ناروے کا وحشی قبیلہ
یہاں ناروے میں شہر زیادہ گنجان آباد نہیں ہیں۔موسم خزاں سے دن چھوٹے ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور موسم سرما میں ناروے کے انتہائی جنوب میں بھی دن چند گھنٹوں کا رہ جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ناروے خط استوا سے دور نارتھ پول پر واقع ہے۔اگر آپ نارتھ پول پر تفریح کرنے جائیں تو آ پ کو موسم سرما میں چھ ماہ کی رات ملے گی اور موسم گرما میں چھ ماہ کا دن ملے گا۔
اس بات کی سائینسی توجیح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین کی اپنے محور کے گرد گردش اور سورج کے گرد اسکی گردش کو سمجھا جائے۔ اس کے باوجود ناروے دنیا کا ترقی یافتہ ترین ملک ہے۔ ناروے والے اپنے ملک کے معاملا ت کا دنیا کے چند اور ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کرتے رہتے ہیں۔سارا سال شہر کی سڑکوں پر گاڑیاں ہیڈ لائٹس آن کیے رکھتی ہیں۔ٹریفک ریگولیشنز کو کریڈیٹ دیتے ہیں کہ گاڑیوں کا ہارن سنائی نہیں دیتا۔ ہفتے ہیں ایک دو ہارن سنائی دیتے ہیں۔ شہر کے وسط میں بھی ہارن سنائی نہیں دیتے۔
ڈرائیونگ لائسینس لینا ایک بھرپور پراجیکٹ سے کم نہیں ہے۔ آپکی چھ ماہ کی بچت اور محنت اور کاو ش کے باوجود پورے سال بعد بھی آپ یہاں ڈرائیونگ لائسینس کا فائنل ٹیست فیل کیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہم تفریحاً ایک فارم میں گیے جہاں کچھ جانور ، مرغیاں وغیرہ رکھی جاتی ہیں۔ ہم نے عرض کی کہ ہمیں خالص دودھ چاہیے ۔ یعنی وہ دودھ جو تازہ ہو اور گائے سے لیا گیا ہو۔فارم میں کام کرنے والی خاتون بولی۔ اگر وہ مجھے گائے کا خالص دودھ دے گی تو اسے خدشہ ہے کہ اس کا کنٹریکٹ کینسل ہوجائے گا جو فارم اور پرائیویٹ کمپنی کے درمیان موجود ہے۔ اس معاہدے کے مطابق انکا فارم صرف متعلقہ کمپنی کو دودھ فروخت کرسکتا تھا جو دودھ کو پراسیس کرکے مارکیٹ میں فروخت کرتی ہے۔ اصل میں دودھ تو مارکیٹ میں وافر دستیاب ہے لیکن ہمارا جی چاہا کہ وہ دودھ پیا جائے جو پراسیس نہ ہوا ہو۔
مذکورہ کمپنیاں دودھ کو پراسیس کرکے دودھ کے بہت سے پراڈکٹس مارکیٹ میں بیچتی ہیں۔ فیٹس والا دودھ، کم فیٹس والا دودھ اور بغیر فیٹس والا دودھ۔ مکھن ، دھی ، گھی بھی وافر دستیاب ہے۔ خیر ہمیں گائے کا قدرتی اور خالص دودھ نہ مل سکا۔ دوستوں سے شکوہ کیا انہوں نے بتایا کہ گائے کا دودھ جو گائے سے تازہ لیا گیا ہو یہاں ناروے میں ملنا نا ممکن ہے۔ محکمہ صحت کے حکام کے پاس اس کی وضاعت موجود ہوگی۔ چلیے تازہ دودھ نہ سہی مارکیٹ سے لے آتے ہیں۔
ٰٓایک امریکن رائیٹر ایک تقابلی جائزہ لیتاہے ایک جدید قصبے اور اس سے ملحقہ ایک گاوں کا، جہاں ایک قبیلہ جدید اقتصادی ترقی کے ثمرات کو استعمال میں لائے بغیر زندگی گزار رہا ہے ۔ یہ گاوں میں بسنے والے لوگ صنعتی انقلاب کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔ ان کے ہاں بجلی نہیں ہے۔ یہ لکڑی کی لالٹین جلاتے ہیں۔ ان کے ہاں ہسپتال نہیں ہیں۔ ان کا اپنا دوا خانہ ہے جہاں ایک دیسی طبیب جڑی بوٹیوں کو سنبھال کر رکھتا اور زخمیوں اور مریضوں کا علاج ان جڑی بوٹیوں اور دیسی ٹوٹکوں سے کیا جاتا ہے۔ موت کو یہ بھی نہیں روک پاتے مگر علاج معالجہ حکمت سے بھرپور نظرآتا ہے۔ اس گاوں کا اپنا عدالتی نظام یعنی پنچائیت سسٹم ہے۔ جیل خانہ اور سزا اور جزا کا نظام موجود ہے۔ لکھت پڑھت موجود تو ہے لیکن محض علامتی حد تک۔ محکمے اور ادارے موجود نہیں ہیں۔معاملات سردار کے پاس پیش کیے جاتے ہیں اور بلا تاخیر انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ تہذیب یافتہ دنیا کی ڈکشنری میں یہ قبیلہ وحشی کہلاتا ہے۔ اس دیہہ پر جو شخص حکومت کرتا ہے اسے اکثریتی حمایت حاصل ہے۔ کیونکہ وہ نیزہ بازی اور تلوار کے ساتھ قبیلے کے باقی مردوں پر بھاری ہے۔ حکومت کی باگ ڈور باپ سے بیٹوں کو منتقل ہوتی ہے۔ باپ بیٹے اور بھائیو ں کے درمیان حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے پر رسہ کشی چلتی رہتی ہے۔ خون بھی بہتا ہے۔ ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں۔ بہرحال یہ قبیلہ اسی دیہہ میں رہتا ہے اور دیہات چھوڑ کر جانے والوں کو دوبارہ دیہات میں واپس گھسنے نہیں دیتا۔ گویا وہ شخص غدار تھا جو اپنوں کو چھوڑ کر چلا گیا اور اب جب واپس اس دیہہ میں گھسنے آیا ہے تو اس شخص پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ کیا معلوم اس غدار کے دماغ میں ہماری اقدار اور اصولوں کے خلاف باغیانہ روش پروان چڑھ چکی ہو۔ یہ ہمارے طرز زندگی کے خلاف سازش کرے۔ ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے۔
آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ گاوں کا ایک نوجوان جو تہذیب دیکھنے اور آزمانے کا متمنی تھا۔ یہ کئی برسوں بعد پلٹ کر گاوں میں داخل ہوا۔ کافی منت سماجت کے بعد وہ گاوں والوں کی پنچائیت کے سامنے پیش ہوا اور ایک بری خبر سنائی۔نوجوان نے بتایا کہ ایک کمپنی سرکار سے بات کررہی ہے کہ وہ اس گاوں یا جنگل کو اپنی تحویل میں لے کر یہاں جدید تعمیرات کرے گی اور جدید قصبہ آباد کرے گی۔ کیونکہ اس پراجیکٹ میں کمپنی ایسا بزنس لے کر آئے گی جو بہت لوگوں کو روزگار دے گا اور کمپنی بہت منافع بھی کمائے گی۔ اور سٹیٹ کو ٹیکس بھی دے گی۔ اس لیے سٹیٹ یا حکومت کمپنی کو این۔او۔سی دینے پر رضا مند لگتے ہیں۔ اور یہ کہ گاوں کے اس قبیلے کو جدید قصبے میں آباد کیا جائے گا اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے گا۔
گاوں کے لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے۔ کسی کو بھی قبول نہیں تھا کہ مذکورہ کمپنی ان سے وہ گاوں چھین لے ۔ چاہے اس کی وہ جو بھی قیمت ادا کریں۔
گاوں کے سردارنے اپنے قبیلے کو خطاب کیا ۔ اس نے کہا کہ یہ جو لوگ نیچے قصبے میں آباد ہیں ، یہ ہنسنا کھیلنا بھول گیے ہیں۔ یہ لوگ ہم سے بہتر زندگی تو نہیں گزارتے۔ موت انہیں بھی آتی ہے ۔ بیمار یہ بھی ہوتے ہیں۔ ہاں انکے کیرئیر ہوتے ہیں جو ہمارے نہیں ہوتے۔لیکن ہمیں اپنا طرز زندگی اچھا لگتا ہے۔ ہم مزاحمت کریں گے۔ ہمارے پاس نہ تو نوٹ ہیں جنھیں نیچے قصبے والے دولت کہتے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی راستہ ہے کہ ہم حکومت کو قائل کرسکیں کہ وہ اس کمپنی کو ہمارے گاوں پر قبضہ کرنے سے روک سکے۔ اس لیے ہم مزاحمت کریں گے۔
گاوں کا سربراہ کہنے لگا ’’یہ زمین مررہی ہے اور اس کے ذمہ دار نیچے قصبے والے ہیں‘‘ سردار بولے کہ انسان کا نیچرل لائف سٹائل یہی ہے جو ہمارا ہے۔ ہمیں یقین ہے انسان پلٹ کر واپس اپنے نیچرل لائف سٹائل کی طرف آئے گا۔اس گاوں کے ان لوگوں کے یہ تیور دیکھ کر کمپنی نے اپنے بزنس پراجیکٹ کی لوکیشن بدلنے پر غور شروع کردیا۔ سردار نے اگرچہ دور حاضر کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ لیکن موصوف کے خیال میں بنی نوع انسان کے درمیان میں ایک جنگ پھر سے پتھروں اور ڈنڈوں سے لڑی جانے والی ہے۔ ویسے آپ کا کیا خیال ہے انسان کا ڈی فالٹ یا یوں کیے نیچرل لائف سٹائل کون سا ہے؟ وہ جو جدید سائنسی اور صنعتی ترقی کی وجہ سے ممکن ہے یا وہ جب جدید سائنسی اور صنعتی ترقی ناپید تھی؟ غلطی سے ڈی فالٹ کا بٹن کسی بھی وقت دب سکتا ہے۔ اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔