اب قاسم کو مارسی کا پتہ تو معلوم ہوچکا تھا۔ لیکن وہ محسوس کر رہا تھا کہ مارسی ایک بار پھر اس سے دور چلی گئی ہے۔ شاگال کا کالا جہاز کہاں تھا؟ کسی بحری جہاز کو سمندرم یں ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ ادھر سلطان محمد خان کا پیغام قاسم کو مل چکا تھا اور قاسم، مارسی سے زیادہ اپنے عظیم مقصد کو ترجیح دیتا تھا۔ چنانچہ قاسم نے فیصلہ کیا کہ وہ مقدس نقشہ حاصل کرتے ہی سب سے پہلے سلطان محمد خان کی خدمت میں حاضر ہوگا۔
قاسم شہر سے باہر جانے کے لیے تیزی کے ساتھ ’’گولڈن ہارن‘‘ کی سمت میں واقع فصیل شہر کے دروازے کی جانب جا رہا تھا۔ اسکے پاس شیخ صلاح الدین کا مہیا کیا ہوا گھوڑا تھا اور بدن پر ابھی تک قسطنطنیوی فوج کے یونانی سپاہی کالباس تھا۔اسے معلوم تھا کہ شہر کے دروازے پر اس سے سخت قسم کی پوچھ گچھ کی جائے گی۔ لیکن وہ ذہنی طور پر آج ہر صورت میں آخری خد تک جانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ اسے سلطان محمد خان کے پاس پہنچنے کی جلدی تھی۔ وہ رات کی تاریکی میں قسطنطنیہ شہر کو تیزی کے ساتھ عبور کرتا ہوا فصیل کے دروازے تک جا پہنچا۔ فصیل کا دروازہ بند تھا۔ دروازے کی اندرونی طرف یونانی سپاہیوں کا ایک بہت بڑا دستہ موجود تھا۔ زیادہ تر فوجی ٹولیوں کی صورت میں آگ کے الاؤ جلائے بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔ اس عظیم الجثہ دوازے کی عمارت میں بنے دفاتر بند تھے۔ البتہ پہریدار دستے کا سپہ سالار دروازے کے نزدیک ہی ایک میز اور کرسی پر بیٹھا اکیلا شراب پی رہا تھا۔ قاسم جونہی دروازے کی برآمدہ نما عمارت کے احاطے میں داخل ہوا اس کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سن کر تمام سپاہی چونک گئے۔ دستہ سالار بھی شراب کی بوتل ایک طرف رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ یوں آدھی رات کے وقت کسی شہسوار سپاہی کا جنگ کے ان ایام میں اس طرف آنا اگرچہ معمولی بات تھی لیکن پھر بھی پہریدار دستے کے سپاہیوں کا چونکنا قاسم کا دل دہلانے کے لیے کافی تھا۔ پہریدار دستے کا سالار قاسم کو دیکھتے ہی آگے بڑھا اور قاسم کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بول اٹھا۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 105پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’آپ کے لباس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ محافظ شاہی دستے کے سپاہی ہیں۔ لیکن اس وقت آپ کا یہاں آنا ہمارے لئے حیرت کا باعث ہے۔‘‘
قاسم نے پہلے ہی سے یہی سوچ رکھا تھا کہ وہ خود کو شاہی دستے کا سپاہی ظاہر کرے گا۔ اس کا لباس اور آہنی خود بھی شاہی دستے کے سواروں جیسا تھا۔ لیکن اب تو پہریدار دستے کے سالار نے خود ہی قاسم کی مشکل آسان کر دی تھی۔ قاسم نے جواب دیا۔
’’ہاں، میں شاہی دستے کا سپاہی ہوں۔ اور شہنشاہ معظم کا ایک اہم پیغام لے کر ’’برج غلاطہ‘‘ کی آٹھویں منزل پر مقیم ’’مقدس بطیلموس‘‘ کی خدمت میں جا رہا ہوں۔‘‘
قاسم نے جان بوجھ کر اپنے لہجے میں کرختگی کا عنصر نمایاں رکھا۔ کیونکہ شاہی دستے کے سوار عموماً اسی لہجے میں بات کرتے تھے۔ پہریدار دستے کا سالار قاسم کی بات سن کر شش و پنج میں مبتلا ہوگیا۔ اسے حکم دیا گیا تھا کہ غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک کسی بھی شخص کو شہر میں داخل نہ ہونے دیا جائے اور نہ ہی شہر سے باہر جانے دیا جائے۔ چاہے کوئی کتنا بڑا افسر ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اب شاہی دستے کا ایک عام سا سپاہی سالار سے دروازہ کھولنے کی بات کر رہا تھا۔ اس نے جھجکتے جھجکتے قاسم سے کہا۔
’’دیکھئے جناب! ہم صبح سے پہلے کسی شخص کے لئے دروازہ کھولنے کے مجاز نہیں صبح ہونے میں دو تین گھنٹے ہی باقی ہیں آپ کچھ دیر ہمارے ساتھ رک جائیے طلوع آفتاب کے بعد ہم آپ کے لیے ذیلی کھڑکی کھول دیں گے۔‘‘
قاسم کو اسی بات کی توقع تھی۔ اس نے فوراً اپنی جیب سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکالا جو دراصل ایک جعلی شاہی اجازت نامہ تھا۔ قاسم اس قسم کے کاموں میں بہت ماہر تھا اس نے شیخ صلاح الدین کے ساتھ مل کر اپنے مشن کے لیے ضروری ساز و سامان کا بندوبست پہلے سے کر رکھا تھا۔ چنانچہ اس نے قسطنطنین کی مہر لگا اجازت نامہ پہریدار دستے کے سالار کو دکھایا تو سالار بری طرح گھبرا گیا۔ کیونکہ بڑے افسر بھی عموماًاس طرح کا اجازت نامہ لے کر نہ چلتے تھے۔ دستہ سالار نے فوراً سپاہیوں کو ذیلی کھڑکی کھولنے کا حکم دیا اور خود ایک طرف ہٹ گیا۔
قاسم نے شاہی اجازت نامہ تہہ کر کے جیب میں رکھا اور گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ہی سر کو قدرے نیچے کی طرف جھکائے ہوئے ذیلی کھڑکی سے پار ہو گیا۔ اب وہ قسطنطینہ سے باہر تھا۔ طویل قامت ’’برج غلاطہ‘‘ اس کے سامنے تھا جس کی دسویں منزل پر بہت زیادہ مشعلین روشن رہنے کی وجہ سے سمندر میں سینکڑوں میل دور تک جہازوں کو رہنمائی دی جاتی تھی۔
’’برج غلاطہ‘‘ قسطنطنیہ کا ایک قدیم ٹاور تھا۔ یہ 507ء میں رومی حکومت نے لائٹ ہاؤس‘‘ کے طورپر تعمیر کیا تھا۔ برج غلاطہ کے آس پاس موجود آبادی کو ’’غلطہ‘‘ کی بستی کانام دیا جاتا تھا۔ یہ بستی دراصل قسطنطنیہ میں آنے جانے والے تاجروں کے مسلسل پڑاؤ کرنے سے دھیرے دھیرے بنتی چلی گئی تھی۔ برج غلاطہ دس بڑی بڑی منزلیں تھیں۔ غلطہ کی بستی پر خاموشی چھائی ہوئی تھی اور ہر طرف سنسنانی کے پہرے تھے۔ قاسم برج غلاطہ کے نزدیک پہنچ کر اپنے گھوڑے سے اترا اور گہری نظر سے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لینے لگا۔ برج غلاطہ کی سب سے نچلی منزل کے سامنے چند خیمے نصب تھے۔ لیکن ان خیموں میں جو کوئی بھی تھا گہری نیند سو رہا تھا۔ قاسم نے کسی قدر اوٹ تلاش کرکے اپنے گھوڑے کو باندھ دیا۔ اسے قسطنطنیہ کے محافظوں کی بدنصیبی پر افسوس ہونے لگا جو ہر خطرے سے بے خبر شراب کے نشے میں بدسمت سو رہے تھے۔
قاسم نچلی منزل کے دروازے تک پہنچا تو اس کی توقع کے مطابق دروازہ بند تھا۔ لیکن قاسم ذرا بھی پریشان نہ ہوا اس نے بے دھڑک برج غلاطہ کی نچلی منزل کا دروازہ کھٹکھٹا دیا اندرونی طرف موجود چوکیدار بھی شاید سو رہا تھا۔ قاسم نے با آواز بلند بار بار دستک دینا شروع کر دی۔ اور پھر کچھ دیر بعد اسے اندر سے چلتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی۔
برج غلاطہ پر زیادہ پہرہ ضروری نہ سمجھا گیا تھا۔ کیونکہ برج غلاطہ صرف مینارہ نور تھا۔ کوئی فوجی نوعیت کا اسلحہ بردار برج نہ تھا۔ یہ برج سمندری جہازوں کی رہنمائی کے لیے بنایا گیا تھا۔ چنانچہ یہاں قیصر کو زیادہ پہریدار یا محافظ متعین کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
چوکیدار نے بغیر پوچھے نچلی منزل کا دروازہ کھول دیا۔ کیونکہ اسے کسی دشمن کے آنے کی توقع ہی نہ تھی۔ دروازہ کھلتے ہی چوکیدار کی نظر قاسم کے لباس پر پڑی۔ وہ ایک مستعد ہوگیا۔ قاسم نے تحکمانہ لہجے میں چوکیدار سے کہا۔
’’کیا تم سو رہے تھے؟ تم اس طرح اپنا فرض ادا کرتے ہو؟‘‘
چوکیدار ایک دم سہم گیا۔ اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اور ٹانگیں کانپنے لگیں۔ وہ سمجھا کہ شاہی دستے کا افسر اسے اپنے فرض سے غفلت پر سزا دے گا۔ وہ ہاتھ جوڑ کر گڑگڑایا۔
’’صاحب ۔۔۔دراصل آج ویسے ہی کچھ آنکھ لگ گئی تھی۔ ورنہ پہلے تو جاگتا رہتا ہوں۔‘‘قاسم کے پاس وقت کم تھا۔ چنانچہ اس نے نرم لہجے میں کہا۔
’’پہلے جاگتے رہتے تھے۔۔۔اچھا، تو پھر ٹھیک ہے۔ تم یہاں بیٹھو۔ دروازہ اندر سے بند کر لو۔ اور جب تک میں واپس نہ آؤں کسی کو اندر نہ آنے دینا۔‘‘
قاسم کا رویہ دیکھ کر چوکیدار خوش ہوگیا اور فوراً اس نے حکم کی تعمیل کے لیے زور زور سے سر ہلایا۔
قاسم اسے چھوڑ کر آگے بڑھا اور اب وہ دس منزلہ بلند مینار پر چڑھ رہا تھا۔ اب اس کے سامنے ایک مشکل اور صبر آزما چڑھائی تھی۔ برج غلاطہ کے چاروں طرف تقریبا192زینے کسی سانپ کی طرح بل کھاتے ہوئے اوپر اٹھویں منزل تک جا رہے تھے قاسم کو اب مسلسل زینے چڑھنے تھے۔ رات کا تیسرا پہر شروع ہو چکا تھا۔ کچھ دیر چڑھنے کے بعد اسے اپنے بھاری جوتوں کی ٹھک ٹھک کسی مشین کی مسلسل ٹھک ٹھک جیسی محسوس ہونے لگی۔ قاسم کی سانسیں بری طرح پھول چکی تھیں۔ لیکن وہ رکنا نہیں چاہتا تھا۔ برج غلاطہ کے گرد سانپ کی طرح لپٹے زینے چڑھنے سے قاسم کو بار بار ایک دائرے کی صورت میں گھومنا پڑ رہا تھا جس سے اس کو چکر آنے لگے۔ لیکن وہ کسی چیز کی پرواہ نہ کر رہا تھا۔اور بالآخر 192زینے طے کرنے کے بعد قاسم آٹھویں منزل تک پہنچ گیا۔ برج غلاطہ کی ہر منزل پر صرف ایک ہی کمرہ تھا۔ قاسم آٹھویں منزل کے کمرے کے سامنے پہنچا۔ اور اس کا ارادہ تھا کہ وہ کمرے کے باہر پہنچ کر کچھ دیر کے لئے سستائے گا۔ لیکن جونہی وہ آخری زینہ طے کرکے کمرے کے سامنے آیا۔ بھونچکا رہ گیا۔ کیونکہ آٹھویں منزل کا دروازہ کھلا تھا اور ایک سفید ریش معمر بزرگ ہاتھ میں مشعل لئے دروازے کی دہلیز میں کھڑا قاسم کے لیے زینوں میں روشنی ڈال رہا تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)