لاہور مر رہا ہے!
لاہور کا حسن اس کا قدیمی تھڑا اور محلہ کلچر ہے ۔ گھروں کے باہر تھڑے بنائے جاتے جن پر بیٹھ کر محفل جمتی تھی ۔ مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تو راستے میں دو چار محلے داروں کے دروازے کھٹکھٹا کر انہیں بھی ساتھ لے لیا جاتا ۔ نماز کے بعد مسجد کے باہر کھڑے ہوکر گپ شپ ہوتی یا کسی محلے دار کے گھر کے تھڑے پر بیٹھ کر چائے پی جاتی ۔ ڈرائنگ روم میں یا تو محفل میلادالنبی کے وقت بیٹھا جاتا یا پھر تب جب کوئی خاص میٹنگ ہوتی ۔ لاہوریوں کی محفلیں کھلی فضا میں سجا کرتی تھیں ۔
شاہد ہم وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے بابوں کو گراونڈ اور پارک میں تاش کھیلتے دیکھا ہے ۔ جنہوں نے دوستوں کے گھر کے تھڑے پر بیٹھ کر چائے پی ہے اور گلی میں کرکٹ کھیلتے ہوئے پورا محلہ سر پر اٹھایا ہے ۔ اب تو کوئی روندی مارنے پر یار دوستوں کی بلے سے ٹھکائی بھی نہیں کرتا ۔ آج میٹرو سے خریدی گئی اشیا یعنی راشن کی طویل رسید دیکھی تو احساس ہوا کہ بڑے شاپنگ مال بھی مہنگائی کی وجہ بنے ہیں ۔ ہم بہت سی ایسی اشیا خرید لاتے ہیں جن کی ہمیں اتنی ضرورت نہیں ہوتی ۔یہ بڑے اسٹور اور شاپنگ پلازے گلی کی نکڑ پر بنے ان جنرل سٹور اور کریانہ سٹور کو کھا گئے ہیں جہاں صرف ضرورت کی اشیا ملتی تھیں ۔
میں شہر کی ایک پوش سوسائٹی میں رہتا ہوں، ارد گرد ایسے لوگ بستے ہیں جو ہمارے ساتھ تو ٹھیک ہیں لیکن سوسائٹی سے باہر نکلتے ہی ان کی گردن کی ہڈی سریے کی بن جاتی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ یہاں پھل اور سبزی فروش ریڑھی والوں کی آوازیں نہیں آتیں ۔ کوئی چٹخارہ دار چنے بیچنے نہیں آتا ۔ شکرقندی بھی نہیں ملتی ۔ بچے درختوں پر رسی ڈال کر جھولا نہیں جھولتے ، عید پر کوئی اپنے بکروں کو گلی میں نہیں پھراتا اور نہ درختوں کے پتے کھلاتا ہے ۔ بچے گلیوں میں نہیں کھیلتے ، خواتین گاڑی کے بنا گھر سے نہیں نکلتیں ، لوگ ورزش کے لیے گراونڈ کی بجائے جم جاتے ہیں ، مشین پر بھاگتے ہیں اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر گھر پہنچ جاتے ہیں ۔ یہاں سینہ گزٹ بھی نہیں چلتا ، کانوں میں سرگوشیاں نہیں ہوتیں ، کوئی کمیٹی والی ماسی بھی نہیں رہتی ۔
لاہور اب ایسا ہی بن رہا ہے ۔ اب یہاں ربورٹ بسنے لگے ہیں ، ایک وقت تک کام کرتے ہیں اور وارنٹی ختم ہونے کے بعد ایک دن اچانک ساکت ہو جاتے ہیں ۔ لاہور زندہ دل نہیں رہا ، یہ دو جمع دو چار کے چکر میں الجھ چکا ہے ۔ایسے میں ایک درویش یہاں زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے ۔ بااثر لوگوں کی رہائشی سوسائٹی سے نکل کر تھڑے اور فٹ پاتھ تلاش کرتا ہے ، کافی ہاؤس کی بجائے ڈھابے کی چائے پیتا ہے ، دوستوں کے ساتھ دکھ سکھ کی باتیں کرتا ہے اور کبھی یونہی سرد راتوں میں گرم شال لپیٹے دھند کو چھیڑتا ہوا دور تک بے مقصد ٹہلتا رہتا ہے یا پھر سنسان سڑک پر قہقہہ لگا کر ربوٹس کے ہاتھوں سر ہوتے شہر کی بےبسی کا مذاق اڑاتا ہے۔ ہم نے لاہور کو لاہور نہیں رہنے دیا ۔ ہم اسے ہر دور میں پیرس بناتے رہے ہیں ۔ لاہور مر رہا ہے ، اسے بچا لیں
۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے