سیاست کی بے بسی

   سیاست کی بے بسی
   سیاست کی بے بسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 میں سوچ رہا ہوں پاکستانی سماج کہاں غائب ہو گیا۔اِس وقت حالت یہ ہے جو وزیر و مشیر ہیں وہ بھی عوام کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں،اُن کے پاس اُن کے مطالبات و مسائل کا کوئی حل نہیں،عام سیاستدانوں کی تو بات ہی کیا ہے۔وہ اب اپنے ڈیروں پر بھی دستیاب نہیں ہوتے۔کوئی سرکاری افسر ان کی بات نہیں سنتا، حتیٰ کہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو بھی دستار کی حرمت بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ایک سرکاری افسر کے پاس ایک رکن اسمبلی کو باقاعدہ لجاجت کرتے دیکھا کہ اُس کے ساتھ علاقے کا دورہ کر لیں تاکہ تھوڑی سی عزت بحال ہو جائے۔ایک زمانہ تھا یہی ارکانِ اسمبلی افسروں کے سروں پر اس طرح تازیانے برساتے تھے کہ کبھی تحریک استحقاق کے نام پر اور کبھی وزیراعلیٰ کو شکایت کرنے کی دھمکی دے کر اپنے اُلٹے سیدھے کام کرا  لیتے تھے۔اُن کی خواہشات عوامی مفاد کے لئے نہیں ہوتی تھیں بلکہ کسی ایس ایچ او، کسی پٹواری یا خاص کارندے کو اپنے علاقے میں تعینات کرانے کے گرد گھومتی تھیں۔بہت پہلے کی بات ہے سردار محمد چودھری پنجاب کے آئی جی ہوتے تھے۔وزیراعلیٰ نواز شریف تھے،جو ارکانِ اسمبلی کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ملتان کے ایک رکن اسمبلی حاجی محمد بوٹا ہوتے تھے۔وہ اَن پڑھ تھے تاہم اُن میں سیاسی سمجھ بوجھ بہت تھی۔وہ اپنے حلقے میں اِس لئے مقبول تھے کہ لوگوں کے کام کرانے کے لئے خود ہی چھوٹے بڑے افسروں کے پاس چلے جاتے تھے۔ایک بار وہ میری موجودگی میں سردار محمد چودھری سے ملنے آئے۔ شکایت یہ کی کہ ایس ایچ او بڑا کبا (سخت) لا دتا اے۔ وہ پنجابی بولتے تھے۔ سردار صاحب نے پوچھا، اُس نے کیا گستاخی کی ہے، کہنے لگے تھانے میں کسی مسئلے کے لئے گیا ہوں تو اُس نے لوگوں کے سامنے مجھے کہا حاجی صاحب آپ پانچ دس جماعتیں پڑھ لیتے تو زیادہ کامیاب سیاستدان ہوتے۔ ”میری تے بے عزتی ہو گئی“۔سردار صاحب مسکرائے اور حاجی بوٹا کو گلے لگا کر کہا نہیں حاجی صاحب ”آپ تو بڑے بڑے سیاستدانوں پر بھاری ہیں، فوراً ایس ایس پی کو حکم دیا،ایس ایچ او کو ہٹا دیں اور حاجی بوٹا کے مشورے سے نیا ایس ایچ او لگائیں۔مجھے یاد ہے سردار محمد چودھری کا فون بند ہوتے ہی حاجی محمد بوٹا نے جو خاصے فربہ جسم کے مالک تھے بے ساختہ کہا ”اے ہوئی ناں گل“۔ اب ایسے ارکانِ اسمبلی کہاں موجود ہیں کسی سائل کے لئے افسروں کے پاس نہیں جاتے،البتہ اپنے کسی کام کی خاطر افسروں کی چوکھٹ گھسا دیتے ہیں۔ حاجی محمد بوٹا کو سائیکل تک چلانی نہیں آتی تھی، انہیں کوئی بھی اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھا کر کام کرانے لے جاتا، اس کی وجہ سے پورے علاقے میں حاجی بوٹا ایک پسندیدہ کردار تھے۔میں سوچ رہا ہوں آج کے سیاستدان عوام کے پسندیدہ کردار کیوں نہیں رہے؟وہ منہ دکھانے کی بجائے منہ کیوں چھپاتے ہیں،لوگوں کو اپنے حلقے کے نمائندے پر اعتماد ہوتا تھا کہ وہ مشکل وقت میں اُن کا ساتھ دے گا،بعض ارکانِ اسمبلی کے حوالے سے ماضی میں یہ بھی مشہور تھا کہ وہ 1122ہیں۔ایک کال پر اپنے حلقے کا مسئلہ حل کرنے پہنچ جاتے ہیں اب انہیں عوام ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور وہ نجانے کون سی سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہو جاتے ہیں۔

سیاست کا اعتبار جمہوریت سے قائم ہوتا ہے جہاں مضبوط جمہوریت ہو وہاں سیاستدان بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں جمہوریت نے بہت عروج دیکھا ہے، مگر اس عروج کو برقرار نہیں رکھ سکی۔پہلا زوال سیاسی جماعتوں کو آیا، جنہوں نے نظریات پر مصلحت اور مفادات کو غالب آنے دیا۔ لیڈر شپ نے گھٹنے ٹیکے تو اس کے اثرات نیچے تک آئے،عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے سیاستدان اپنے مفادات کے گرداب میں ایسے پھنسے کہ عوام کے ساتھ زیادتی کرنے والے معمولی افسر کے سامنے بھی زبان کھولنے سے ہچکچانے لگے۔میں اس وقت حیران ہوتا ہوں جب کسی حلقے کے عوام ظلم و زیادتی کے خلاف سراپا احتجاج ہوتے ہیں اور اُن میں اس حلقے کا منتخب عوامی نمائندہ نہیں ہوتا۔احتجاج میں شامل نہ ہونا اگر کسی مجبوری کی وجہ سے ہوتا ہے تو کسی اخباری بیان، کسی افسر کے دفتر جا کر آواز اٹھانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا،اب اس لاتعلقی کے بعد بھی اگر کوئی یہ توقع کرے کہ حلقے کے عوام اُس کے نام کی مالا جپتے رہیں،وہ آئے تو اُس کے سامنے کورنش بجا لائیں تو وہ احمقوں کا سردار ہی کہا جا سکتا ہے۔آج کے عوام اب مٹی کے مادھو تو رہے نہیں،اُن کے سیاسی شعور کی حدیں ہمالیہ سے بلند ہو رہی ہیں۔سوشل میڈیا کے اس دور میں شعور کی رو کو روکنا ایک ناممکن سی بات ہے۔ہر نمائندے، ہر جماعت کا ایک ایک عمل عوام کے سامنے آ رہا ہے۔کون کیا کر رہا ہے، کیا تضاد اُس کا کردار اُگل رہا ہے۔یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، گڑھی خدا بخش میں جب بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر خطاب کر رہے تھے تو عوامی شعور اُن سے کچھ اور ہی تقاضا کر رہا تھا۔وہ دیگر باتوں پر اظہارِ خیال کر  رہے تھے،مگر پنڈال سے سندھ میں نہریں نکالنے کے خلاف نعرے بازی جاری تھی۔وہ بلاول بھٹو زرداری سے اُس پر کوئی سخت موقف سننا چاہتے تھے، بالآخر بلاول بھٹو زرداری کو یہ کہہ کر انہیں مطمئن کرنا پڑا  میں اس پر آخر میں اظہارِ خیال کروں گا،کیونکہ پہلے کر دیا تو آپ چلے جائیں گے۔پنڈال میں موجود عوام کو یہ اُمید تھی کہ بلاول بھٹو زرداری اِس مسئلے پر حکومت چھوڑنے کا اعلان کریں، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔اس ایک بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب بڑے سے بڑا لیڈر بھی اپنی کسی سیاسی جادو گری سے عوام کی سوچ کا رخ نہیں بدل سکتا۔

سیاستدان ہمارے سماج کا بلاشبہ بہت اہم طبقہ ہیں وہ عوام کی اجتماعی رائے کا ایک پیمانہ بھی ہیں۔کیسے دبنگ سیاستدان ہماری تاریخ کا حصہ رہے ہیں،آج یہ عالم ہے کہ ریاستی ادارے سیاست پر حاوی ہو گئے ہیں اِس سے مراد یہ ہے ان ریاستی اداروں میں جو لوگ نظام چلا رہے ہیں انہوں نے سیاست دانوں کو بے بس کر دیا ہے۔ضلع میں تعینات ایک ڈپٹی کمشنر یا پولیس کا ڈی پی او اب خود کو مادر پدر آزاد سمجھتا ہے۔ایک زمانہ تھا افسروں کو عوامی نمائندوں کا خوف رہتا کہ وہ کسی ایسے فیصلے پر جو عوامی مفاد میں نہ ہوا آواز اٹھائیں گے،دباؤ ڈالیں گے،مگر اس وقت یہ صورتحال ہے کہ ارکان اسمبلی صرف مختلف شادی بیاہ کی تقریبات میں افسروں کے ساتھ بیٹھ کے اپنی  شو شا بنا لیتے ہیں،عام ارکانِ اسمبلی کی بات تو رہی ایک طرف یہاں ملتان میں جہاں گیلانی خاندان کے پاس قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست موجود ہے اور بڑے گیلانی صاحب چیئرمین سینیٹ ہیں، بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں،کوئی منت ترلہ کام نہیں آ رہا۔ گیلانی ہاؤس کی رونقیں بھی ماند پڑنے لگی ہیں نظام نے ایسا باندھ کے رکھ دیا ہے کہ کوئی دھمکی کوئی سخت بیان بازی کام نہیں آ رہی، سیاست کی یہ بے بسی ایک بڑا نوحہ ہے جب سیاستدان عوام کی بجائے کسی اور کو اپنا مرکز بنا لیتے ہیں تو اُن کی حالت اُس گاڑی جیسی ہو جاتی ہے، جس کے چاروں پہیئے پنکچر ہوں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -