سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 4
اس زمانے میں جب ہندوستان میں امیر سبکتگین کو یہ فتوحات حاصل ہوئیں امیر نوح بن منصور سامانی نے ابونصر فارابی کوامیر سبکتگین کے پاس بھیجاجہ فائق امیر بخارا نے جو خرابیاں اس کے ملک میں مچا رکھی ہیں‘ اس سے مطلع کرے اور معاونت کی درخواست کرے۔
آل سامان کی اس بے سامانی کا حال سن کر سبکتگین کی رگِ حمیّت حرکت میں آئی اور وہ فوراً ماوراءالنہر کو روانہ ہوا۔ امیر نوح بہی ولایت سرخس میں پیشوائی اور استقبال کے لئے آیا امیر سبکتگین نے ملاقات سے پہلے امیر نوح نے یہ التماس کی کہ ضعف پیری کے سبب سے مجھے گھوڑے پر سے اُترنے اور رکاب پر بوسہ دینے نے معاف فرمایے۔ امیر نوح نے اُس کی التماس کو قبول کیا مگر جب امیر سبکتگین کی نظر امیر بوح کے طلوت پر پڑی تو ہیبت شاہی نے بے اختیار اس کو گھوڑے پر سے اتروایا اور رکاب پر بوسہ دلوایا۔ امیر نوح اس سے بہت خوش ہوکر گلے ملا۔ غرض ان دونوں سعادت مندوں کے ملنے سے خاص و عام کے دلوں کی راحت ہوئی اور ایک جلسہ صحبت منتظر منعقد ہوا۔ بعد فراغتِ ضیافت و مجالست کے انتظام اور امور ممللکت پر گفتگو ہوئی تھی یہ قرار پایا کہ امیر سبکتگین غزنین جائے اور سپاہ کو تیار کرکے لائے۔ وہ غزنین کو روانہ ہوا اور امیر نوح بخارا کو گیا۔ جب فائق کو جو امیر بوعلی سمجوری کے پاس پناہ کے لئے گیا تھا‘ یہ اطلاع ہوئی تو اس نے اپنے خواص سے مشورہ کیا کہ اگر کام بگڑے توکہاں پناہ لینی چاہئیے۔ یہ قرار پایا کہ فخرالدولہ دیلمی کے پاس پناہ لینی چاہئے۔
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس سے رشتہ اتحاد و داد مستحکم ہے۔ اس اثناءمیں امیر سبکتگین بلخ میں آیا اور امیر نوح بخارا سے چل کر اسے ملا۔ فائق اور امیر ابوعلی سمجوری لشکرِ گراں لیکر روانہ ہوئے اور ہرات کے پاس میدان میں لڑائی ہوئی۔ امیر سبکتگین نے دشمنوں کو شکست دی تو ان کو بے سروسامان بھگادیا۔فایق اور امیر بوعلی سمجوری بھاگ کر منیشاپور میں گئے۔ اس فتح کے صلہ میں امیر نوح نے سبکتگین کو ناصرالدین کے خطاب سے اور سلطان محمودغزنوی کو سیف الدولہ کے لقب سے مشرف کیا اور منصب امیرالامرائی کا جو ابوعلی سمجوری کو عطا ہوا تھا‘ وہ سیف الدولہ کو دیا گیا امیر نوح کامیاب وکامران بخارا کو روانہ ہوا‘ناصرالدین سبکتگین غزنی میں آیا اور سیف الدولہ سلطان محمودغزنوی تنہا منیشاپور میں رہا۔ جب امیر بوعلی اور فائق سلطان نے محمودغزنوی کو تنہا دیکھا تو پہلے اُس کے باپ کے پاس سے کمک آئے‘ اُس سے لڑائی کا قصد کیا اور اس پر فتح حاصل کرلی۔ جب امیر سبکتگین کو اس کی خبر ہوئی تو وہ سپاہ کو لیکر منیشاپور میں پہنچا اور حوالی طوس میں امیر بوعلی اور فائق سے لڑائی ہوئی امیر سبکتگین نے پھر ان دونوں کو شکست فاش دی مگر بوعلی سمجوری اور فائق جانِ سلامت لے گئے اور قلعہ کلات میں چلے گئے اس فتح کے بعد امیر ناصرالدین سبکتگین مسند فرمانروائی پر فراغت کے ساتھ متمکن ہوا۔ فائق بغرا خان کے جانشین ایل خان کے پاس چلاگیا اور اس ایل خان کے دباﺅ وزور سے نوح اور فائق میں صُلح صفائی ہوگئی وہ سمرقند کا حاکم مقرر ہوا۔ جب نوح نے انتقال کیا تو ایل خان نے بارا پر حملہ کیا اور فائق حاکم سمرقند اُس کا ممدو معاون ہوا تو اس نے بادشاہ منصورثانی کو اس بات پر مجبور کیا کہ تمام اختیارات سلطنت کے فائق کو تضویض کردے۔
روضتہ الصفا میں سبکتگین کی خصائل کو اس طرح بیان کیا ہے۔ کہ آئین سلطنت و بادشاہی میں آراستہ اور کوشش میں شبر کی ہنگامہءداد میں بادِجہندہ قوی اور آفتاب کی مانند درخشندہ وضیع و شریف پر ہمت میں دریا کہ دہش میں کاہش سے نہیں ڈرتا تھا۔ تہوّر میں سیل کہ نشیب و فراز سے کچھ پرہیز نہ کرتا تھا۔ ظلمت و حوادث میں اس کی راے روشن ستارہ کی طرح رہنما‘ اس کی تلوار مفاصل‘اعدا میں قضا کی مانند گرہ کشا‘ اس کی شمائل میں نجابت و شہامت پیدا‘ اس کی حرکت و سکون میں دلایلِ یمن و سعادت ہویدا۔ 387ھ‘999ءمیں حدود بلغ کے اندر تربد میں سبکتگین کے سر پر موت نے اپنا گھوڑا دوڑایا۔ اس کی عمر 56پرس کی تھی۔ اس کا جنازہ عماری میں غزنی گیا اور وہاں دفن ہوا۔ اس نے تیس سال حکومت کی اور اُس کی اولاد میں چودہ بادشاہ ہوئے جو لاہور اور اس کی نواح پر متصرف و متسلط ہوئے۔ اس امیر کا وزیر ابوالعباس فضل بن احمد سفر اینی تھا ضبطِ امور مملکت اور سر انجامِ مہمامِ سپاہ و رعیت میں کمال رکھتا تھا۔
امیر سبکتگین اپنی موت سے چار روز پہلے شیخ ابوالفتح بستی سے یہ کہتا تھا کہ ہمارا اور ہمارے اغراض و امراض کا حال قصاب و بھیڑوں کا سا ہے۔ جب بھیڑ کو پہلے پہل گھٹنے تلے قصائی دباتا ہے تو وہ بے چین ہوکر تڑپتی ہے مگر جب وہ اُون کتر کر چھوڑ دیتا ہے۔ تو پھر ا چھلنے کودنے لگتی ہے۔ جب یہی نوبت دو چار دفعہ اس پر گزرتی ہے تو وہ قصائی سے بے خوف و خطر ہو جاتی ہے۔ جب اُس کو ذبح کرنے کیلئے وہ لٹاتا ہے تو یہ جانتی ہے کہ وہ اُون کتر کر تھوڑی دیر میں مجھے چھوڑ دے گا لیکن وہ چھری پھیر کر جان نکال لیتا ہے۔ پس انسان بار بار بیمار ہوکر اچھا ہو جاتا ہے۔ تو مرض الموت میں بھی صحت کی امید پر مسرور اور اجل سے غافل ہو جاتا ہے کہ موت جان شیریں کو بادِفنا میں اڑا دیتی ہے۔
وہ ایک حکایتیں لکھتے ہیں گو وہ پایہءتاریخ سے ساقط ہیں۔ مگر ایشیائی مو¾رخوں میں انسانیت اور آدمیت پائی جاتی ہے کہ وہ کس طرح تاریخ سے حسن اخلاق کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مشرقی ملکوں میں تاریخی واقعات سے ایسا اثر دل پر نہیں ہوتا جیسے ان حکایات سے جن کو مغربی ملکوں میں بالکل لغو و بیہودہ اور مشرقی بک بک کہتے ہیں۔ تاریخ میں یہ حکایت سبکتگین اور اس کے آقا کی لکھی ہے کہ جب امیر سنکتگین بخارا کو جاتا تھا تو راہ میں منزل خاکستر میں وہ فروکش ہوا اور یہاں صدقہ و خیرات میں بہت کچھ روپیہ دیا اور گھوڑے پر سوار ہوکر پانچ چھ آدمیوں سے ایک جگہ کو کھودنے کیلئے حکم دیا۔ جب انہوں نے کھودا تو ایک لوہے کی میخ نکلی۔ امیر سبکتگین نے اُسے دیکھا تو گھوڑے پر سے اترا اور بہت رویا پھر جائے نماز منگوا کر دوگانہ شکرِالٰہی ادا کیا۔ جب لوگوں نے اس حال کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ”قصہءنادر سنو کہ جس آقا کے میں ملک تھا‘ مجھے اور بارہ اور غلاموں کو جو میرے ہمراہ تھے جیحوں سے پار اُتار کر شہرقان میں وہ لے گیا اور اس جگہ سے گورکنان لایا۔یہاں کے بادشاہ نے سات غلام خریدے لیکن مجھے اور پانچ دوسرے غلاموں کو نہ خریدا۔ پھرمنیشاپور کی راہ میں مرد اور سڑخس میں چار غلام اس نے بیچے میں اور ایک اور باقی رہے۔ مجھے سبکتگین دراز کہتے تھے اور اتفاق سے میرے آقا کے تین گھوڑے میری ران کے نیچے زخمی ہو چکے تھے۔ جب میں یہاں خاکستر میں آیا تو میرا گھوڑا زخمی ہوگیا۔ اس پر میرے آقا نے مجھے بہت مارا اور زِین کو میری گردن پر کھا اور قسم کھائی تھی کہ منیشاپور میں جو کچھ تیری قیمت ملے گی وہی لیکر میں بیچ ڈالوں گا۔ اسی غم میں میں سوگیا کہ حضرت خضر کی زیارت ہوئی‘ انہوں نے مجھے بشارت دی کہ تُو بڑا نامور بادشاہ ہوگا۔ جب پھر اس سرزمین پر آئیگا تو تیرے ساتھ بہت سا لشکر ہوگا اور تو اُس کا سردار ہوگا تو غم نہ کر شاد ہو۔ جب یہ پائیگاہِ بلند تجکو نصیب ہو تو خلق خدا کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنا۔ میں نے اٹھ کر غسل کیا اور پچاس رکعت نماز پڑھی۔ اور اس میخ کو لیکر یہاں نشانی کے لئے میں گاڑ گیا۔ صبح میرے آقا نے سفر کیا‘ مجھ سے یہ میخ مانگی۔ جب میں نہ دے سکا تو اُس نے تازیانوں سے مجھے خوب مارا اور پھر سخت قسم کھائی کہ جو قیمت تیری ملے گی وہ لیکر تجھے بیچ ڈالوں گا۔منیشاپور تک دو منزل پیادہ پا چلایا‘ وہاں الپتگین نے مجھے اور میرے دو یاروں کو خرید لیا۔ جس سے میں اس درجہ پر پہنچا کہ تم دیکھتے ہو۔“