سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 1

سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 1
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مبین رشید برطانیہ میں مقیم ہیں جن کی چار کتابیں چھپ چکی ہیں، وہ پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور تقریباً دو دہائیوں سے پرنٹ ، الیکٹرانک اور ای میڈیا سے وابستہ ہیں، دنیا ٹی وی ، سٹار ایشیاء، رائل ٹی وی ، عروج ٹی وی اور نیوٹی وی کی لانچنگ میں بھی ان کا کردار رہا،انہوں نے سوشل سائنسز میں ماسٹر کی پانچ ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں، اس کے علاوہ ایل ایل بی اور ڈی ایل ایل بھی کررکھا ہے ، وہ 2015ءمیں لندن، برمنگھم اور مانچسٹر میں پہلی انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس کی میزبانی بھی کرچکے ہیں جس میں ڈیلی پاکستان کے چیف ایڈیٹراورلائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ یافتہ صحافی و تجریہ مجیب الرحمان شامی سمیت ٹاپ اینکرز نے شرکت کی ، اسی  میڈیا کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان بھی مدعو تھیں جن کے وہاں پہنچنے پر پہلی مرتبہ علیحدگی کی خبرسامنے آئی تھی ، میڈیا کانفرنس کے دوران ہی ریحام خان نے اس معاملے میں لب کشائی کی تھی اور اپنا موقف حاضرین اور دنیا بھر سے آئے شرکا کے سامنے رکھا تھا۔ مبین رشید کی کتاب سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ  ڈیلی پاکستان کے قارئین کے لیے قسط وار شروع کی جارہی ہے ۔

............

بنو معاویہ اور بنوعباس خاندانوں کے ان کے جانشین حکمران خاندانوں کے دوران عربوں کی سلطنت کو زبردست عروج حاصل ہو گیا تھا لیکن ہارون الرشید کے انتقال کے بعد اس کی دنیاوی طاقت میں زوال کے اثار دکھائی دینے لگے تھے۔ مختلف صوبوں کے صوبیداروں نے اطاعت کا جوا اُتار پھینکا اور بادشاہ کا لقب اختیار کرلیا جبکہ خلافت کی صرف بغداد کے صوبہ اور اس کے ماتحت علاقوں تک محدود ہو ہوکر رہ گئی اور خلیفہ کو مذہب کے معاملہ میں ہی بااختیار سمجھا جانے لگا۔ طامیر کے جانشین ‘ جنہوں نے سب سے پہلے آزادی حاصل کی‘ وہ خراسان اور ماورالنہر کے عظیم صوبوں میں آباد ہوگئے۔ 872ءمیں بادشاہوں کا ایک خاندان سوفارائڈز ان کا جانشین بنا‘ جس کی بنیاد سیستان کے ایک کسیرے یعقوب نے رکھی تھی۔اسے اپنی عسکری مہمات کے باعث بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ اپنی باری پر 903ءمیں سامانیوں نے انہیں تہہ وبالا کردیا۔ اس خاندان کابانی اسماعیل تھا‘ جس نے 263ءہجری بادشاہ کا لقب اختیار کیا۔ اسے انصاف اور نیکی کے کامو ں کے سلسلہ میں بہت بڑی شہرت حاصل تھی۔ اس کی حکومت بخارہ ‘ ماورالنہر‘ خراسان اور ایرانی سلطنت کے ایک بہت بڑے حصّے پر تھی۔ سامانیہ خاندان نے 120سال تک بڑے اطمینان کے ساتھ حکومت کی۔ پانچواں بادشاہ عبدلملک‘ جس کا انتقال بخارہ میں ہوا‘ اس نے اپنے پیچھے ایک ننھا شہزادہ منصور چھوڑا ۔ مرحوم بادشاہ کا ایک ترک غلام الپتگین ‘ جو خراسان کے وسیع وعریض صوبے پر حکومت کرتا تھا‘ اس نے نوجوان شہزادے کا چچا ہونے کا اعلان کر دیا لیکن مخالف دھڑے نے منصور کو تخت پر بیٹھا دیا۔ نوجوان بادشاہ نے الپتگین سے باراض ہوکر اسے بخارہ حاضر ہونے کا حکم دیا لیکن یہ حاکم خراسان کے درالحکومت‘ منیشاپور سے ایک بہت بڑی فوج کے ہمراہ غزنی روانہ ہوا اور بے شمار فتوحات حاصل کرنے اور شاہی فوجوں کو شکست دینے کے بعد اس نے بادشاہت کا اعلان کر دیا۔
البتگین نے اپنے جرنیل سبکتگین کے تحت اپنی فوجوں کو کئی مرتبہ ملتان اور گمگحان کے صوبوں کو زیر کرنے کے لیے روانہ کیا۔ ان صوبوں کے ہزاروں باشندوں کو غلام بنا کر غزنی لے جایا گیا۔ لاہور کے راجا جے پال نے جب یہ محسوس کیا کہ اس کے فوجی دستے شمالی حملہ آوروں کی فوجوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو اس نے بھاٹیہ کے راجہ کے ساتھ اتحاد کر لیا لیکن جب بھی حملہ آوروں اس ملک پر حملہ کیا تو متحدہ فوجیں ان حملہ آوروں کو ہندستان سے لوٹ کر مال لے جانے سے سخت ناکام رہیں۔
الپتگین نے پندرہ سال تک بہت امن اور سکو ن سے حکومت کی اور 976ءمیں اس کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا ابو اسحاق اس کا جانشین مقّرر ہوالیکن مئوخرالذ کر دو سال سے کم عرصہ میں انتقال کر گیا۔ لہذا سبتگین جو اصل میں اس کا غلام تھا اور اس نے اس کی بیٹی سے شادی بھی کی تھی‘فوج نے متفقہ طور پر اسے غزنی کے تخت پر بٹھا دیا۔(جاری ہے)

سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 2 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں