مجھے اب زندہ نہیں رہنا
ہائے میرے نصیب میں تو شوہر پہ حکومت کرنا بھی نہیں لکھا،نہ پیسوں کی فراوانی نہ ساس سے چھٹکارا، بس فکریں مصیبتیں ہی رہ گئیں میرے لئے، میں کیوں آ گئی اس دنیا میں۔ کوئی خوشی تو نصیب میں ہے نہیں۔ اس دن ساتھ والی فریدہ جب مجھے اپنا مہنگا ڈنر سیٹ دکھا رہی تھی تو میرا کتنا دل چاہا تھا کہ میرے پاس بھی ایسا مہنگا سیٹ ہوتا۔ چلو خرید نہیں سکتی اس پہ تو دل کوسمجھا لیا تھا، لیکن کیا تھا اگر فریدہ مجھے اس نئے نکور سیٹ کی پلیٹ میں بریانی ہی ڈال کر کھلا دیتی، اپنی حسرت ہی پوری ہو جاتی۔
اور وہ جو کھاڈی کے اتنے اچھے جوڑے دکھائے تھے آپا کلثوم کی بہو نے، میں تو دل ہی مسوس کر رہ گئی۔ سچی بات ہے ہماری تو آج تک اوقات نہ ہو سکی کہ ہم بھی کوئی برینڈ کا سوٹ خریدلیں۔ لے کے وہی ہزار روپے والا سستا سا سوٹ لے دیتے ہیں، کیا ہے اگر مجھے بھی کبھی ڈیزائنر جوڑا نصیب ہو۔ لیکن نہ جی جب بھی کوئی فرمائش کرو آگے سے ہاتھ تنگ ہے سنا دیتے ہیں۔ بتا رہی، کچھ نہیں میری زندگی میں، بس جی کو مار کے جیتے رہو اور جی کرے نہ کرے سال کے سال نئے جی سے ہوتے جاؤ۔ اس وقت منے کے ابا کو تنگ ہاتھ یاد نہیں آتا۔ تب آنے والا اپنا رزق لے کر آئے گا، کا راگ سنا دیتا ہے۔ اوپر تلے کے چھ بچوں جن سے صلے کی کوئی امید ہی نہیں نے مت مار رکھی ہے اور ان بچوں سے صلے کی امید کیا رکھوں جب بچوں کے باپ سے آج تک کوئی امید پوری نہیں ہوسکی۔اس نے دیا کیا ہے مجھے۔ بس وہی تین مرلے کا گھر جس کے باتھ روم کی ٹائیلز تک گھس چکیں۔رات کتنے چاؤ سے پزا کھانے کی فرمائش کی تو منہ دوسری طرف کر کے خراٹے لینے لگا۔ پزا منگوا کر مجھے خوش کر دیتا تو کیا تھا رات کے دو ہی تو بجے تھے۔ خود بھی تو مجھ سے بے وقت کھانے کی فرمائش کرتا ہے۔
کوئی ایک دکھ ہو میری زندگی میں تو بتاؤں۔ بس اپنی دکھ بھری زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ روز روز مرنے سے ایک ہی بار مرجانا بہتر ہے، ویسے بھی کون سا قیامت تک یہیں بیٹھے رہنا ہے جب ایک دن مرنا ہی ہے تو پھر ابھی کیوں نہیں۔ بس بتا رہی ہوں مجھے اب زندہ نہیں رہنا۔ میں نہیں ڈرتی ورتی اس سے، ارے کل کی آتی آج آئے۔ میرے لئے اس دنیا میں ہے کیا، جو زندہ رہنے کی ہڑک ہو۔ بس آج پکا فیصلہ کر لیا ہے جونہی منے کا ابا صبح کام پہ جائے گا، اور میں نیند آور گولیوں کی بڑی مقدار کھا کر مر جاؤں گی۔
ساری رات دن کے انتظار میں نیند نہیں آئی۔ مجھے بس صبح ہونے کا انتظار تھا، صبح وقت سے پہلے ہی بستر سے اٹھ گئی،منے کے ابا کو جلدی جلدی ناشتہ کروا کر کام پہ بھیجنا تھا تاکہ اپنا کام تمام کر سکوں۔ پونے سات بجے منے کے ابا کو پورے سات بل والا دیسی گھی کا پراٹھا بنا کے دیا۔ سوچا میرے بعد کب نصیب ہوگا اس کو سالوں کا ساتھ چھوٹنے والا تھا دل کو کچھ ہونا لازمی تھا، ساتھ رہتا تو جانور بھی پیارا ہوجاتا یہ تو پھر منے کا ابا تھا۔ سپیشل دودھ پتی بنا کے پلائی اسے، دو پراٹھے ساتھ بھی دے دیئے۔ رات کی لڑائی کے آثار نہ پاکر وہ پریشان ہوگیا ”طبیعت ٹھیک ہے نا“ اس نے پوچھا۔ میں آگے سے کچھ نہ بولی۔ اب دنیا سے جاتے وقت کیا لڑائی کرنی، کہا تو بس اتنا، تم اپنے کام سے کام رکھو اور واشنگ مشین لگا لی کہ گندے کپڑوں کا ڈھیر لگا تھا، میرے جانے کے بعد بچے کیا پہنتے،چلو چار دن تو آرام سے گذر ہی جائیں گے ان کے، کپڑے دھوتے ہوئے خیال آیا گھر بھی کافی گندا ہو رہا ہے کہ میرے مرنے پہ لوگ اکھٹے ہوں گے تو کیا سوچیں گے، کتنی گندی تھی۔ میں نے کپڑوں کی دھلائی سے فارغ ہونے کے بعد سارا گھر دھوڈالا، اس گھر کے کونے کونے سے محبت تھی کہ ہر چیز کتنے پیار سے بنائی تھی اور اب اس ظالم شخص کی وجہ سب چھوٹ رہا ہے فرش دھوتی جاتی اور روتی جاتی۔ کچن کی لمبی چوڑی صفائی کرتے ہوئے میرے ہاتھ لرز رہے تھے۔ پتہ نہیں میرے بعد اس گھر کا کیا حال ہوگا۔ سب کام کرتے سہ پہر ہو گئی۔ بچوں نے سکول سے آکر اودھم مچا رکھا تھا، منا اور کاکی بھوک سے رونے لگے۔ان کو روتے دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا۔ کتنی ظالم ماں ہوں بچوں کو آخری بار اپنے ہاتھ سے کھانا بھی نہیں کھلا سکتی؟ جھٹ سے ان کے لئے نوڈلز بنائے تو لگے ہاتھ ان کے ابا کے لیئے اس کی پسندیدہ بریانی بھی بنا دی۔ کیا یاد کرے گا، میرے بعد کب اسے بریانی نصیب ہو نی۔
لیکن یہی اچھا ہے اس کے لئے،جیتے جی تو قدر نہ کی اب میرے مرنے کے بعد ہی قدر آئے گی اسے، کیا بتاؤں آپ کو، میرا غم کوئی نہیں سمجھ سکتا، رات پزے والا دکھ یاد کر کے ایک بار پھر میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، اتنا بڑا دکھ کوئی دیتا ہے بیوی کو، آج مجھے مرنا تھا اس لئے میں سب کچھ جلدی جلدی کر رہی تھی پھر بھی شام ہو گئی۔ دن کدھر گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ منے کا ابا کام سے واپس آگیا،واپسی میں اس کے ہاتھ میں پھولوں کے گجرے تھے اور میری پسند کی رس ملائی بھی۔
رس ملائی یکھ کر منہ میں پانی آگیا۔ قسمت دیکھو پزے کی طرح اب رس ملائی بھی کھائے بغیر ہی مروں گی۔ میں نم آنکھیں لئے کمرے میں گھس گئی منے کے ابا نے پیچھے سے آکر میرے ہاتھوں میں گجرے پہنا دیئے، میرے آنسو صاف کیئے تو میں پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
عجب مشکل آن پڑی تھی، اتنے پیار سے گجرے پہنانے والے کو چھوڑ کر کیسے مروں؟ اور پھر اگر میں چلی گئی تو وہ سامنے والی رفعت چڑیل جس کی آنکھیں میرے ہی گھر لگی رہتی ہیں، فٹ منے کے ابا کو اپنے قابو میں کر لے گی۔ جو میرے بعد اسے گجرے پہنائے گا، اور اس کے لئے رس ملائی لے کر آئے گا۔ نہیں نہیں میں اس چڑیل کے لئے اپنی جگہ ہرگز خالی نہیں کروں گی اور منے کا ابا اتنا بُرا بھی نہیں کہ خود مر کر اسے کسی اور کو سونپ دوں، مرنے کا ارداہ خاک میں ملا کر رس ملائی پیالے میں ڈالنے لگی۔
منے کے ابا سے آج پھر بہت لڑائی ہوئی ہے. حرام ہے جو اس نے کبھی میری مانی ہو، اس نے مجھے کچھ نہیں دیا سوائے دکھوں کے۔بس فیصلہ کر لیا ہے مجھے اب زندہ نہیں رہنا،اس بار تو میں مر کے دکھاؤں گی. میں نے سوچ لیا ہے.نیند آور گولیاں جو پچھلی بار پیٹی سے نکالی تھیں پتہ نہیں اب کس صندوق میں رکھی ہیں۔ بس ایک بار دن چڑھ جائے ڈھونڈ لوں گی انہیں بھی۔ دن کے انتظار میں رات بھر نیند نہیں آئی اور …………۔