اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر22

Aug 06, 2018 | 04:38 PM

آغا شورش کاشمیری

بوڑھا کوچوان کوئی بیس برس سے تانگہ ہانکتا ہے وہ دن چڑھے نوگزے کی قبرکے اڈے پر آجاتا اور رات گئے گھر کو لوٹتا ہے ۔ تمام دن وہ شاہی محلہ سے شہر اور شہر سے شاہی محلے کے پھیرے لگاتا ہے۔ چہرہ جھریا چکا ہے، آواز میں کرارا پن ہے ، فامت منحنی جیسے امچور کی سفید پھانک ، بڑی بڑی آنکھوں سے ابھی تک جوانی جھانکتی ہے داڑھی تیموری ہے۔ ناک چنگیزی ، ہاڑ مفلی فی الجملہ کسی گئے ہوئے وقت کی تصویر ہے۔
’’ میاں ! اب جوانوں کی رتی چڑھی ہوئی ہے۔ ہمارا چراغ بڈھا ہوگیا۔ آپ ہفتوں سے آجا رہے ہیں۔ یہ آپ کی شرافت ہے کہ فقیر کے دل میں بھی آپ کے لئے قدر پیدا ہوگئی ہے، ورنہ خوش پوش لوگ جن پر دولت کا جھوٹا جھول چڑھا ہوتا ہے، ان مکانوں سے نکلتے ہیں، تو اُن کے لہجہ کی آب مرچکی ہوتی ہے ، تانگہ میں بیٹھتے ہی ایسی جلی کٹی باتیں کرتے ہیں کہ ان کے حسب نسب کا اختر بختر کھل جاتا ہے۔ بالخصوص نئی تانتی تونٹ کھٹی کی وہ بات کرتی ہے کہ بسا اوقات طبعیت جھنجھلاجاتی ہے۔ جی چاہتا ہے ان سے کہیں میاں آج کے تھپے آج ہی جلا نہیں کرتے لیکن ایک چپ میں بڑی خیر ہے۔‘‘

اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر21پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ میری عمر اس وقت ساٹھ سے کچھ اوپر ہے، زندگی جھجھو جھونٹوں میں نہیں بتائی جو کچھ آج نظر آرہا ہے کبھی نہ تھا اور اب توقلندروں کی بادشاہت ہے، ہر کوئی ہتھیلی پہ سرسوں جماتا ہے۔ پھر یہ اس بازار پہ ہی موقوف نہیں ، سارے شہر کی حیا مرچکی ہے جہاں تہاں جھوٹ کے وارے نیارے ہیں۔ آنکھ کا پانی بہہ گیا ہے۔ ہر کسی کا بہرہ کھلا ہوا ہے ، جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتا ہے۔‘‘
بڈھے کی عادت تھی کہ شاذہی بولتا تھا۔ ہر شب ہم اس کے تانگہ ہیں سوار ہوتے اور وہ ہمیں ڈیڑھ روپے میں میکلوڈ روڈ تک چھوڑا آتا، لیکن آج جو قاضی نے چھیڑا تو ایک دفتر کھل گیا ، کسی نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ بڈھا جس کے تانگہ میں آپ جاتے ہیں، اس بازار کی پاتال تک جانتا ہے۔ اُس کی دولت یہیں لٹی ہے ، کبھی وہ ایک متمول آدمی تھا ، اس کی حویلیاں تھیں لیکن اب تانگہ ہانکتا اور گزارا کرتا ہے۔
’’ بابا ! ہم تو اس بازار کے حالات پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں اور اسی لئے کئی دنوں سے چکر لگاتے ہیں۔‘‘
بڈھے نے پہلی دفعہ سر اُٹھا کر دیکھا پھر مسکراتی ہوئی آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔
’’ جی ہاں ! تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے۔‘‘
معلوم ہو ا، بڈھے کو مذاقِ بھی ہے ۔۔۔ اتفاق سے اس روز شہنشاہ وغیرہ گھر میں نہیں تھیں اور ہم ان سے ملے بغیر واپس آرہے تھے، جب بڈھے کی یہ باتیں سنیں ، تو ہم نے علامہ اقبالؒ کے مزار پر تانگہ رکوا لیا اور چاہا اس سے کچھ پوچھ گچھ لیں۔
’’ سُنا ہے آپ بھی اس بازار میں بہت کچھ گنوایا ہے۔‘‘
میں نے ؟ اس کا لہجہ قدر توانا ہوگیا ۔۔۔ جی نہیں ! میں نے بہت کچھ کمایا ہے۔ یہ آپ سے کس نے کہا؟ وہ الفن کٹ چکی ہے جس سے ہم نے کبھی پیچ لڑایا تھا ، اس گھر کی پرانی صورتیں گور کنارے ہیں البتہ اکی اولاد میں سے دو بہنیں فلاں فلاں کے گھر میں ہیں۔‘‘
خیر اس قصے کو چھوڑیئے’’ صرف مجھے دیکھئے، عبرت کا مرقع ہوں ، آپ کا خون تازہ ہے اسے ضائع نہ کیجئے۔ ان مکانوں سے کبھی کوئی سلامت نہیں گیا۔ ان بتکدوں میں ایمان کو دیمک چاٹ جاتی ہے۔ یہ عورتیں نہیں جونکیں ہیں ، ان کے مرد بچھو ہیں ، ہر کوئی سنپو لیا بلکہ گھٹیا ہے ، ان کی محبت روپیہ سے شروع ہوتی اور روپیہ پر ختم ہوجاتی یہ ان کی ہاں وفا ، صبر ، شرافت ، خلوص وغیرہ نام کی کوئی سی شے نہیں۔ صرف جسم میں یا بستر ، آپ ان سے ایک ہزار برس رسم و راہ رکھیں اور گنج قاروں بھی لٹادیں تو بھی آپ کے دوست نہیں ہوں گے، یہ انسانوں پر شیروں کی طرح دہارٹے اور ہاتھی کی طرح چنگھاڑتے ہیں اور جب جیبیں کتر چکتے ہیں ، تو ان کی عورتیں بلی کی طرح میاؤں کرتی اور مرد کتوں کی طرح بھونکتے ہیں۔‘‘
’’ ہم یہاں یہی معلومات جمع کرنے آتے ہیں ۔‘‘
’’ میاں ! آپ دفعہ کی چاٹ مدتوں پیچھا چھوڑتی ہے۔ یہ پہلا قدم ہی زنجیر ہوجاتا ہے۔ نظر کی گمراہیاں انسان کی دل و دماغ کو ہلادیتی ہیں ، اور نظر اس وقت تک نہیں تھکتی جب تک ہڈیاں نچڑ نہیں جاتی ہیں۔ ‘‘
’’ بابا ! آپ بہت کچھ بتا سکتے ہیں ان کی اصلیت آپ کے تجربہ میں ہے آپ کی کہانی کیا ہے۔‘‘
’’ میری کہانی عام انسانوں سے مختلف نہیں ، یہاں ہر ایک سے یکساں بیتتی ہے۔ میرے باپ دادا متمول لوگ تھے، کئی مربعے زمین تھی ، کئی حویلیاں تھیں۔ میں ان کا اکلوتا بچہ تھا جب والد کا انتقال ہوگیا تو ایک لاکھ کے قریب نقدو روپیہ تھا ، اس وقت میں دسویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ آپ جانتے ہیں امیروں کے بچے عموماً غبی ہوتے ہیں۔ میں بھی پڑھائی میں کچھ زیادہ ذہین نہ تھا۔ طبیعت کا رجحان کھیلوں کی طرف تھا ۔ والد کی موت نے طبیعت کا ہر بند توڑ ڈالا، ایک دن کچھ دوست ہنسی ہنسی میں گانا سنانے لے گئے ، رفتہ رفتہ عشق کا پینچ لڑگیا۔ اُس کا بھی سن آغاز تھا، میرا بھی ، پہلی سہاگ رات کے پندرہ ہزار روپے ادا کیے۔‘‘
’’ سہاگ رات ؟‘‘
’’ جی ہاں یہ ایک شریفانہ لفظ ہے ، ورنہ ان کے ہاں کوئی سہاگ رات نہیں ہوتی ، باجانہ گاجا مہند نہ ڈھولک، براتی نہ دعوت کچھ نہیں صرف روپیہ ، جسم اور بستر۔‘‘
’’ جب نقدروپیہ ختم ہوگیا تو زمینیں گروی رکھی گئیں، وہ بھی بک گئیں پھر حویلیاں رہن رکھیں، آخر ان کا سودا بھی ہوگیا۔ اور جب سب کچھ دے چکا تو دیگ کی کھرچن کو بھی داؤں پر لگایا مگر پانچ برس میں ملا کیا؟ ایک جسم جو ہمیشہ پرایا تھا۔ ہڈیوں میں نقاہت آگئی۔ عزت قہقہوں میں بٹ گئی کچھ دنوں تو ان کے ہاں پڑا رہا وہ بھی اوپر اسا التفات برتتے رہے لیکن وہ دن بھی آگیا جب مجھے پان بنانے کے لئے کہا گیا اور لگے بندھے جو پہلے جھک کے سلام کہتے تھے اب مسکراکر گزرنے لگے۔ میراثی خفے کی نے تک نہ چھوڑتے۔ اب اُس جسم کے کئی گاہک تھے۔ میں عشق کے بے بصری میں سب کچھ دیکھتا رہا اور آخر ایک دن ایسا آگیا کہ میں ان کے ہاں اِکہ چلانے لگا وہ لوگ جو میرے لئے چلمیں بھرتے تھے اب میں ان کے حقے تازہ کرتا تھا ، یہ تانگہ چلانا میں نے انہی کے ہاں سیکھا ہے۔‘‘
بڈھے کی آواز رندھ گئی ۔۔۔ قاضی نے سہارا دینے کے لئے کہا۔
’’ وہ اب کہاں ہے ؟‘‘
’’ وہ مرکھپ گئی ہے ، اس کی ایک بہن نواب ۔۔۔ کے ہاں ہے ، دو بیٹیاں ۔۔۔ کے گھروں میں ہیں ، البتہ خلیری اور چچیری بہنوں کی اولاد اسی بازار میں بیٹھتی ہے۔‘‘
’’ کیا وہ آپ کو پہچانتی ہیں؟‘‘
’’ جی ہاں ان کے درو دیوار تک پہچانتے ہیں ، آپ بازار میں چلے جائیے وہ تمام بلڈنگیں جو ان کے نام سے منسوب ہیں اس فقیر ہی کے کھنڈر پر تیار ہوئی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ان عمارتوں کی نیو محمد دین ۔۔۔ کی دولت پر رکھی گئی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ محمد دین اسی بازار میں تانگہ چلاتا ہے۔‘‘
’’لیکن آپ نے یہ پیشہ کیوں اختیار کیا؟‘‘
’’ یہ پیشہ نہیں زندگی گزارنے کا بہانہ ہے ، میری کوئی اولاد نہیِ بیوی نہیں ، رشتہ دار نہیں ، اُس نے مجھ پر ترس کھایا تانگہ دے دیا ، میں چلاتا رہا ، کماتا رہا ، کھاتا رہا۔‘‘
’’ یہ وہی تانگہ ہے؟‘‘
’’ جی نہیں ! یہ دوسرا تانگہ ہے لیکن ہے اُسی تانگہ کی کمائی کا۔‘‘
’’ آُ کو چاہیے تھا کہ آپ کی ناک کاٹ ڈالتے لیکن یہ ذلت گوارا نہ کرتے۔۔۔‘‘
بڈھے نے روز کا قہقہہ لگایا جیسے وہ یہ سننے کے لئے تیار نہ تھا۔
’’ میاں ! یہ سب کہنے کی باتیں ہیں جو لوگ اس بازار میں آتے ہیں ان کی اپنی ناک آتے ہی کٹ جاتی اور غیرت غائب غلہ ہوجاتی ہے، البتہ جو چیز کچھ دنوں کے لئے طبیعت پر بوجھ بن کے رہتی ہے ، وہ ضمیر کا کانٹا ہے جس کو رفتہ رفتہ عیش کی آگ جھلسا دیتی ہے ، اس وقت تو آپ یہاں بیٹھے ہیں ، بازار میں ہوتے تو میں آپ کو دکھاتا ، بیسیوں لوگ لٹ لٹا کر وہاں بیٹھے ہیں کبھی نوگزے کی قبر پر ملئے میں آپ کو بتاؤں گا کہ کون کس عمارت کی اینٹ ہے؟‘‘
’’ تو ابھی چلئے۔‘‘ ہمارے اصرار پر بڈھا مان گیا ، تانگہ کواڈے میں کھڑا کیا، ایک نعل گیر نوجوان ہے کہا ، ذرا خیال رکھنا ابھی آتا ہوں۔
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

مزیدخبریں