وزیراعلیٰ پنجاب کی تجاوزات کے خلاف مہم اور سرکاری اہلکار

  وزیراعلیٰ پنجاب کی تجاوزات کے خلاف مہم اور سرکاری اہلکار
  وزیراعلیٰ پنجاب کی تجاوزات کے خلاف مہم اور سرکاری اہلکار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے صوبے بھر میں تجاوزات کے خلاف مہم شروع کی تو بہت خوشی ہوئی کہ عوام کا ایک دیرینہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور ٹریفک جام کے ساتھ ساتھ پیدل آمدورفت میں رکاوٹ بھی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ وقت بچے گا اور لوگوں کو جس ذہنی کرب سے گزرنا پڑتا ہے انہیں اس سے نجات مل جائے گی۔ بعد ازاں گزشتہ ماہ وزیراعلیٰ مریم نواز نے جب یہ کہا کہ ٹریفک میں آسانی کے لئے تجاوزات کا خاتمہ ناگزیر ہے، لیکن عام آدمی کو بے روزگار نہیں کیا جائے گا، کسی غریب سے روزگار نہیں چھینا جائے گا، بیروزگار ہونے والے افرادکے لئے متبادل انتظام کیا جائے گا، ہر شہر میں انسدادِ تجاوزات مہم کے متاثرہ افراد کے لئے متبادل جگہ فراہم کی جائے گی، تو اور بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ تجاوزات کا سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔

 یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ تجاوزات ٹریفک بلاک کا باعث بنتی ہیں جبکہ ٹریفک بلاک فضائی آلودگی بڑھانے کا باعث کہ ایک ہی جگہ پر سینکڑوں کی تعداد میں سٹارٹ گاڑیاں گھنٹوں کھڑی رہیں تو پٹرول کے جلنے سے پیدا ہونے والے دھوئیں میں سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں فضائی آلودگی پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور لاہور تو فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کا نمبر ون شہر مشہور ہو چکا ہے۔ ایسے میں بلاک ٹریفک لوگوں کی صحتوں پر کیا قیامت ڈھاتی ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تیل اور ڈیزل کے ضیاع کی صورت میں پیسے کی جو بربادی ہوتی ہے وہ اس پر مستزاد۔

یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ مختلف شہروں میں ریڑھی بازاروں کا اہتمام کیا گیا ہے اور ایک ہی جگہ پر ریڑھیاں لگا کر ان پر سامان فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس سے تجاوزات کا مسئلہ حل تو ہوا، لیکن جزوی طور پر کیونکہ جن سڑکوں کے کناروں پر فٹ پاتھوں پر یہ بازار سجائے گئے ہیں لوگ جب گاڑیوں پر آتے ہیں تو گاڑیاں سڑک پر کھڑی کر کے ان ریڑھی بازاروں، اتوار بازاروں اور رمضان بازاروں سے چیزیں خریدتے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ ٹریفک پھر اسی طرح بلاک ہو جاتی ہے جیسے وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے تجاوزات کے خاتمے کے حوالے سے اقدامات سے پہلے تھی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت کے ارباب بست و کشاد کی جانب سے بھی اس معاملے پر توجہ نہیں دی گئی کہ گاڑیاں سڑک پر کھڑی کرنے سے ٹریفک بلاک اور تجاوزات کا مسئلہ ایک نئی صورت اختیار کر چکا ہے۔ 

میرے ذاتی خیال میں اس سارے معاملے میں وزیراعلیٰ کی جانب سے تجاوزات کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں کیے گئے اقدامات کے صائب ہونے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں لیکن وہ جو کہا جاتا ہے کہ اچھی انتظامیہ اور اچھے افسر ہی گڈ گورننس کا باعث بنتے ہیں تو یہاں پہ بھی معاملہ کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے ماتحت کام کرنے والی انتظامیہ یا تو ان کی ہدایات کو سمجھ نہیں سکی اور اگر سمجھ سکی ہے تو پھر اس کی جانب سے ان ہدایات پر ٹھیک طرح سے عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ مریم نواز نے انکروچمنٹس ختم کرنے کا جو قصد کیا ہوا ہے اس کو ان کے اپنے لوگ ہی ناکام بنا رہے ہیں۔ یہ بھی لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ کی تجاوزات کے خلاف مہم بالکل کامیاب نہیں ہو رہی۔ سڑکوں پر اسی طرح ریڑھیاں لگتی ہیں، اسپیشلی اتوار والے دن تو بہت زیادہ لگ جاتی ہیں۔ محترمہ وزیراعلیٰ سے کہنا صرف یہ ہے کہ عوام سے زیادہ انہیں اپنے اداروں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے جو ان کی ایک بہترین کوشش اور کاوش کو ناکام بنا رہے ہیں۔ ان کا قبلہ درست کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ٹریفک پولیس کی بھی ڈیوٹی لگائیں کہ وہ صرف موٹر سائیکل والوں کے چالان ہی نہ کرتے رہا کریں بلکہ کچھ توجہ ٹریفک کا بہاؤ ٹھیک کرنے پر بھی دیا کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر سڑکوں پر سے ریڑھیاں اور دوسری تجاوزات ہٹا بھی دی جائیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ سڑکوں پر جا بجا قانونی اور غیر قانونی، جائز اور ناجائز موٹر سائیکل اور گاڑیوں کے پارکنگ سٹینڈز بنے ہوئے ہیں۔ وہ ایک تو لوگوں سے اوور چارجنگ کرتے ہیں اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ یہ سننے میں آیا ہے کہ پارکنگ سٹینڈز والی چھپی ہوئی پرچیاں اردو بازار سے عام مل جاتی ہیں، چنانچہ جس کا دل چاہے وہ پرچیاں خرید کر کہیں بھی اپنا پارکنگ سٹینڈ بنا کر بیٹھ سکتا ہے اور اوور چارجنگ کر کے شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ سکتا ہے۔ کسی کو کوئی پتا نہیں کہ ان میں سے کون سا پارکنگ سٹینڈ اصلی ہے اور کون سا نقلی۔ دوسرا یہ کہ ایسے پارکنگ سٹینڈ ٹریفک کے بہاؤ کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ یہ پارکنگ سٹینڈ آدھی آدھی سڑکوں کو اپنے گھیرے میں لئے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ تجاوزات کے خلاف چلائی مہم ناکام ہو چکی ہے۔ میرے خیال میں جب تک سڑکوں پر بنے ان پارکنگ سٹینڈز کو ختم نہیں کیا جائے گا اِس وقت تک تجاوزات کا مسئلہ حل نہیں ہو گا، کیونکہ میرے خیال میں اور لوگوں کی اکثریت کے خیال میں یہ سائیکل سٹینڈ بھی تجاوزات کے زمرے میں ہی آتے ہیں اور ٹریفک کو تجاوزات ہی کی طرح متاثر کرتے ہیں۔ میں یہاں ایک بار پھر ماڈل ٹاؤن کچہری لاہور کی دو رویہ سڑکوں کی مثال دوں گا جہاں ایک طرف گاڑیاں کھڑی ہونے کی وجہ سے فلائی اوور کے نیچے سے آنے والی ٹریفک بلاک رہتی ہے، جبکہ دوسری سڑک پر بنا پارکنگ سٹینڈ کوٹ لکھ پت کی طرف جانے والی ٹریفک کی راہ میں رکاوٹ بنا رہتا ہے۔ یہاں تقریباً روزانہ ٹریفک بلاک رہتی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو وہاں سے گزرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ وزیراعلیٰ پنجاب اگر اپنی تجاوزات کے خلاف مہم کو کامیاب بنانا چاہتی ہیں تو ضروری ہے کہ وہ ان پارکنگ سٹینڈز کا بھی کوئی مناسب کریں، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ آغاز ہی پارکنگ سٹینڈز کے خاتمے اور انہیں لیگلائز کرنے سے ہونا چاہئے۔ سڑکوں پر پارکنگ سٹینڈز بنانے کی ممانعت ہونی چاہئے۔  

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -