رشتوں کا احترام سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں 

رشتوں کا احترام سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں 
رشتوں کا احترام سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا۔ اُنکے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، اپنی ہمت کے بقدر اُنکے ساتھ تعاون کرنا،ان کی خدمت کرنا،اُنکے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھنا اور اُنکی ہمدردی وخیرخواہی کے جذبات سے سرشار رہنا شریعت اسلامیہ میں صلہ رحمی کہلاتا ہے اور رشتہ داروں کیساتھ بدخُلقی و بدسلوکی کیساتھ پیش آنے کو قطع رحمی کہا جاتا ہے۔ بخاری شریف میں ہے کہ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلہ کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے، بلکہ اصل میں صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے۔“
بخاری ومسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی بندہ تم میں اس وقت تک سچا مومن نہیں ہو سکتاجب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئےپسند کرتاہے۔شریعت اسلامیہ میں صلہ رحمی واجب اور قطع رحمی حرام ہے۔ قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں صلہ رحمی کی تاکید اور قطع رحمی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ 
1-صلہ رحمی قرآن مجید کی روشنی میں۔۔۔۔
چنانچہ سورت بقرہ میں ارشادِ خداوندی ہے کہ وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں  اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹ ڈالتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں  ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔
اسی طرح سورت نسآء میں ارشاد ربانی ہے کہ اور اللہ تعالی کی بندگی کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کیساتھ نیکی (حُسن سلوک) کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اور پاس بیٹھنے والے(رفیقِ سفر ، اہلیہ)اور مسافر اور اپنے غلاموں کے ساتھ بھی (نیکی کرو)، بے شک اللہ پسند نہیں کرتا اِترانے والے بڑائی کرنے والے (متکبر اور شوخی باز )شخص کو۔ 
سورت رعد میں ارشاد ربانی ہے کہ وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ،یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا  ،اور نماز قائم کی اور ہم نے انہیں جو رزق عطا کیا اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں،انہی لوگوں کے لیے انجام کا گھر ہوگا، ہمیشہ رہنے کے باغات، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباء، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے، یہ کہتے ہوئے کہ "سلام ہو تم پر" بسبب تمہارے صبر کرنے کے، سو کیا ہی خوب ہے انجام کا گھر۔
اور اسی طرح سورت نور میں ارشادِ ربانی ہے کہ اور جو لوگ تم میں صاحبِ  فضل (اور صاحبِ )  وسعت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ (خیرات) نہیں دیں گے ان کو چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے ۔

2- صلہ رحمی احادیث مبارکہ کی روشنی میں۔۔
احادیث مطہرات میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’جس کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کی روزی کشادہ کی جائے اوراس کی عمر لمبی( زندگی میں برکت ) کی جائے تو اسے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے رہنا چاہیے‘ ۔( بخاری ومسلم )۔ 
حضرت ابو اُسید ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم حضور نبی کریم ﷺ  کی خدمت میں حاضر تھے،قبیلہ بنو سلمہ سے ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! کیا میرے والدین کے مجھ پر ایسے بھی حق ہیں جو مجھے انکے انتقال کے بعد ادا کرنے چاہئیں؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں انکے لئے مغفرت وبخشش ورحمت کی دعا کرتے رہنا،انکا اگر کسی سے عہد معاہدہ ہو تو اسے پورا کرنا ان کے تعلق سے جو رشتے ہوں انکا لحاظ رکھنا اور انکا حق ادا کرنا اور انکے دوستوں کا احترام و اکرام کرنا (سُنن ابو داؤد ) 
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ  نے ارشاد فرمایا جو کوئی یہ چاہے کہ قبر میں اپنے باپ کو آرام پہنچائے اور والد کی خدمت کرے تو باپ کے انتقال کے بعد اسکے بھائیوں(اپنے چچاؤں) کیساتھ وہ اچھا برتاؤ رکھے جو رکھنا چاہیئے (صحیح ابن حبان) 
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا" میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے کیا توبہ کی کوئی صورت ہے ؟ آپ ﷺ نے پوچھا! کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا نہیں" آپ ﷺ نے فرمایا کیا تیری خالہ ہے،؟ اس نے عرض کیا جی ہاں! آپﷺ نے ارشاد فرمایا جاؤ اس سے جا کر حُسن سلوک کرو ( اللہ تعالی تجھے معاف فرما دینگے) (سُننِ ترمذی )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میرے اقارب ہیں، میں ان سے جوڑ پیدا کرتاہوں ، مگر وہ مجھ سے توڑتے ہیں میں اُن پر احسان کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے بدی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ حلم وبردباری سے پیش آتا ہوں مگر وہ مجھ سے جہل وجفا سے پیش آتے ہیں ۔تو آپ ﷺ  نے اس شخص سے فرمایا : اگریہی حال ہے جو تم نے بیان کیا ہے، تو تُو ان کے منہ پر جلتی راکھ ڈالتاہے اور ہمیشہ اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک فرشتہ رہے گا جو تم کو ان پر غالب رکھے گا جب تک تُو اس حالت پر رہے گا"(مسلم شریف )
3- جنت میں لے جانیوالا عمل ۔۔ 
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے اور میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ کے وہ مبارک کلمات جو سب سے پہلے میرے کانوں میں پڑے وہ یہ تھے کہ آپ ﷺ  نے ارشاد فرمایا لوگو! ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کرو اللہ تعالی کی رضاجوئی کیلئے لوگوں کو کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو اور رات کے ان لمحات میں(نوافل) نماز ادا کیا کرو جب عام لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوں یاد رکھو ان امور پر عمل کر کے تم حفاظت اور سلامتی کیساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے جنت میں پہنچ جاؤ گے ۔(ترمذی شریف )
ایک حدیث میں ہے کہ ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالی عنھا نے اپنی ایک باندی کو آزاد کیا،جب حضور نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا اگر وہ باندی تم اپنے ماموں کو دے  دیتیں تو تمہیں زیادہ اجر وثواب ملتا۔ (مشکوۃ شریف )
اسلام میں غلام باندی کو آزاد کرنے کی بہت ترغیب ہے اور اُسے بہترین کارِ ثواب قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود صلہ رحمی کا مرتبہ اس سے بہرحال اعلی ہے اس کی تائید بھی حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے ۔ 
آپ ﷺ  نے ارشاد فرمایا محتاج کی خدمت کرنا صدقہ ہے مگر اپنے کسی عزیز کی مدد کرنا دو امروں پر مشتمل ہے ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی ۔ 
صرف مصرف کے تبدیل کرنے سے دو طرح کا اجر وثواب مل جاتا ہے چنانچہ حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم  ﷺ نے ارشاد فرمایا صدقہ عام مسکینوں فقیروں کو دینے میں تو صرف صدقہ کا ثواب ملتا ہے مگر اپنے ذی رحم رشتہ داروں کو دیا جائے تو اس میں دوہرا اجر وثواب ہے ایک صدقہ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا یعنی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا۔(ترمذی شریف)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا مجھے بتلا دیجیئے کہ وہ کونسا عمل ہے جو مجھے جنت کے قریب اور جھنم سے دور کر دے؟تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نماز قائم کرو زکوۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔(تفسیر بغوی)
4-جنت میں جانے سے رکاوٹ بننے والا عمل۔ 
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :’قطع رحمی کرنے والا( یعنی رشتہ داروں اوراہل قرابت کیساتھ بُرا سلوک کرنیوالا)جنت میں نہ جا سکے گا۔ (بخاری و مسلم )
5-مسکین قرابت دار کا پہلا حق :
صدقہ سب سے پہلے جسے دیا جائیگا وہ ایسے قرابت دار ہیں جو مسکین بھی ہوں ،حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا باغ صدقہ کیا تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’میں سمجھتا ھوں کہ اس باغ کو تم اپنے قرابت داروں پر صدقہ کردو ‘ تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچا زادوں پر صدقہ کر دیا " ۔ (بخاری ومسلم )
6-قطع رحمی کی سزا دنیا میں۔ 
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جسکی سزا اللہ تعالی دنیا میں دیں سوائے قطع رحمی،سرکشی وبغاوت کے ۔(بخاری شریف )
7-قطع رحمی کرنے والے کے اعمال مردود۔۔۔
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے خود حضور نبی کریمﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر جمعرات کو اللہ تعالی کے حضور بنی آدم کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں مگر اُن میں سے قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں ہوتا۔ (مشکوۃ شریف )
8-قطع رحمی کی صورتیں۔ 
قطع رحمی صلہ رحمی کی ضد ہے،مطلب ہے رشتے ناطے کاٹنا،اسکی عملی زندگی میں بہت سے صورتیں ہیں مثلاً ۔
رشتہ داروں سے بدگمانی کرنا،انکی غیبت کرنا،چغلی کھانا،ان سے بدزبانی سے پیش آنا،ضرورت کے وقت رشتہ داروں کی مدد نہ کرنا،جو جس مرتبے کا رشتہ ہے اسکا لحاظ نہ رکھنا،قول معروف اور میٹھی زبان کی بجائے سخت گوئی سے کام لینا،باہم میل ملاقات نہ رکھنا،خوشی یا غم یا کسی اور اہم موقع پر شرکت نہ کرنا یا اُنہیں اپنے ہاں شریک نہ کرنا،تحائف قبول نہ کرنا،دعوت قبول نہ کرنا،بیماری کے موقع پر عیادت نہ کرنا،حسد کرنا وغیرہ وغیرہ ۔۔

کرو مہربانی تم اہل زمین پر
خدا مہربان ہو گا عرش بریں پر