سانحہ ساہیوال ، انکوائری کمشن کا قیام بے ثمر مشق ہو گی؟
تجزیہ: - سعید چودھری
سانحہ ساہیوال کی انکوائری کے لئے جوڈیشل کمشن کے قیام کا مطالبہ زور پکڑتاجارہاہے ،اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والے خلیل کے بھائی جلیل کی درخواست پر بھی حکومت سے لاہور ہائی کورٹ نے کمشن یا انکوائری ٹربیونل کی تشکیل کے حوالے سے استفسار کیا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا انکوائری کمشن یا انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ ملزموں کے خلاف ٹرائل میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے ؟اس کا جواب نفی میں ہے ۔ٹرائل کورٹ صرف شہادتوں پر انحصار کرتی ہے جبکہ کمشن یا ٹربیونل کی انکوائری رپورٹ کو شہادت کا درجہ حاصل نہیں ہے ، عدالت کو اختیار ہے کہ وہ واقعاتی شہادتوں پربھی مجرم کو سزا دے سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ واقعاتی شہادتوں کی کڑی سے کڑی ملتی ہو اور یہ زنجیر کہیں سے ٹوٹتی نہ ہو۔پہلی بات تو یہ ہے کہ انکوائری ٹربیونل یا کمشن کو جوڈیشل کمشن کہنا ہی غلط ہے ،جوڈیشل انکوائری تو مجسٹریٹ نے کرنا ہوتی ہے ،جیسا کہ ایک روز قبل سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں چیف جسٹس درخواست گزاروں کو بتاچکے ہیں،چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کو یہ پیش کش کی کہ وہ کہیں تو آج ہی آرڈر کردیتاہوں۔انکوائری ٹربیونل کا قیام پنجاب ٹربیونلز آف انکوائری آرڈیننس مجریہ1969ء کے تحت تشکیل پاتاہے جبکہ انکوائری کمشن وفاقی حکومت"پاکستان کمشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء "کے تحت قائم کرتی ہے ۔اس قانون میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ انکوائری کمشن کاسپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کے ججوں پر مشتمل ہونا ضروری ہے ۔حکومت کسی بھی شخص یاگزٹیڈافسر کی سربراہی میں انکوائری کمشن قائم کرسکتی ہے ،انکوائری کمشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی کیا قانونی حیثیت ہے ، اس رپورٹ کی روشنی میں متعلقہ افراد کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے اور کیا اس رپورٹ کی بنیاد پر کسی کو سزا دی جاسکتی ہے ؟قانونی طور پر کمشن یا ٹربیونل انکوائری کی حیثیت ایک رائے اور سفارش کی ہے۔ذوالفقارعلی بھٹو قتل کیس میں قرار دیا جاچکا ہے کہ کمشن کی انکوائری رپورٹ کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔اسی عدالتی نظیر کی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے متعدد مقدمات میں جوڈیشل انکوائری کو گواہی کے طور پر قبول نہ کرنے کی بابت آبزرویشنز آچکی ہیں۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل ٹربیونل نے انکوائری کی تھی ،حکومت نے یہ رپورٹ شائع کرنے سے ہی انکارکردیاتھا،اس کے لئے ادارہ منہاج القرآن کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑاتھااور لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے 5دسمبر 2017ء کواس کیس میں تین حکم جاری کئے تھے ،پہلا یہ کہ انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ کی نقل فوری طور پر متاثرین سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سپرد کی جائے ،دوسرا یہ کہ انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ 30دن کے اندر شائع کی جائے اور تیسرا یہ کہ انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ٹرائل پر اثر انداز نہیں ہوگی ۔اب جبکہ انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ کو ٹرائل کورٹ میں شہادت کے طور پر قبول ہی نہیں کیاجاسکتاتوپھر انکوائری کروانے کا کیا فائدہ ہے ۔
قانون کے تحت کمشن یا ٹربیونل سے انکوائری کا مقصد غیر جانبداری کے ساتھ انتظامیہ کو مدد اور راہنمائی فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ انکوائری کے نتائج کی روشنی میں انتظامیہ اپنے لئے درست راستے کا تعین کرسکے۔کمیشن کوئی عدالت ہے اور نہ ہی وہ کوئی حکم جاری کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔اس کی انکوائری کی رپورٹ کی بنیاد پر کیا کسی شخص کو سزا نہیں دی جاسکتی۔اسی طرح کسی شخص کے خلاف رپورٹ میں کی گئی سفارشات پر عمل درآمد بھی ضروری نہیں ہے ،اس حوالے سے بھی عدالتی نظائر موجود ہیں جیسا کہ سانحہ گوجرہ کے حوالے سے مسٹر جسٹس اقبال حمید الرحمن کی انکوائری رپورٹ میں اعلی پولیس افسر طاہر رضا کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی اور یہ رپورٹ ان کی کسی اعلی ٰ عہدہ پر تعیناتی کی راہ میں رکاوٹ تھی تاہم اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعدطاہر رضا کو سی سی پی او لاہور مقرر کردیا گیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے انکوائری کے لئے سپریم کورٹ کے 3ججوں پر مشتمل انکوائری کمشن ایک نیاقانون جاری کرکے قائم کیا گیا تھا اور یہ قانون تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ کے نتیجہ میں جاری ہوا تھا ۔انکوائری ٹربیونل یا کمشن کے لئے ٹرمز آف ریفرنس حکومت طے کرتی ہے اور وہ حکومت کے بھیجے گئے ریفرنس کے حدود سے باہر نہیں جاسکتا۔ماضی میں کئی ٹربیونل بنے جن کی رپورٹیں کبھی شائع ہوئیں اور نہ ہی ان میں کی گئی سفارشات پر عمل درآمد ہوا،کہا جاسکتاہے کہ ان رپورٹوں کو وقت کی دیمک چاٹ گئی۔ہمارے سامنے کئی مثالیں ہیں ،سانحہ مومن پورہ ،طاہر القادری پر مبینہ فائرنگ، سری لنکن ٹیم پرفائرنگ، سانحہ گوجرہ ،سانحہ چناب ایکسپریس ربوااور سانحہ ماڈل ٹاؤن پر انکوائری ٹربیونل تشکیل دیئے گئے ،ان کی رپورٹوں پر کیا عمل ہوا؟ حمود الرحمن کمشن ،جسٹس منیر کمشن ، اسامہ بن لادن آپریشن کمشن اور لاپتہ افراد کے کمشن کی رپورٹیں بھی جاری ہوئیں اور نہ ہی ان پر عمل درآمد ہوا۔سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لئے ٹربیونل یا کمشن تشکیل دیا گیا تو اس کی قانونی حیثیت بھی وہی ہو گی جس کا اوپر ذکر ہوچکاہے ۔اس کمشن کا قیام وقت کے زیاں کا باعث بنے گا ،ایسے کمشنوں کے قیام سے تو حکومت پر دباؤ میں کمی آتی ہے ،کمشن کو انکوائری کے لئے دو تین ماہ کا وقت دیا جاتاہے اور اس دوران حکومتی بزر ج مہریہ کہتے رہتے ہیں کہ کمشن کی رپورٹ کا انتظارکیاجائے،قانونی طور پر جوڈیشل انکوائری کی جو بھی حیثیت ہو اس سے قطع نظر اسے کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار نہیں دیا جاسکتا اگر ایسا سمجھا گیا تو یہ ایک بڑی غلطی ہوگی۔ایسی رپورٹوں کی باز گشت دہائیوں تک متعلقہ اشخاص کا پیچھا کرتی ہے ۔
سانحہ ساہیوال میں ابھی تک دو عینی شاہد سامنے آئے ہیں ،ملزموں کی شناخت پریڈ نہیں ہوسکی جوکہ ایک قانونی تقاضہ ہے جبکہ مقول خلیل کے بھائی جلیل کے وکیل کا کہنا ہے کہ تمام ملزم پولیس والے ہیں ،اس لئے شناخت پریڈ کی ضرورت ہی نہیں ہے ،جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکاہے کہ واقعاتی شہادتوں پر بھی مجرموں کو سزا دی جاسکتی ہے ۔19جنوری کو جن پولیس والوں نے خلیل اور ذیشان کی گاڑی کا پیچھا کیا اور فائرنگ کی ان کا ریکارڈ موجودہے ،مقتولین کی ہلاکت کا باعث کون سا اسلحہ بنا یہ بھی طے ہوچکاہے ۔پولیس والوں کوباقاعدہ نمبروں کے ساتھ اسلحہ الاٹ ہوتاہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ آپرشن میں حصہ لینے والے کس اہلکار کے پاس کون سا اسلحہ تھا اور کس کس اہلکار کی گن سے فائرنگ ہوئی۔آپریشن ٹیم کو ہدایات کہاں سے ملیں ، ان کا اعلیٰ حکام سے کتنی مرتبہ رابطہ ہوا،اس بابت بھی وائرلیس اور دیگر کمیونی کیشن ریکارڈ موجود ہے ،اگر یہ تمام شہادتیں عدالت میں پیش ہوتی ہیں اور ان کی کڑیاں ملی رہتی ہیں تو بھی امید رکھنی چاہیے کہ ملزم کیفر کردار تک ضرورپہنچیں گے ۔