وائی ایم سی اے کی کھڑکی سے دیکھتا ہوں کہ بخاری صاحب نے بغلوں میں دو سلیقے سے تہہ کیے ہوئے بستر سنبھال رکھے ہیں اور بھٹی صاحب کے ایک ہاتھ میں صابن دانی اور شیونگ کِٹ کا مومی لفافہ ہے اور دوسرے میں حوائجِ ضروری والا پلاسٹک کا لوٹا۔ میری پناہ گاہ تو آنکھیں بچھائے ہوئے تھی، مگر مستقبل کا فیصلہ کہیں اور ہو رہا تھا۔ دو ہفتے گزرے ہوں گے کہ بخاری کا زوردار قہقہہ پھر گونجا ”ملک صاحب، احمد کو ڈویژنل پبلک داخل کرانے گیا تھا، وہِیں فُل ٹائم ٹیچنگ کی آفر ہو گئی ہے۔“

  (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -