بست و قصداءکی فتوح سے امیر سبکتگین کو فرصت ملی تو اس نے 367ءدیار ہند کی طرف توجہ مبذول کی توہند کے چند قلعے ایسے فتح کئے کہ جہاں نہ اہلِ اسلام کے گھوڑوں کے سُم‘ نہ اونٹوں کے قدم پڑے تھے انہی قلعوں میں جابجا مساجد بناکر تخت و تاراج سے جو غنایم ہاتھ گلے ان کو لیکر غزنین کی طرف مراجعت کی۔ ہندوستان میں اس وقت راجہ جے پال راجہ تھا۔ ولایتِ لاہور سے لیکر لمغان تک اور کشمیر سے ملتان تک اس کی قلمرو تھی بھٹنڈہ میں قیام اس لئے تھاکہ اہلِ اسلام کو آگے بڑھنے سے روکے۔ جب اس نے سنا اور دیکھا کہ مجاہدینِ اسلام اس کے ملک پر دست دراریاں کرتے ہیں اور اُن کی ہمسایگی ذات الجنب ہے۔ اس سے جان و مال کا خطرہ ہے تو نہایت مضطرب و بیقرار ہوکر چارہ جوئی جنگجوئی میں اس نے دیکھی۔ لشکر اور ہاتھی جمع کرکے لمغان کے میدان میں مسلمانوں سے لڑنے کے لئے آمادہ ہوا۔ یہ لمغان کا میدان کابل اور پشاور کے درمیان واقع ہے۔ امیر سبکتگین نے غزنین سے ہجرت کرکے اسی میدان میں ڈیرے جمائے۔ دونوں لشکروں میں چند روز تک کا رزار میں خوب ہاتھ چلے مگر کوئی غالب نہیں معلوم ہوتا تھا۔ اس لڑائی میں محمود غزنوی بھی اپنے باپ کے ساتھ شریک تھا میں وہ ایسے جوانمردی کے کام کرتا تھا کہ بڑے بڑے سورما بہادروں لہ عقل حیران تھی۔ یہ ہنگامہءرزم گرم تھا کہ ایک بادوزان کا طوفان آیا کہ دن کی رات ہوگئی برف اس شدت سے پڑی کہ خون سرد ہوکر رگوں میں جم گئے۔ مسلمان اُس کے عادی تھے مگر پیچارے ہندوﺅں نے ایسی سردی کی آفت کبھی اُٹھائی نہیں تھی ہزاروں سپاہی اور جانور اکڑ گئے۔ سینکڑوں کے ہاتھ پاﺅں رہ گئے۔ یہ وہی میدان ہے جہاں سردی کی ہاتھوں یہی تکالیف لشکرِ ہند نے انگریزی افسروں کے ماتحت نوسو برس بعد اٹھائی۔ ایک کہانی مشہور ہے ان پہاڑوں میں ایک چشمہ تھا کہ جب اس میں کوئی ناپاک چیز ڈالتے تھے تو اتنی برف پڑتی تھی کہ شہر کے شہر دب جاتے تھے اس چشمہ کی خبر ایک بڑھیانے امیر کو دی تھی‘جس نے اس میں نجاست ڈلواکر یہ پاک کام کیاتھا۔ گو اس کی حقیقت تو کچھ نہ تھی مگر ہندوﺅں کو ڈرانے کے لئے یہ ڈھکوسلا بھی بڑے کام کا تھا۔ غرض اب سارے لشکر میں جاڑے کی دہائی پڑگئی۔ جے پال نے لاچار ہوکر سبکتگین کے پاس پیغام صلح بھیجا۔ سبکتگین صلح پر راضی تھا مگر سلطان محمود غزنوی‘جوانی کے نشے میں اس صلح کا مانع ہوا۔ اس لئے یہ کام کا جھمیلے میں پڑگیا۔ پھر جے پال نے ایک دانا ایلچی سلطان محمودغزنوی کے پاس بھیجا اور لکھا کہ آپ کو معلوم رہے کہ راجپوتوں کا ایک دستور ہے کہ مایوسی اور اضطراب کی حالت میں جب دیکھتے ہیں کہ ستیز میں کوئی راہ گریز دشمن سے نہیں رہی۔ تو جو کچھ ان کے پاس نقدوجنس ہوتا ہے اُس کو آگ میں جھونکتے ہیں‘ ہاتھی‘گھوڑوں اور مویشیوں کو اندھا کرتے ہیں غرض کوئی چیز سلامت نہیں رکھتے‘ اہل وعیال کو آگ میں ڈالتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے سے رخصت ہوتے ہیں اور دشمن سے یہاں تک لڑتے ہیں کہ سب کے سب مرکر خاک میں مل جاتے ہیں‘اس کو دین دنیا کی سرخروئی جانتے ہیں۔ جوب سمجھ لو کہ اگر تمہارے لشکر کے لوگوں کو بھاری بھاری طمع صلح کرنے نہیں دیتی تو یہ کردکھائیں گے۔ پھر تم پچھتاﺅ گے۔ نقدوجنس کی جگہ راکھ کا ڈھیر پاﺅ گے۔ قیدیوں اور غلاموں کے عوض تم کو لڑائی کی صورت میں خاکستر کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئیگا اگر صلح کرلو گے تو ہم پر بہت احسان کرو گے۔ اب سلطان محمودغزنوی نے بھی دیکھا کہ ہندوﺅں کو مایوس کرنا اچھا نہیں‘ معلوم نہیں آگے کیا ہو۔
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 2 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
غرض باپ بیٹے دونوں صلح پر راضی ہوئے۔ راجہ نے اپنے معتبر رشتہ دار اور عزیز مبکتگین کے پاس چھوڑے اور امیر کے معمتد ساتھ لئے کہ اپنی دارالسلطنت میں جاکر بموجب عہد نامہ کے ہاتھی گھوڑے مال ودولت حوالہ کرے‘باوجود یہ کہ جے پال نے یہ تباہی وہاں اُٹھائی تھی اور خراج دینے کے وعدہ پر رہائی پائی تھی وہ جب لاہور پہنچا تو سب قول و قرار بھول گیا۔ خراج نہ بھیجا۔ سبکتگین کے آدمیوں کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ اس وقت میں دستور تھا کہ راجہ کے دربار میں یمین ویسار پنڈت اور چہتریوں کے سردار کھڑے ہوتے تھے، مہمات اور معاملات ملکی میں رائے دیتے تھے‘ چہتریوں کوراجہ کی یہ حرکت پسند نہ آئی۔ انہوں نے عرض کیا کہ مردوں کو بات کا پاس چاہئیے۔ بجن کا توڑنا ایسا پاپ ہے کہ بپتا گھوڑے پر چڑھ کر گردن دباتی ہے۔ اس حرکتِ ناروا سے باز آئیے اور خراج امیر کا بھجوائیے۔ مگر پنڈت صاحبوں نے نہ برف و باراں کی سردی دیکھی تھی نہ تلواروں کی آنچ کے نیچے آئے تھے‘ انہوں نے یہ صلاح دی کہ اگر خراج بھجوایا جائے تو راجہ کا منہ کالا ہوجائے گا۔ شامتِ اعمال سے یہی صلاح جے پال کو بھی پسند آئی۔ جب اس معاملہ کی خبر سبکتگین کو پہنچی۔ اوّل اُس کو یقین نہ آیا‘ یہ سمجھا کہ یہ خبر ہوائی ہے اور یونہی لوگوں نے اڑائی ہے مگر جب متواتر یہی خبر کان میں آئی تو اس کو یہ امر نہایت شاق معلوم ہوا۔ اس نے بدعہدی کے انتقام لینے کے واسطے لشکروں کو جمع کیا اور دریا کی طرح اُمڈتا ہوا ہندوستان پر چڑھ آیا۔ سرحدی مقامات پر ایک آفت برسادی اور پانی پھیر دیا۔
جے پال کو یہ خبر پہنچی تو اُس نے دلی۔ اجمیر۔ کالنجر۔ قنوج کے راجاﺅں کو چِٹھیاں لکھیں کہ سبکتگین اس طرح پنجاب پر چڑھا ہے۔ پنجاب ہی ہمیشہ سے سب بھائیوں کاسپر بنا ہے۔ اب مناسب ہے کہ ہم سب ملکر اس ٹکر کو روکیں۔ نہیں تو سارے ملک میں پانی پھیر دے گا۔غرض ان سب راجاﺅں نے اپنا انتخابی لشکر‘ بہت سے مال اور خزانہ کے ساتھ جے پال کے پاس بھیج دیا اور یہ جان لیا کہ ہماری عزت و آبرو سلطنت کی بقا جے پال کی فتح پر موقوف ہے۔ اس لئے اعانت اور معاونت کا کوئی دقیقہ فرد گیاشت نہ کیا وہ ایک لاکھ سوار اور پیادے بیشمار سندھ کے پار لے گیا۔ اور لمغان کے میدان میں امیر سبکتگین کے لشکر کے سامنے ڈیرے خیمے ڈال دیئے۔ امیر سبکتگین دشمنوں کی کیفیت اور کمیت دیکھنے کے واسطے ایک ٹیکری پر کھڑا ہوا۔ وہاں دیکھتا ہے کہ جہاں تک نظر کام کرتی ہے۔ لشکر دکھائی دیتا ہے۔مگر اس سے وہ ہراس نہ ہوا اور سمجھا یہ سب بھیڑیں ہیں‘ میں قصاب ہوں۔ یہ کلنگون کی قطاریں ہیں اور میں شاہین ہوں۔ اب اس نے سب سرداروں کو بلایا اور جہاد کا وعظ سنایا سب سے عمدہ تدبیر لڑائی میں یہ کام میں لایا کہ پانچ پانچ سو غول ایک ایک افسر کے نیچے مقرر کیا اور حکم دیا کہ باری باری لڑیں ایک غول لڑائی کے میدان میں جائے‘جب تھک جائے تو واپس آئے پھر دوسرا تازہ دم غول اُس کی جگہ جائے۔ اس کی یہ حکمت ایسی کارگر ہوئی کہ ہندوﺅں کے لشکر میں باوجود کثرت کے ضعف معلوم ہوا۔ جب اُن کے پیرا کھڑے تو سارے لشکر نے وفعتاً حملہ کیا ہزاروں کو مار ڈالا اور سب کو بھگا دیا۔ اٹک تک اُن کا تعاقب کیا۔ لشکرِ اسلام غنیمت سے مالا مال ہوگیا۔ گردونواح کے پرنگوں سے جو لاہور کی سلطنت میں داخل تھے‘ بہت سا محصول وصول ہوا۔ راجہ کے ملک پر دریائے اٹک تک قبصہ اور تصرف کیا اور پشاور میں دس ہزار سپاہیوں کو ایک افسر کے ماتحت چھوڑا۔ ان لڑائیون کے بعد لمغان کے افغان اور خلجی بھی امیر سبکتگین کے مطیع ہوئے اور اس کی سیاہ میں بھرتی ہوئے۔ اُن مہمات کے بعد امیر اپنی ریاست کے انتظام میں مصروف ہوا۔(جاری ہے)
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 4 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں