پی ٹی آئی میں کیا چل رہا ہے؟

   پی ٹی آئی میں کیا چل رہا ہے؟
   پی ٹی آئی میں کیا چل رہا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

٫

 پی ٹی آئی کے اندر اختلافات کی خبریں عید سے پہلے ہی آنا شروع ہو گئی تھیں،عید کے بعد یہ دراڑیں نمایاں ہو گئی ہیں۔ خیبرپختونخوا کو پی ٹی آئی کا گڑھ مانا جا رہا تھا اور خیبر پختونخوا میں ہی پی ٹی آئی قیادت باہم جوتم پیزار ہو گئی ہے۔ صاف چلی، شفاف چلی کا نعرہ لگانے والی پی ٹی آئی کے اکابرین ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے نظر آرہے ہیں۔ایسے میں پی ٹی آئی کے ووٹر سپورٹر ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے ہیں، ان کاخیال تھا کہ عید کے بعد پی ٹی آئی سڑکوں پر ہوگی اور عمران خان کی رہائی کے لئے ایک بڑی تحریک کا آغاز ہو جائے گا، مگر ان کا یہ خواب چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے۔ پارٹی میں ڈسپلن نام کی کوئی شے نظر  نہیں آرہی، اندر کے اختلافات عوام میں ڈسکس ہو رہے ہیں اور کرپشن کے الزامات کی فہرست بڑھتی جا رہی ہے۔ 

دوسری جانب پی ٹی آئی دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک بڑی تحریک چلانے کا تاثر دینے میں ناکام رہی ہے۔ دوبارہ سے پی ٹی آئی نوے کی دہائی  والی پارٹی نظر آنا شروع ہو گئی ہے جو عمران خان سے شروع ہو کر عمران خان پر ختم ہو جاتی تھی۔ پارٹی کا ووٹ بینک سکڑ تا جا رہا ہے اور عمران خان کی بطور وزیر اعظم دوبارہ سے ابھر آنے کی امید معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ عمران خان نے ہر پینترا استعمال کر کے دیکھ لیا، کبھی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کی سعی کی تو کبھی ڈونلڈ ٹرمپ سے دوستی کی دھمکیاں دیں۔ دوسری جانب پارٹی کے سوشل میڈیا نے انہیں سپرمین بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ عمران خان ڈٹ کر کھڑا ہے، نواز شریف کی طرح ڈیل کرکے ملک سے باہر نہیں گیا اور جیل کے اندر بیٹھ کر لیڈر بن گیا ہے۔ مگر یہ دعوے صرف سوشل میڈیا کی حد تک محدود رہے ہیں اور سڑکوں پر اس کی عملی تصویر نظر نہیں آسکی۔ 

اب ستم بالائے ستم یہ کہ خود پی ٹی آئی کے اندر کرپشن کے نام پر ایک دوسرے سے لڑائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ جن دنوں  اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے مخصوص بنچوں سے پارٹی کو ریلیف مل رہا تھا تب ایسا ہی لگتا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جاتے ہی پی ٹی آئی کی کایا پلٹ جائے گی۔ اب تو میڈیا میں کئی ایک حواری عمران خان کی سیاسی حکمت عملی میں کیڑے نکالتے نظر آتے ہیں اور وہ جو کیڑے چھپانے میں لگے ہوئے تھے انہیں پردۂ سکرین سے ہٹادیا گیا ہے۔ کہیں پر کوئی احتجاج ہوا نہ کسی طرف سے کوئی بیان سامنے آیا ہے اور وہ بیچارے گھروں میں بیٹھے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت 9مئی کی تکرار میں کمی آچکی ہے، جنرل فیض حمید پر کوئی بحث کہیں نہیں ہو رہی  اور 9مئی کی بنیاد پر عمران خان کو سزا کا تاثر بھی معدوم پڑ چکا ہے، مگر اس کی جگہ پی ٹی آئی کے اندر کی دھینگا مشتی نے لے لی ہے اور اب پارٹی کے اندر جوتیوں میں دال بٹتی نظر آرہی ہے۔ میڈیا پر بیٹھے ہوئے ناپختہ تجزیہ کار اسٹیبلشمنٹ سے پی ٹی آئی کے مذاکرات پر یوں بات کرتے نظر آتے ہیں جیسے لوگ بھیا کے کبابوں پر کرتے ہیں۔ ان ناپختہ سوچ کے حامل تجزیہ کاروں نے اسٹیبلشمنٹ سے عمران خان کے لئے ڈیل کے تاثر کو خاک آلود کر دیا ہے اور سب کچھ مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ 

پی ٹی آئی کے حامیوں کو ایک بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے حق میں اٹھنے والی جاندار آوازیں بند کردی ہیں۔ وہ بیچارے اسی پر خوش ہیں کہ اس کے باوجود سوشل میڈیا پر بات ہورہی ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ان آوازوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ وہ آوازیں اور شکلیں اب قصہ پارینہ ہو چکی ہیں جن کے دم سے گرمئی بازار میں رونق تھی تو وہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ لوگ تو بات کر رہے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ جلد ہی عوام بھی سوشل میڈیا پر ایسی باتیں کرنا بند کردیں گے۔

پی ٹی آئی کے حلقوں میں ایک ہی تاثر باقی رہ گیا ہے کہ جس دن عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے پر رضا مندی دے دی، ملکی سیاست کا رخ بدل جائے گا۔ وہ اس بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے جس دن عمران خان سے بات کرنے کی حامی بھری، اس کی اپنی ساکھ تباہ ہو جائے گی، کیونکہ عمران خان کو برسراقتدار لانے اور ملک پر مسلط کرنے میں ماضی کی اسٹیبلشمنٹ کو ہی قصوروار سمجھاجاتا ہے۔ محض میثاق جمہوریت کو ملیا میٹ کرنے کے لئے ماضی کی اسٹیبلشمنٹ نے ایک کھیل رچایا تھا جو بری طرح ناکام ہوگیا ہے اور اس کھیل کے اکثر کھلاڑی اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑے ہیں یا پھر عدالتوں کے چکر لگاتے اور اپنی ضمانتیں بچاتے نظر آرہے ہیں۔ 

ایسے میں عمران خان کی کرشماتی شخصیت کے اسیر اذہان اب بھی کسی انہونی کے منتظر ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا اور عمران خان کے لئے بھی کوئی غیبی مدد آئے گی اور ان کی امیدیں بر آئیں گی۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر اس وقت پی ٹی آئی کے اندر جو کچھ چل رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے آئندہ آنے والے دنوں میں اچھے کی امید رکھنا عبث ہے کیونکہ ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو سہار ا دینے کے لئے تیار نظر نہیں آتی ۔ سولو فلائیٹ کے شوق میں پی ٹی آئی سلو فلائیٹ کا شکار ہو گئی ہے جو اس کی سیاسی موت پر منتج ہو سکتی ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -