سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 2
خاندان غزنویہ الپتگین
عبدالملک ابن نوح سامانی خاندان کا پانچواں بادشاہ۔ الپتگین ایک ترکی غلام تھا۔ اوّل بادشاہ کو وہ بہان متی اورنٹ کے تماشے دکھا کر دل خوش کیا کرتا تھا۔ (اس خاندان میں یہ دستور تھا کہ غلام امانت کے عہدوں پر سرفراز ہوتے اور بادشاہوں کے مہمان بنتے تھے اور اعلٰی عہدوں پر سرفراز ہوتے۔ دور دور کے صوبوں پر حاکم مقرر ہوتے‘غرض وہ بڑے قابل اعتبار سمجھتے جاتے تھے۔) بادشاہ نے اپنے اس غلام کی ہوشاری‘ جوانمردی‘دیانت داری اور ایمانداری دیکھ کر 350ء، 961ءمیں اُس کو خراسان کاحاکم مقرر کیا۔ جب عبدلملک اس دنیا سے رخصت ہوا تو اُمراء بخارا نے قاصد الپتگین اس کے پاس بھیجا اور پوچھا کہ آپ کی رائے میں آل سامان میں تخت نشینی کے لائق کون ہے۔ اُس قاصد کو جواب دیا کہ عبدلملک کا بیٹا منصور ابھی نو عمر اور ناتجربہ کار ہے،سلطنت کیلئے سزادار نہیں البتہ بادشاہی اُس کے چچا پر زیب دیتی ہے۔ ابھی یہ قاصد پیغام لیکر بخارہ میں ہی تھاکہ امراءنے اتفاق کر کے منصور کو تخت شاہی پر بٹھا دیاجب یہ جواب قاصد لایا تو منصورکو نہایت غصہ آیا۔ اس نے فوراً الپتگین کو خراسان کی حکومت سے معزول کرکے دربار میں بلایا تو اس کو یہاں آنے میں جان کا اندیشہ پیدا ہول۔ اس۔ میں شک نہیں اگر وہ یہاں آتا تو ہلاک کردیا جاتا یا قیدخانہ میں عمر کاٹتا اس نے منصورکا حکم نہ مانا اور سپاہیانہ بیچ کھیلا خراسان کو چھوڑاتین ہزار غلاموں کا لشکر اپنے ہمراہ لیا اور غزنین کی طرف کوچ کیا صحیح سالم وہاں جاپہنچا اور امیرانوک سے غزنین چھین لیا۔ بلخ، ہرات اور سیتان جس ملک میں داخل ہوا‘ اُس کو فتح کرلیا اور خود بالاستقلال بادشاہ بن گیا۔ منصور نے دو دفعہ لشکر الپتگین سے لڑنے کو بھیجا۔ یہ خِطہ اُس کے ہاتھ ایسا لگ گیاکہ جس کے قوی ہیکل، بہادر اور جنگجو باشندے یعنی افغان اُسے خود مختار بنادینے کو کافی تھے اگرچہ وہ اس کے مطیع وفرمانبردار نہیں تھے مگر بُرے وقت میں جان لڑانے کو تیار تھے۔ اس کے ساتھ تین ہزار غلام تھے غالبًا اُسی کی طرح ترکی غلام تھے۔ بڑا اجتہاد افغانوں کا تھا۔ گووہ اُسکے تابع نہ تھے مگر وقت پر نوکر ہوجاتے تھے۔ غرض ان سب کی بدولت اس نے پندرہ برس تک دولت و اقبال کے ساتھ فرمانروائی کی 365ھ یا976ءمیں وہ اپنی موت سے مرگیا۔
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 1 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جامع الحکایات میں غزنین لینے کی حکایت لکھی ہے کہ جب الپتگین شہر غزنین کے باہر خیمے لگائے پڑا تھا اور شہر والوں نے دروازہ بند کررکھا وہان کسی کو اندر نہ آنے دیتے تھے تو الپتگین نے رعایا پروری اور عدل گستری کا طریقہ ایسا اختیار کیاتھا کہ رعایا خودبخودبن داموں کی غلام بنی جاتی تھی۔ ایک دن اُس نے دیکھا کہ کچھ سوار فتراک میں مرغ باندھے چلے آتے تھے۔ اُس نے سواروں سے پوچھاکہ یہ مرغ یوں ہی زبردستی چھین کر لائے ہویا قیمت دیکر مول لائے ہو۔ سواروں نے کہا کہ دام دیکر مرغوں کو لیا ہے۔ الپتگین کو اُن کے کہنے کا یقین نہیںہوا اُس نے گانوں کے مقدم کو بلاکر پوچھا‘ اوّل مقدم سچ کہنے سے ڈرا مگر الپتگین نے اس سے ایسی باتیں کیں کہ اس نے سچ سچ کہہ دیا کہ حضور یہ ترک گائوں میں روز جانے ہیں‘ مرغ زبردستی مفت چھین لاتے ہیں۔ الپتگین نے یہ سن کر حکم دیا کہ یہ سوار چور ہیں وہ قتل کئے جائیں مگر جب مصاحبوں نے تخفیفِ سزا کیلئے منت سماعت کی تو اس نے حکم دیا کہ ان سواروں کی کانوں میں چھید کئے جائیں ان چھیدوں میں مرغ لٹکائے جائیں اور ان کی ٹانیگیں باندھ دی جائیں اس طرح ان کی سارے لشکر میں تشہیر کی جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ مرغوں کے پھڑ پھڑانے سے سواروں کے چہرے لہولہان ہو گئے۔ مگر اس انصاف کا اثر اہل غزنین پر ایسا ہوا کہ انہوں نے شہر کے دروازے الپتگین کے داخل ہونے کیلئے کھول دیئے غرض اس ایک انصاف نے وہ کام کیا کہ ایک سپاہی کی تلوار بھی نہ کرتی۔
امیر ناصرلدین سبکتگین
حقیقت میں امیر باصرالدین سبکتگین ایران کا امیر زادہ اور یزوجرو کی نسل میں سے تھا‘ مگر وہ الپتگین کا غلام تھا۔ ناصر ایک سوداگر‘ اُس کو ترکستان سے لایا تھا۔ الپتگین نے اُسے خریدا تھا۔ اُس کی فراست‘ شجاعت‘ کر بتدریج ایسے بلند مرتبے پر پہنچایا کہ لشکر کا یہ سالار اور دربار کا بڑا اہل کار وہی تھا۔ وہ اپنے آقا کے ساتھ ہمیشہ لڑائیوں میں ہمراہ رہتا اور داد جوانمردی دیتا۔ بعض مو¾رخ لکھتے ہیں کہ الپتگین نے اپنی بیٹی سے اس کا نکاح کردیا تھا اور تخت وتاج کا وارث اسے ہی مقرر کیا تھا۔ تاریخِ فرشتہ میں لکھا ہے کہ الپتگین بیٹا ابواسحٰق کا تھا۔ اس کو باپ کے مرنے کے بعد سبکتگن بخارا لیکر گیا اور وہاں سے غزنین کی مسند حکومت دلا لایا پھر سارے ملکی اور مالی کاموں کا خود مختار ریا۔ ابواسحٰق نے ایک سال کی سلطنت کے بعد 367ھ،977ءمیں عقبٰے کی راہ لی۔ اور اس کے بعد ملکاتگین‘ جو ترکی امیر تھا‘ بادشاہ ہوا‘ وہ عاقل ومفتی تھا۔ وہ سال سلطنت کر کے وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اس کے بعد امیر پری تخت پر بیٹھا وہ بڑا ظالم تھا۔ اس نے کچھ لِکھت پڑھت کرکے ابوعلی انوک پسر شاہ کامل کو اپنی مدد کیلئے بلایا۔ جب وہ چرخ کی حد میں آیا تو امیر سبتگین نے پانچوں ترکی سواروں سے چھاپہ مارا اُس کو قتل کیا اور دس ہاتھی چھین لئے اور اُن کو غزنین لایا۔ فتح امیر سبکتگین کو حاصل ہوئی۔ اُدھر پری کے ظلم سے لوگ عاجز ہورہے تھے اس لئے سب امیروں نے متفق ہوکر امیر سبکتگین کو غزنین کا امیر بنایا۔ امیر بلکاتگین اس کو نہ ملتے تو سبکگین غزنین کا اوّل امیر شمار ہوتا۔
جب امیر سبکتگین مسندِ حکومت پر بیٹھا تو حصار بست پر امیر طغان متوتی ہوا مگر زکان نے جوال سامانیہ میں تھا‘ قلعہ بست کو غصب کرلیا اور طغان کو نکال دیا۔ امیر سبکتگین کی درگاہ میں طغان نے التجا کی کہ اگر آپ معاونت کرکے قلعہ بست پر میراتسلّط کرادیں تو میں آپ کا عمر بھر خدمت گار ہوں گا۔ امیر نے اس کی درخواست کو منظور کر لیا اور لشکر بست پر لیجاکر توزکان کو شکست دی اور طغان کو اپنے مقصود پر فائز کیا گیا مگر طغان نے جو وعدے کئے تھے اس میں تغافل و تساہل سے کام لیا تو امیر سبکتگین کو اس کی حرکات و سکنات سے مکروفریب کی علامتیں مشاہدہ ہوئیں۔ ایک دن صحرا میں شکار میں وہ اور امیر سبکتگین ساتھ تھے کہ اس سے امیر نے خراجِ موعود کا تقاضا شدید کیا۔ طغان نے اُس کا نامناسب جواب دیا اور تلوار پھینچ کر امیر کا ہاتھ زخمی کر دیا۔ امیر نے زخمی ہاتھ سے تلوار کھینچ کر طغان کے ماری کہ وہ قریب تھا دوسرے ہاتھ سے کام تمام کرتا کہ ملازموں نے بیچ بچاﺅ کرا دیا۔ طغان فرصت پاکر کرمان کو ایسابھاگا کہ پھر اس کوبست کا دیکھنا خواب میں بھی میّسر نہیں ہوا۔ امیر نے بست پر قبصہ کرلیا۔ بست کی فتح سے بڑا فائدہ امیر کو یہ ہوا کہ ابوالفتح علی بن محمد جوانواع فنون سے خصوصی صنعت و کتابت میں اپنی مثال نہیں رکھتا تھا اور توزکان کا دبیر تھاوہ خانہ نشین تھا۔ اُس کو تلاش کرکے بلوایا اور اپنی خدمت میں رکھا جب اُس کو وزیر مقرر کرنا چاہاتو اُس نے اس خیال سے کہ اس پیرانہ سالی میں میرے دشمن اس منصف عالی سے پیدا ہونگے‘ عذر کرکے امیر سے علیحدہ ہوگیا۔
قصدار غزنین کے قریب تھا۔ اس کا امیر اپنی حصانتِ قلاع پر مغرور تھا۔ امیر سبکتگین نے اس پر لشکر کشی ایسی کی کہ نہ آنکھوں کو سونے دیا‘نہ بدن کو آرام لینے دیا۔ لشکر کو بقدرِضرورت فرصت آرام دیا اور امیر قصدار کو اس طرح پکڑ لیا جیسے بھیڑ کو کباب بنانے کے لئے پکڑتے ہیں۔ پھر اُس کو اپنے الطاف کریم سے اس مُلک میں اس شرط پر مقرر کر دیا کہ مال مقررہ ہر سال بھیجا کرے۔ اور خطبہ میں اس کا نام پڑھا جائے۔ جب ان لڑائیوں سے فراغت ہوئی تو وہ دیارِ ہند کی طرف 367ھ میں متوجہ ہوا۔
ہندوکش سے مغرب کی طرف ایشیا میں‘افریقہ‘ جنوبی یورپ میں سپین اور یگال تک اسلام کے اعلام فتح وظفر قائم ہوگئے مگر پنجاب میں ایک چپّہ زمین کا یعنی قدم قدم کے پنجہ کے برابر بھی مسلمانوں کو نہیں ملا۔ اتنے عرصہ تک جو توقف ہندستان کی فتح کا ہوا‘اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ ہند میں بعض قومیں بڑی جوانمرد تھیں۔ سندھ کے راجپوتوں نے مسلمانوں کا کیسا دلیرانہ مقابلہ کیا یہ اہل عرب ہی کی شجاعت تھی جو ان کو زیر کیا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ ہندوﺅں کے راج کا جنگی انتظام ایسا مسلسل تھا کہ وہ بیگانہ حملہ آوروں کو بڑی الجھن میں پھنسا کر اُن کو کامیاب نہیں ہونے دیتا تھا۔ ہندوستان کو بیندہیاچل پہاڑ نے دو شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کردیا ہےاس کے جنگلوں اور پہاڑوں نے اُتر اور دکن کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی ہے۔ بندہیاچل کی شمال میں تین گروہوں کے راجا وادیانِ عظیم میں راج کرتے تھے۔ سندھ کے میدانوں اور جمنا کے اوپر کے حصوں میں بالکل راجپوت سلطنت کرتے تھے۔ سنسکرت میں جس ملک کو مدہیادیش(زمین میوسط)کہتے ہیں‘ وہ بڑے بلوان راجوں میں منقسم تھا۔ اوسان راجوں کے راجاﺅں کا مہاراج قنوج کا مہاراجہ تھا۔ دریائے گنگا کے زیریں وادی میں پہاڑ سے نیچے بدھ مذہب کے راجہ بالکے خاندان کے راج کرتے تھے۔ بنارس کے بنگال کے ڈلٹا تک ملک انہیں کی قلمرد میں تھا۔ اب ہندہیا کے دکن میں مشرقی اور بیچ کے اضلاع میں بڑی جنگجو اور تندخو پہاڑی قومیں رہتی تھیں۔ مغربی انتہا میں بمبئی کے ساحل کی طرف مالوہ کی ریاست ہندوﺅں کی تھی جس کا راجہ بکر ماجیت ہندو راجاﺅں کا آفتاب مشہور ہے۔ اس کا زما نہ علم و فضل کا شہرئہ آفاق ہے۔اس ریاست کے جاگیردار بڑے جنگجودلیر تھے۔ ہندوستان میں بندہیاچل کے دکن میں بڑی بڑی راجہ پرخاش جو سپاہ رہتی تھی کہ وہ آریا قوم میں سے تھی اُن کے تین گروہ تھے چیراجولا پانڈیہ میں بھی اس ملک کی بادشاہی کرتے تھے۔
ان راجوں کے مجموعہ کا گروہ خواہ وہ اُتر میں ہو یا دکن میں، آپس میں اتفاق کر کے بیگانہ حملہ آوروں سے مقابلہ کرنے کی قوت پیدا کرلیتا تھا جب یہ کئی گروہ اور اُن کے افراد متفق ہو جاتے تھے تو ان کو فتح کرکے مغلوب کرنا اور بھی تھکن اور محنت و مشقت کا کام ہو جاتا تھا۔ اگر ان گروہوں کے مجموعہ پرفتح بھی حاصل لرلی جاتی تھی تو پھر ہر گروہ سے اور ہر گروہ کے افراد سے جدا جدا لڑنا پڑتا تھا۔ پھر بعد فتح کے بھی ہر راج میں سرکشی دگردن کشی کا مادہ موجود رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں باوجود کوشش کے مسلمانوں کی سلطنت کی ترقی بڑی آہستہ آہستہ ہوئی۔ تین صدی بعد شمال و مغرب سے دو بڑے زبردست حملہ آوروں کی کوشش سے 977ءو1176ءکے درمیان پنجاب کے سرحدی حصّہ کے مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی اور 1565ءمیں تالی کوٹ کی فتح سے دکن میں مسلمانوں کی مستقل حکومت ہوئی اور پھر سو برس کے بعد 1650ءہندوﺅں کی قوم مرہٹہ نے ایسا سر اُٹھایا کہ سلطنتِ مغلیہ کو خاک میں ملادیا۔ شمالی ہند میں بھی شہنشاہ اکبر کے عہد میں مسلمانوں کی سلطنت قائم ہوئی ورنہ ہندو اپنی سلطنت کے لئے مسلمانوں سے لڑتے رہے۔(جاری ہے)
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں