ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں لوگوں کی ڈمپ شدہ رقوم!

  ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں لوگوں کی ڈمپ شدہ رقوم!
  ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں لوگوں کی ڈمپ شدہ رقوم!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پچھلے دِنوں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے حوالے سے یکے بعد دیگرے تین چار اچھی خبریں ملیں تو سوچا میں بھی اربابِ بست و کشاد کے سامنے عوام کے ایک دُکھ کا اظہار کر دوں۔ اس کرب کا اظہار جس میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹ ملنے کی امید پر سرمایہ کاری کرنے والے مبتلا  اور مسلسل مبتلا ہیں، لیکن انہیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا کہ کیا کریں‘ کدھر جائیں۔یہ واضح کر دوں کہ اس آواز اٹھانے کا مقصد محض عوام کے ایک مسئلے کو اُجاگر کرنا ہے۔ پہلے اچھی خبریں سن لیں، باقی باتیں بعد میں کریں گے۔ پہلی خبر: نیب کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) لاہور نے غیر قانونی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی لا ولا ڈی پیرس (La Villa De Paris) کے خلاف قلیل عرصہ میں تحقیقات منطقی انجام تک پہنچاتے ہوئے سوسائٹی کے شکار سینکڑوں متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ممکن بنایا ہے اور ایک ارب 17 کروڑ 20 لاکھ روپے کی رقم واپس دلوانے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ دوسری خبر: صوبہ پنجاب میں تقریباً600 غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا انکشاف ہوا ہے اور صوبائی حکومت نے دریاؤں، ندی نالوں اور سیلابی گزرگاہوں کے قریب ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو جاری کیے جانے والے این او سیز کی روک تھام کے لئے سخت قوانین متعارف کروانے اور ذمہ داران کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبر کے مطابق پنجاب میں زمینوں کے امور کی دیکھ بھال کے ذمہ دار محکمہ بورڈ آف ریونیو کے مطابق صرف لاہور میں اس طرح کی ہاؤسنگ سکیموں میں سے 171سکیمیں غیر قانونی ہیں۔ یہ انکشاف بورڈ آف ریونیو کے ایک اجلاس میں کیا گیا۔ اعلیٰ سطح کے اس اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبہ پنجاب میں مجموعی طور پر 3 ہزار 715 ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں، ان میں سے 3 ہزار 119 منظور شدہ ہیں۔ لاہور کی 443 ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں سے 171 سوسائٹیاں غیر قانونی ہیں۔ تیسری خبر: حکومت نے رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ کے شعبے میں عوام کے لئے مراعات کا پیکیج تیار کر لیا ہے۔ وزارت ہاؤسنگ کی 11 رکنی ٹاسک فورس نے 40 سے زائد اہم سفارشات و تجاویز مرتب کی ہیں، جن کے تحت رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ کے شعبے میں عوام کو مراعات دیے جانے کا پیکیج تیار کیا گیا ہے۔ حکومت نے پراپرٹی اور ہاؤسنگ سیکٹر میں گزشتہ بجٹ کے دوران لگائے گئے ٹیکسز پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے اور اس سیکٹر کی بحالی کے لیے جامع پلان تشکیل دے دیا گیا ہے۔اس سلسلے میں 11رکنی ٹاسک فورس کی سفارشات وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کر دی گئی ہیں۔ 

وفاقی اور پنجاب کے سرکاری اداروں کی جانب سے رئیل اسٹیٹ کے معاملات میں دلچسپی لینا اور عوام کے لئے کچھ سہولتیں اور آسانیاں فراہم کرنا ایک مثبت اقدام ہے، جس کی تعریف کی جانی چاہئے۔ایک گزارش یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے گزشتہ  برسوں میں رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی کے معاملات پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے اور اس کاروبار میں جن لوگوں نے پیسہ لگایا تھا اور جن لوگوں نے اپنا گھر بنانے کی خاطر پلاٹ کے حصول کے لئے پیسے جمع کرائے تھے وہ سارے کے سارے ڈمپ ہو چکے ہیں اور انہی اضافی ٹیکسوں اور غیر یقینی سیاسی صورت حال کی وجہ سے پراپرٹی کی قیمتیں مائنس میں جا رہی ہیں، یعنی جس قیمت پر کسی فرد نے کوئی پلاٹ خریدا تھا اب اسے اس پلاٹ کی اصل قیمت سے بھی کم قیمت مل رہی ہے، جس کی وجہ سے لوگ بے حد پریشان ہیں اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ آگے کیا کرنا ہے۔ حکومت اگر رئیل اسٹیٹ کے معاملات کی طرف توجہ دے ہی رہی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ کچھ عرصے کے لئے رئیل اسٹیٹ کے معاملات میں آسانیاں فراہم کرے تاکہ لوگوں کے ڈمپ ہو چکے پیسے انہیں واپس ملنے کی کوئی راہ نکل سکے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ یہ ڈمپ شدہ پیسے جب لوگوں کو واپس ملیں گے تو وہ انہیں کسی اور کاروبار میں لگانے کی کوشش کریں گے اور اس طرح ملکی معیشت جو ایک طرح سے جمود کا شکار نظر آتی ہے ایک دفعہ پھر پھلنے پھولنے لگے گی۔

اپنے ایک گزشتہ کالم میں میں نے ملتان روڈ پر واقع این ایف سی ہاؤسنگ سوسائٹی فیز ٹو کا ذکر کیا تھا کہ اس سکیم کو اناؤنس ہوئے کم و بیش 20 سال گزر چکے ہیں، سوسائٹی والوں نے لوگوں سے پلاٹوں کی پوری قیمت اور مکمل ڈویلپمنٹ چارجز بھی وصول کر لئے ہیں، اس کے باوجود نہ تو سوسائٹی والوں نے کوئی ڈویلپمنٹ کی ہے اور نہ ہی ایسے حالات پیدا کیے ہیں کہ لوگ وہاں اپنے گھر بنا سکیں۔یوں اپنا گھر بنانے کے خواب دیکھنے والوں کے پیسے وہاں ڈمپ ہو چکے ہیں۔ ان پیسوں کا فائدہ سوسائٹی والوں کو تو ہو رہا ہے، لیکن وہاں پلاٹ خریدنے والے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو چکے ہیں۔این ایف سی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ارد گرد کئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں سالوں بعد شروع ہوئی تھیں اور مکمل بھی کر لی گئیں، وہاں لوگ رہائش پذیر ہیں اور زندگی کا لطف اُٹھا رہے ہیں،لیکن این ایف سی ہاؤسنگ سوسائٹی فیز ٹو میں پلاٹ خریدنے والے ایک مسلسل اذیت میں مبتلا ہیں۔

اس کالم کے ذریعے میری وفاقی اور پنجاب حکومت کے متعلقہ اداروں سے گزارش اور درخواست ہے کہ وہ جہاں ہاؤسنگ، رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی کے دوسرے معاملات پر توجہ دے رہے ہیں اور لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے صلاح مشورے کر رہے ہیں وہاں وہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل وضع کریں جو پلاٹوں کی مکمل قیمت اور ڈویلپمنٹ کے مکمل چارجز وصول کرنے کے باوجود لوگوں کو ڈویلپڈ پلاٹ فراہم کرنے سے مسلسل مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جیسے انہیں اس بات سے کوئی غرض ہی نہ ہو کہ اپنا گھر بنانے کے خواہش مند عوام ان کی وجہ سے کس تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہیں۔ میری دوسری گزارش ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے متاثرہ عوام سے ہے کہ خدارا وہ خود بھی متحد ہوں اور اپنی اپنی سوسائٹیوں کی انجمنیں اور یونینز قائم کریں اور متحد ہو کر سرکاری اداروں سے رجوع کر کے، عدالتوں سے رجوع کر کے، وفاقی اور صوبائی محتسبوں کے اداروں سے رجوع کر کے اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ وہ اگر اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان کی طرف سے کسی رحم کی امید پر بیٹھے رہے تو یہ امید کبھی پوری نہیں ہو گی۔ اپنا جائز اور قانونی حق حاصل کرنے کے لئے انہیں بہرحال آگے بڑھنا اور عملی اقدامات کرنا پڑیں گے۔

٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -